میکسیکن افسانہ
( ہسپانوی زبان سے )
کیو کے اپاچی ( Los Apachies De Kiev )
( The Apaches of Kiev)
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
انہیں نباتاتی باغ میں لاش مِلی اور اس کی خبر اخباروں اور ٹیلی ویژن پر بھی آئی ۔ کیو * کی پولیس نے اسے فوراً پہچان لیا ؛ یہ رپورٹراور سیاسی تجزیہ کار ’ دمتری بیلوف ‘ تھا جوصدر’ پروشینکو‘ * کی حکومت پر شدید تنقید کے لئے مشہور تھا ۔ خیال تھا کہ اس نے خودکشی کی تھی لیکن اس بات کی تصدیق کرنے سے پہلے حکومت نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے سارے وسائل برﺅے کار لاتے ہوئے تفتیش مکمل کریں ۔
جزو وقتی روزگار والے ، جن میں پھیری لگانے والے اور طوائفیں بھی شامل تھیں اور جو اس باغ میں گھوما کرتے تھے ، ان میں سے چند ہی تھے جو اس بارے میں جانتے تھے ۔ اور بھلا کوئی جان بھی کیسے سکتا تھا ؟ ا ن کے پاس ٹیلی ویژن نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنے پیسے اخبار خریدنے پر ضائع کرتے ۔ یہ بات قابل فہم تھی کہ جن کو اس واقعہ کا علم تھا وہ اس علاقے میں جانے سے گریز کرتے ۔ انہیں معلوم تھا کہ کوئی بھی ہنگامہ یا شورش برپا ہو سکتی تھی ، خاص طور پر جب لاش کسی اہم شخصیت کی ہو ۔ پولیس بھی وہاں جا سکتی تھی اور ممکنہ گواہوں سے پوچھ گچھ کر سکتی تھی اور ساتھ میں انہیں دوسرے الزامات میں بھی دھر سکتی تھی ۔ یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ وہ پولیس کو وہی کچھ بتاتے جو وہ پہلے سے جانتی تھی ۔ ویسے بھی یہ جزو وقتی روزگار رکھنے والے پولیس کو ہفتہ وار بھتہ دیتے تھے کہ وہ ان پر ہاتھ نہ ڈالے ۔
اِس سب سے بے خبر تین آدمی ، جن کی عمر چالیس کے آس پاس تھی صبح گیارہ بجے کے بعد وہاں آئے ؛ وہ دیکھنے میں بدیسی تھے اور انہوں نے ویسٹرن فلموں کے اپاچیوں* جیسا لباس پہن رکھا تھا ۔ یہ ارنیسٹو اورٹیگا ، گونزیلو ایکیویڈو اور مِلٹن گُزمین تھے ؛ پہلا میکسیکو ، دوسرا سلواڈور جبکہ تیسرا وینزویلا سے تھا ۔ تینوں کا لباس ایک جیسا تھا ؛ ان کے سر سفید پروں سے ڈھکے ہوئے تھے جو ان کی کمر تک آتے تھے ۔ انہوں نے ’ کافی‘ رنگے چمڑے کی جیکٹیں ، پتلونیں اور نرم چمڑے کے جوتے پہن رکھے تھے ۔ ان کی جیکٹوں کے بازوﺅں اور کمریں کڑھائی سے سجی ہوئی تھیں ۔ ان کے چہروں پر روایتی جنگی میک اپ بھی موجود تھا ۔ ان کے پاس مختلف آلات ِ موسیقی تھے اور وہ باری باری ’ اینڈین‘ * موسیقی بجا رہے تھے ؛ ” ایل کنڈور پاسا “ ، ” پاجیرو چوگوئی “ اور ” مولینڈو کیفے “ وغیرہ ۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی موسیقی ان کے لباس کے ساتھ لگا نہیں کھاتی اور نہ ہی ان کے لباس ان کی قومیتوں سے کوئی میل رکھتے تھے لیکن یہی عجیب امتزاج ان کے لئے کاروباری طور پر بہتر تھا ۔ اس وقت کیو میں امریکہ سے الفت کا جنون زوروں پر تھا اوران کے پاس سے گزرنے والے اِن ’ شمالی امریکی انڈینز ‘ کو پیسے دیتے ہوئے خوش تھے جو ’ ان کے لوگوں‘ کی موسیقی بجا رہے تھے ۔ شاید ایسا تھا کہ ” لا فلور ڈی لا کینیلا ۔ ۔ ۔ “ کی موسیقی یوکرینیوں کو اس خوبصورت زندگی کی احساس دلاتی تھی جس میں مخروطی خیمے ، کوہان والے بالوں بھرے بھینسے ، جنگلی گھوڑے ، پوما ز * اور سفید سروں والے عقاب تھے ۔ کچھ ایسا بھی تھا کہ موسیقی بجانے اور گانے کے ساتھ ساتھ یہ ’ اپاچی‘ اسی موسیقی کی سی ڈیز بھی بیچتے جو انہیں نے زمین پر ایک کپڑے پر پھیلا رکھی ہوتیں ۔
ملٹن نے پہلے تو ایک بھاری بھرکم پٹھو سے بیچنے والی تمام اشیاء نکالیں اور انہیں ممکنہ حد تک یوں ترتیب دیا کہ وہ دیکھنے والوں کی توجہ بٹور سکیں ، پھر اس نے بہت سے سینڈوچ اور بئیر کی بوتلیں نکالیں ۔ وہ بجانے سے پہلے بئیر پینا پسند کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح انہیں گانے بجانے کی تحریک ملتی تھی ۔
” کیا تم لوگوں نے اسے پیا ہے ؟ “ ، ان بوتلوں پر زرد لیبل تھے جن پر عربی رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا ۔
” میرا خیال ہے کہ یہ ہسپانوی ہیں ؟ “ ، گونزیلو نے اس سے پوچھا ۔
” اس بات کا تردد کون کرے کہ یہ کہاں کی ہیں ۔“ ، ارنیسٹو نے اس کا مذاق اڑایا ۔
سیمنٹ کے بینچ سے میز کا کام لیتے ہوئے ، ملٹن نے ڈسپوزیبل پیالوں میں بئیر بانٹنا شروع کی جبکہ اس کے ساتھیوں موسیقی کے آلات کو سیٹ کرتے رہے ۔ انہیں ، کیو کی دکانوں میں مغربی اشیاء دیکھ کر کوئی حیرانی نہ ہوئی تھی ۔ جب سے وکتر یانوکووچ * کی حکومت گری تھی ، مغربی اشیاء کا نہ ختم ہونے والا ایک سیلاب امڈ آیا تھا ؛ یہ چاہے یورپین یونین کی طرف سے تحائف کی شکل میں تھا ، جو مستقبل کے حوالے سے یوکرائن سے ضم ہونے کے حوالے سے کھوج لگاتے پوئے مختلف تجربات کر رہی تھی یا یہ وہ وطیرہ تھا جو سیاسی تبدیلی کے باوجود وہاں ہمیشہ سے موجود تھا کہ جو اشیاء کچھ دنوں کے لئے تو دکانوں میں نظر آتیں اور پھرغائب ہو جاتیں اور ان کی جگہ دوسری لے لیتیں ۔ یوکرینین لوگ اشتیاق سے وہ سب استعمال کرتے جو مغرب سے آتا ۔ اوروہ ، بھی موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے ۔ بئیر اچھی تھی ؛ اس کا رنگ ہلکا تھا اور اس میں پھلوں کی ایسی خوشبو تھی جو انہیں لاطینی امریکہ کے موسم گرما کے کچھ مشروبات کی یاد دلاتی تھی ۔
کیو میں ستمبر ابھی بھی گرم تھا ، لیکن اس سال کی خزاں والی بارشیں جلد شروع ہو گئی تھیں ۔ باغ کے اوپر پھیلے آسمان پر بادل پہلے ہی گہرے ہو چکے تھے جس کی وجہ سے وہاں سے بہت سے لوگ جا چکے تھے اوربس چند ہی تھے جو وہاں موجود تھے ۔
اچانک ، انہوں نے اپنی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سنی ؛
” چلو یہاں سے چلیں ۔ اپنی سب چیزیں اٹھا لو ۔“ ، ایک یوکرینی کی نسوانی آواز آئی ۔
یہ ویلریا مُتسیننووا تھی ۔ وہ ایک چور ، جعلی خوشبویات کی پھیری لگانے والی ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی جسم بھی بیچنے کا کام کرتی تھی ۔ وہ اس باغ کو استعمال کرنے کی وجہ سے ان لاطینی امریکیوں کی ایک طرح سے دوست بھی تھی ۔
” کیا بات ہے ؟ “ ، گونزیلو نے ناشتے کے طور پر بیئر کا ایک بڑا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا ۔ وہ ابھی بھی خوش تھا ۔
” انہوں نے کسی کو قتل کر دیا ہے ۔ “
” شانت ہو جاﺅ ۔“ ، ارنیسٹو نے ایک کپ میں کچھ بیئر ڈالی اور اسے لڑکی کو دیتے ہوئے بولا ، ” وہ اس شہر میں روز ہی کسی نہ کسی کو قتل کر دیتے ہیں ۔“
ویلریا نے بیئر لے لی اور ایک ہی گھونٹ میں اسے پی گئی لیکن وہ شانت نہ ہوئی ؛
” انہوں نے اسے یہیں کہیں قتل کیا ہے ۔ “
” اور؟ “
” پولیس گواہوں کی تلاش میں ہے ۔ “
یہ سنتے ہی آدمیوں کے تاثرات بدلے ۔ انہوں نے جلدی جلدی اپنی اپنی بیئر ختم کی اور اپنی اشیاء اکٹھا کرنی شروع کر دیں ۔ اس باغ اور’ شیوچینکا ‘ بولیوارڈ * کے ارد گرد لوگوں کو اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ یوکرینی پولیس کیونکر یورپ کی سب سے ظالم اور بدعنوان گردانی جاتی تھی ۔
ویلریا جب سی ڈیز اکٹھی کرنے میں ان کی مدد کر رہی تھی تو اس نے اپنی آنکھ کے کونے سے دیکھا کہ چار آدمی ان کی طرف بڑھ رہے تھے ؛ ان میں دو سادہ لباس میں تھے جبکہ دوسرے دو نے یوکرینی پولیس کی گرمیوں میں استعمال کی جانے والی وردی ، نیوی بلیو پتلونیں اور ہلکے نیلے رنگ کی قمیضیں پہن رکھی تھیں ۔
” دیر ہو گئی ہے ۔“ ، اس نے کہا اور اپنی حرکتوں کا رخ بدل دیا ۔ اب اس نے سی ڈیز کو سمیٹنے کی بجائے انہیں ترتیب سے سجانا شروع کر دیا تھا ۔
” انہوں نے اسے قتل نہیں کیا ۔ اس نے تو خودکشی کی تھی ۔“ ، اس نے سرگوشی کی ۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ مردوں نے اس کی بات نہیں سمجھی تھی تو یہ یقینی بنانے کے لئے ، اس نے، ان سے پوچھا ؛ ” تم نے سنا کہ میں نے کیا کہا ہے ؟ “
” ہم نے تو کچھ بھی نہیں دیکھا ۔“ ، ارنیسٹو نے احتجاج کیا ، ” کچھ بھی تو نہیں ۔ ۔ ۔ “
ویلریا نے انہیں حکمیہ انداز میں گھورتے ہوئے سختی سے چُپ کرا دیا ؛ ” تم اُنہیں یہی کہو گے کہ اس نے خودکشی کی تھی ۔“
” شی “ کی آواز نکال کر ملٹن نے انہیں خاموش کرایا ۔
پولیس اُن کے پاس پہنچ چکی تھی ۔
ارنیسٹو کو کیو میں رہتے ہوئے بیس برس ہو چکے تھے ۔ وہ ایک نوجوان کے طور پر سوویت یونین میں ’ اے ۔ اے ۔ بوگومولیٹز انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن ‘ میں وظیفے پر پڑھنے کے لئے آیا تھا ۔ یہ 1988ء تھا اور ساری دنیا کے نوجوانوں کا یہ خواب اور آدرش تھا کہ وہ ماسکو ، لینن گراڈ ، کیو اور مِنسک وغیرہ میں خالص مارکسی نظریات کے تحت تعلیم حاصل کر سکیں ۔ اس کے لئے یہ وظیفہ حاصل کرنا ایک بڑی کامیابی تھی ۔ اور جب وہ ایک بار وہاں پہنچ گیا تو پڑھائی ثانوی بن گئی اوراچھے مستقبل کی خاطر دنیا بھر سے آئے لڑکوں اور لڑکیوں سے دوستی کرنا اولیت اختیار کر گیا تھا ۔
ارنیسٹو کو ایک یوکرینی لڑکی سے پیار ہو گیا لیکن جب اس نے ، اُس سے شادی کی تو اسے پتہ چلا کہ اس لڑکی نے اُس سے اِس لئے شادی کی تھی تاکہ ایک بدیسی سے شادی کرنے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکے ، جس کی مدد سے وہ ملک چھوڑنے کے قابل ہو سکتی تھی ۔ اسے سخت تنہائی کا احساس ہوا اور اسے لگا جیسے اسے استعمال کیا گیا ہو ۔ اس کا دل ٹوٹ گیا اور وہ اپنی پڑھائی جاری رکھنے کی تحریک بھی کھو بیٹھا ۔ انہوں نے اسے سوویت یونین سے باہر نہیں نکالا بلکہ مزے کی بات یہ ہوئی کہ جس دستاویز کی وجہ سے اس کی بیوی ملک سے باہر گئی تھی وہی اس کے سوویت یونین میں رہنے کا سبب بنی ۔ اور پھر یہ بھی ہوا کہ وہ ملک ہی نہ رہا جو اسے نکال باہر کرتا ؛ سوویت یونین خود ہی ختم ہو گیا تھا اور ہر شے انتشار کا شکار ہو گئی تھی ۔
اس کے کچھ دیر بعد ہی سپین ایک امیر ملک کے طور پر دکھائی دیا ۔ بہت سے یوکرینی وہاں جا کر بس گئے، یوں ارنیسٹو کے لئے کیو میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو گئے ؛ اس نے ہسپانوی زبان سکھانے کے لئے کلاسیں لینا شروع کر دیں ۔
ایک بار ، جب نظام بدلا تو یوکرائن میں زندگی بھی بہت تیزی سے بدلی ؛ یہ تبدیلی بڑے شہروں میں تو خصوصی طور پر آئی ۔ چند ہی سالوں میں گلیوں ، بازاروں ، مکانوں اور لوگوں کی زندگی میں ایسا عظیم بدلاﺅ آیا کہ وہ لوگ ، جو ملک سے تب گئے تھے جب ہر طرف لال جھنڈے لہراتے تھے ، اگر واپس آتے تو اپنے گھروں کو بھی نہ پہچان پاتے ، گو شہروں کی بنیادی شکل ویسی ہی تھی ۔ اسی شیوچینکا بولیوارڈ پر جو مٹر گشت کرنے کے لئے کیو کی سب سے خوبصورت شاہراہ تھی ، پر ایک سرمایہ دارانہ سٹائل کا شاپنگ مال زیر زمین تعمیر ہو گیا تھا جس میں میکڈونلڈز کے علاوہ فاسٹ فوڈ کے کئی اور ریستوران اور دکانیں تھیں جہاں 14 گریونس * ، تین ڈالر سے بھی کم ، میں ایک وقت کا پورا کھانا مل جاتا تھا ۔ شہر کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا تھا اور یہ جلد ہی دکانوں ، ہوٹلوں اور ایسے کھوکھوں سے بھر گیا ، جہاں سے وہ ہر طرح کے ’ سوﺅنیئر‘ خرید سکتے تھے ؛ جھنڈے ، گھڑیاں ، تھرموس ، ٹوپیاں ، سینے پر لگانے والے بیج ، پوسٹ کارڈ ، ’ماتری اوشکا ‘ گڑیاں* یہاں تک کہ گاگارین اور سٹالن کی تصاویر بھی وہاں دستیاب ہوتیں ۔ یہ 2003 اور 2004 کی بات تھی لیکن اب ایسا نہیں تھا ۔ اب روس یا کمیونزم کی بات کرنے پر پابندی تھی اور اس پر بات کرنے کا مطلب جیل کی ہوا کھانا تھا ۔ فاشزم ہونا الگ بات تھی ؛ یہ نئے یوکرائن کا فیشن تھا ۔
ارنیسٹو کی طرح گونزیلو اور ملٹن کی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی تھیں ۔ اب وہ تینوں عمر میں چالیس سے بھی زیادہ کے تھے ۔ وہ آوارہ تھے ، اکثر نشے میں دھت رہتے اور اچھی طرح بجا بھی نہ پاتے ۔
” یہ کیا ہے ؟ “ ، وردی والوں میں سے ایک نے پوچھا ۔
”بیئر “ ، ملٹن نے جوب دیا ، ” کیا آپ پینا چاہیں گے ؟ “
” کیا یہ ممنوع نہیں ہے ؟ “ ، اس نے بیئر کا غیر معمولی برانڈ دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
” میں نے اسے ایک سٹور سے خریدا ہے ۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہاں لے جا سکتا ہوں تاکہ آپ خود دیکھ سکیں ۔“
” چکھ کر دیکھیں ، یہ اچھی ہے ۔“ ، ارنیسٹو نے انہیں دعوت دی ۔
اس کا جواب پُلسیے نے یوں دیا کہ اس نے اپنی طاقت پر فخر کرتے ہوئے ، کپ میں موجود بیئر کو زمین پر گِرا دیا ۔
پھر انہوں نے روایتی ڈرانے دھمکانے والی کاروائی شروع کی ۔ ۔ ۔ شناختی کاغذات کی پڑتال ، رہائشی پرمٹ ، تھیلوں کی تلاشی ، سامان کی پڑتال اور ایسے سوال کہ کوئی نشہ آور اشیاء تو نہیں چھپا رکھیں کہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے اصل مدعا کے حوالے سے سوال شروع کیے ۔
” ہر سوال کا جواب سچ سچ دینا تاکہ ہم اتنی ہی تفتیش کریں جتنی ضروری ہو ۔ “ ، یوکرینی پولیس کی زبان میں تفتیش کا مطلب ’ ملزم ‘ ٹہرانا تھا ۔
” ٹھیک ہے ۔“
” کیا تم لوگ کل شام ، لگ بھگ چھ بجے یہاں تھے ؟ “
” جی “ ، ویلریا نے جلدی سے اتنے اعتماد سے کہا کہ اس کے ساتھی اس کی بات سے اختلاف نہ کر سکے ۔
” ننھی لڑکی تم بھی یہاں تھیں ؟ “ ، وردی والوں میں سے ایک نے ویلریا کے نزدیک ہوتے ہوئے اس طرح کہا جیسے وہ اپنے بڑے جُثے سے اسے ڈرانا چاہتا ہو ۔ ” یہاں دھندا کرنا منع ہے ۔ بولیوارڈ پر ۔ ۔ ۔“
” میں طوائف نہیں ہوں ۔“ ، اس نے اپنا دفاع کیا ، ” میں خوشبویات بیچتی ہوں ۔“
” خوشبویات ؟ کیا ہم ان میں سے کچھ کو لیباٹرری میں بھیجیں تاکہ پتہ لگ سکے کہ ان ننھی بوتلوں میں کیا ہے ؟ “
” اس قسم کے فضول سوالوں میں وقت ضائع مت کرو ۔ “ ، سادہ کپڑوں میں ملبوس دو میں سے ایک نے ، جو شایدان کا افسر ِ تھا ، اسے سرزنش کی ۔
” معافی چاہتا ہوں ، جناب ۔ میں تو اس سے یونہی تعلق بنا رہا تھا ۔ “
سادہ کپڑوں والا کچھ نہ بولا اور اسے ایک طرف کرتے ہوئے تفتیش جاری رکھتے ہوئے بولا ؛
” تو تم یہیں تھے ۔ ۔ ۔ تم چاروں ؟ “
لاطینی امریکیوں نے اس سے اتفاق کیا ، گو انہیں خود یقین نہ تھا ۔ وہ جھوٹ بول رہے تھے اور انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے ۔
” جب تم لوگ یہیں کہیں تھے تو کیا تم نے کسی وقت کوئی غیر معمولی بات سنی یا دیکھی ؟ “
” میں ایک گولی چلنے کی آواز سنی تھی ۔“ ، ویلریا نے جواب دیا ۔
”میں نے بھی “ ، گونزیلو نے اس کی تائید کی ۔ ۔ ۔ وہ جان گیا تھا کہ اسے ویلریا کی ہاں میں ہاں ملانی تھی ۔
” کہاں ؟ “ ، ایک پولیس والے نے پوچھا ۔
” جناب یہ تو مجھے معلوم نہیں ۔ یہ جاننا خاصا مشکل تھا ، کم از کم میرے لئے کہ گولی کی آواز کہاں سے آئی تھی ۔
” نزدیک سے ؟ “
” ہاں جناب ، لگتا تو یہی تھا ۔ “
” کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ باغ سے آئی تھی ؟ “
گونزیلو نے ویلریا کی طرف دیکھا کہ وہ شاید اس کی کسی طرح مدد کرے ۔ اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے وہ سوچ رہا ہو ۔ بالآخر اس نے جواب دیا ۔
” جی “
” کیا تم نے نزدیک جانے کی کوشش نہیں کی کہ دیکھ سکو کہ کیا ہوا تھا ؟ “
” نہیں “
” کیوں؟ “
” میں ڈر گیا تھا ۔“
” کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ “ ، پُلسیا مطمئن نہ تھا ۔
ویلریا نے جب دیکھا کہ گونزیلو کو پتہ نہیں کہ وہ کیا جواب دے تو اس نے اس کی مدد کی ۔
” میں نے کچھ دیکھا تھا ۔“
” کیا؟ “
” ایک مرا ہوا بندہ ۔“
” وہ کیسا تھا ؟ “
” مجھے معلوم نہیں ہے ۔ مجھے یاد بھی نہیں ۔ میں بوکھلا گئی تھی ۔“
سادہ کپڑوں میں ملبوس دوسرے آدمی نے جیب سے ایک فوٹو نکالی اور ویلریا کے سامنے کر دی ۔
” کیا وہ بندہ یہ تھا ؟ “
تصویر میں ایک بندہ صلیب بنا جھاڑیوں میں اوندھے منہ پڑا تھا ۔ اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے ۔ اس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا البتہ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک آٹومیٹک پستول تھا ۔
” جی۔ یہی تھا “ ، اس نے کہا ۔
چِٹ کپڑئیے کا چہرہ نرم پڑ گیا ۔ دوسرا جو افسر لگتا تھا ، وہ تو مسکرا یا بھی ۔
”کیا تم نے کسی اور کو اس کے نزدیک دیکھا تھا؟ “
” کسی اور کو ؟ “
” ہاں ، ایسا کوئی جو اسے گولی مار سکتا تھا ؟ “
” نہیں ۔ اس کے آس پاس اور کوئی نہیں تھا ۔ میرا خیال ہے کہ اس نے خود کو مارا تھا ۔ اس نے خودکشی کی تھی ۔ “
دوسرے چِٹ کپڑئیے نے ایک اور تصویر دکھائی ؛ یہ لگ بھگ پچاس کی عمر کے ایک بندے کے چہرے کی فوٹو تھی ۔
” یہی تھا وہ “
” کیا تم اسے جانتی ہو ؟ ‘‘ ، اس نے لڑکی سے پوچھا ۔
” صرف دیکھنے کی حد تک ۔“ ، ویلریا کے چہرے پر پہلی دفعہ سچ کی تازگی جھلکی ۔
” کیا تمہارا اس سے ۔ ۔ ۔ کوئی کاروباری تعلق تھا ؟ “
” وہ اس باغ میں آتا تھا ۔ ۔ ۔ وہ یہاں سیر کے لئے آتا اور کبھی کبھار کسی بینچ پر بیٹھ کر سگریٹ بھی پیتا تھا ۔“
” تم نے اس سے کبھی بات کی ؟ “
” نہیں ، وہ ایسا نہیں لگتا تھا کہ کسی سے بات کرے ۔“
” کیا ایسا تھا کہ وہ پژمردہ دکھائی دیتا ہو ؟ “
” جی ۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ وہ پہلے سے ہی خود کو مارنے کا خیال دل میں لیے ہوئے تھا ۔“
افسر پھر سے مسکرایا ، وہ اپنی طمانیت چھپا نہیں پایا ۔
” تم جو کوئی بھی ہو ، بہت چالاک ہو ۔“
ویلریا انہیں ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی ۔
” یہ شاید اس لئے ہے ۔ ۔ ۔ کیونکہ جو میں ہوں ، اس کے لئے چالاک ہونا ضروری ہے ۔“
افسر نے اس کے جملے کو نظرانداز کیا ۔ اس نے اور طرح سے ردعمل ظاہر کیا ۔ اس نے چاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؛
” تم نے خود کو بچا لیا ہے ۔ افسر تمہاری دی ہوئی معلومات نوٹ کریں گے ۔ اس نے دونوں وردی والوں کو ان کے پاس چھوڑا ، پھر وہ دوسرے چِٹ کپڑئیے کے ساتھ اُدھر ہی لوٹ گیا جدھر سے وہ آئے تھے ۔ وہ ایک لمحے کے لئے رکا اور دھمکی دیتے ہوئے بولا ؛
” یہاں سے فوراًنکل جاﺅ ۔ ہم نے یہاں ابھی کام کرنا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی ہماری تفتیش میں رکاوٹ بنے ۔“
ان چاروں نے ویسے ہی کیا جیسا انہیں کہا گیا تھا اور جب وہ شانتی کے ساتھ وہاں سے جانے لگے تو انہیں معلوم پڑا کہ انہیں باوردی آدمیوں کو بھتہ دینا تھا کیونکہ وہ ان سے باعزت لوگوں کی طرح پیش آئے تھے ۔
وہ اس شاہراہ سے ہٹ گئے اور یخ پانی والے چوڑے ’ ڈنیپر ‘ دریا کی طرف چل پڑے ۔ گو انہیں کسی مسئلے سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا لیکن انہیں اس کا سایہ خود پر محسوس ہوا ۔ ویلریا کچھ نہ بولی لیکن وہ اس مرے بندے کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ اس نے اسے کتنی بار پالولر کے درختوں سے بھرے راستے پر چہل قدمی کرتے دیکھا تھا ؟ کتنی بار اس نے اسے کسی بینچ پر بیٹھتے اور سگریٹ پیتے دیکھا تھا ؟ یہ الگ بات تھی کہ اس نے ، اس سے کبھی بات چیت نہیں کی تھی ۔
” انہوں نے ہمیں ، الگ الگ کرکے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی ؟ ان کا تو تفتیش کا طریقہ ہی یہی ہوتا ہے ۔ “ ، وینزویلا کے ملٹن نے یہ کہہ کر ویلریا کو سوچ سے نکالا ۔
” سیدھی سی بات ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ انہوں نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ وہ جلدی میں تھے اور وہ سچ جاننا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ “
” تو پھر ، وہ کیا چاہتے تھے ؟ “
وہ ہمیں اس ڈرامے کا حصہ بنانا چاہتے تھے جو انہوں نے کھڑا کیا “ ، وہ تلخی سے بولی ، ” تاکہ ہم انہیں یہی کہیں کہ بندے نے خودکشی کی تھی ۔“
” لیکن کیوں؟ “
اس نے کندھے جھٹکے ۔ ” اس لئے کہ وہ لوگوں کو یہی بتانے جا رہے تھے ۔“
” بدمعاش سیاستدان “ ، ارنیسٹو نے ویلریا کی بات میں اضافہ کیا ۔
کچھ وقفے کے بعد وہ پورے اعتماد کے ساتھ بولی ؛
” انہوں نے اسے مارا ۔ “
” وہ ؟ کون وہ؟ “
” پولیس ۔ حکومت ۔ مجھے نہیں معلوم ۔ بس انہوں نے ۔“
” جب تم آئی تھیں ، تم نے تب بھی یہی کہا تھا ۔ “ ، گونزیلو کو یاد آیا ۔
” تم یقین سے ایسا کیسے کہہ سکتی ہو ؟ “ ، ملٹن نے اس سے پوچھا ، ” یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے سچ مچ خودکشی کی ہو ۔ ۔ ۔ “
” نہیں ، میں نے اس بندے کو کئی بار وہاں دیکھا ۔ وہ سگریٹ پینے کے لئے وہاں آتا تھا ۔“
” تو؟ “
” وہ کھبچو تھا ؛ وہ اپنا سگریٹ بائیں ہاتھ سے سلگاتا تھا اور اسے بائیں ہاتھ میں پکڑے منہ تک لاتا تھا ۔ اور وہ سُور جو تصویر ساتھ لائے تھے اس میں پستول اس کے دائیں ہاتھ میں تھی ۔ یہ انہوں نے اس کے ہاتھ میں بعد میں تھمائی ۔“
ملٹن مزید کچھ نہ بولا ۔ اس کا جواب اس کے ماتھے پر پڑی شکنوں سے جھلک رہا تھا ۔ وہ سمجھ چکا تھا ۔ دوسرے بھی جان گئے تھے ، اس لئے کہ لاطینی امریکہ میں بھی چیزیں اس سے مختلف نہیں تھیں ۔
” خیر “ ، ویلریا نے موضوع بدلتے ہوئے کہا ، ” کیا ہم کچھ اور خرید سکتے ہیں ؟ “
” کچھ اورکیا ؟ “
” کچھ اور بیئر “
” ہاں ٹھیک ہے ۔ چلو چلتے ہیں ۔“ ، گونزیلو نے اتفاق کرتے ہوئے کہا ۔
ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی ۔ وہ ، دور’ خورشیاتیک ایونیو ‘* کی قدیم عمارتوں کی روشنیاں دیکھ سکتے تھے اور ان روشنیوں کا عکس گیلی راہداری میں بھی نظر آ رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* کیو = Kiev ، یوکرائن کا دارلخلافہ
* ’ پروشینکو‘ = Petro Poroshenko ، یوکرائن کا پانچواں اور موجودہ صدر ، اس نے جون 2014ء میں یوکرائن کی صدارت سنبھالی تھی ۔
* اپاچی = Apache ، جنوب مغربی امریکہ کے مقامی قبیلوں کے لوگ ، جنہیں امریکہ میں ریڈ انڈین بھی کہا جاتا ہے ۔
* ’ اینڈین‘ = Andean ، جنوبی امریکہ کے وہ ممالک جو اینڈیز پہاڑی سلسلے کے توسط سے آپس میں جڑے ہیں ۔
* پوما = امریکہ اور کنیڈامیں پائے جانے والے سرمئی کھال والے شیر
* وکتر یانوکووچ = Viktor Yanukovych ، یوکرائن کا چوتھا صدر ، جو فروری 2010 ء میں صدر بنا لیکن 2014 ء میں یوکرائن انقلاب کے بعد اسے صدارت چھوڑنا پڑی ۔ وہ روس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے ۔ جنوری 2019 ء میں اسے ، اس کی عدم موجودگی میں ریاست سے بغاوت کے جرم میں تیرہ سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔
* ’ شیوچینکا‘ بولیوارڈ = Shevchenka Boulevard ، کیو کی ایک اہم شاہراہ
* گریونس = Grivnas ، یوکرائن کی کرنسی کا پرانا نام ، یہ اب ’ ہرائیوینیا ‘ کہلاتی ہے ۔ آج کل ایک گریونا لگ بھگ چھ پاکستانی روپے کے برابر ہے ۔
* ’ ماتری اوشکا ‘ گڑیاں = Matryoshka Dolls ، لکڑی کی بنی روس کی روایتی گڑیوں کا سییٹ
* ’ خورشیاتیک ایونیو ‘ = Khreschchatyk Avenue ، کیو شہر کی ایک قدیم مرکزی شاہراہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena) 1963 ء میں ہیڈالگو، میکسیکو میں پیدا ہوا ۔ وہ شاعر ، ادیب ہے ۔ وہ مترجم اورایک عمدہ صداکار بھی ہے ۔ اس کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کے دو ناول ’ Cadaver alone ‘ اور ’ So dark Mexico ‘ اور بچوں کے لئے دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔ نوجوانوں کے لئے اس کا ناول ’ Giant wings ‘ سن 2011 ء بھی سامنے آیا ۔ اس کی شاعری کی کتاب ’ The due offering ‘ بھی اسی برس سامنے آئی تھی جس نے ’ Efrén Rebolledo ‘ انعام حاصل کیا ۔ اس کی کئی کہانیاں بھی انعام حاصل کر چکی ہیں ۔ تاحال اس کی کتابوں کی تعداد پچیس سے زائد ہے ۔ تازہ کتاب ’ Fieras adentro‘ سن 2015 ء سامنے آئی ۔ آج کل وہ ہنگری میں ’ University of Debrecen ‘ میں پڑھاتا ہے ۔
درج بالا افسانہ مصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔