لوری گائی جانے والی صنف سخن ہے۔ کسی بھی گیت یا شاعرانہ تخیلات کو خواتین، روتے ہوئے بچوں کو تھپکی دے کر سلانے کے لیے ہولے ہولے سرمیں گاتی ہیں۔
لوریاں بچوں کو خوابیدہ جہان کی سیر کرواتی ہیں لوریوں کے لہجوں میں محبتیں شفقتیں چاہتیں، مروتیں ممتا کی خصلتیں، بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
سبق اموز لوریوں میں والدہ کی ممتا باپ کی شفقت قریبی رشتہ داروں کے بچوں ، آباواجداد بزرگوں یا اسلاف کی بے باکیوں کے کارنامے اور دعائیں نیک خواہشات کی شمولیت ہوتی ہیں ۔
پہلے پہل یہ گیتوں کی شکل میں نمودار ہوئی۔ جس میں کوئی خاص بحر، وزن ،تیکنک، ہیٔت یا شاعری کے
اصول و ضوابط کی پابندیاں نظر نہیں آئیں۔ مگر رفتہ رفتہ یہ صنف جب باصلاحیت فنکاروں کے پاس پہنچی، تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اسے نکھارنے اور سنوارنے میں دلجمئی سے کام کیا۔
اس صنف میں بالخصوص ماں کی ممتا کا طلسم سننے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ اور باپ کی شفقتیں بچے کے ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہیں۔
لوری صرف میٹھی پرسکون نیند کا ہی ذریعہ نہیں ہے بلکہ بچوں کے لیے ان کا مستقبل سنوارنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں انہیں بڑے ہو کر کیا کیا بننے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ بچوں کے ذہنی جسمانی و نفسیاتی اعتبار سے تربیت ہوتی ہے جو ماں اپنے بچوں کو لوری کے ذریعے سلاتی ہے، وہ بچہ حقیقتا خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔ اور اس کی خود اعتمادی میں پختگی در اتی ہے۔
لوری کو وسیع کینواس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انسانی فطرت کا خمیر جذبات احساسات اظہار اور تکلم سکون اور مامتا سے گوندھا گیا ہے۔
پہلے پہلے اشاروں کنایوں کو
مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ و حوالہ بنایا گیا۔ آہستہ آہستہ یہ ذریعہ و حوالہ تہذیب و تمدنی زندگی سے منسلک ہوا۔ ویسے ویسے سلیقۂ اظہار مختلف اور معنی خیز ہوتا گیا۔
آج مختلف زبانوں کو انسانی کثیر تعداد، بولتی اور سمجھتی ہیں ۔ ہر زبان کی اپنی ایک ادبی و لسانی تاریخ قائم ہے۔ جو زبانوں کا روشن امکان ہے۔ کسی بھی زبان کا تخلیقی ادب، یا اصناف سخن کا رشتہ، اس کا معیار ،زبان کی توانائیاں اور قوتوں پر موقوف ہے۔
لوری صنف بہت سریلی ہے۔
بچہ فطری طور پر منظوم ادب میں بھی زیادہ دلچسپی اس وقت لیتا ہے، جب اس میں دلچسپی اور کشش موجود ہو۔ اس صنفت میں صوتی اعتبار سے ماں باپ یا کوئی رشتہ دار ،دادی، نانی، وغیرہ کی سریلی آواز درکار ہوتی ہے۔
بچہ جب مترنم آوازیں سنتا ہے، تو روح افزا ،یا فرحت بخش، ماحول محسوس کرتا ہے، روتے ہوئے چپ ہو جاتا ہے۔ اور اسے وزن اور بحر، سر ،لے، کا احساس ہونے لگتا ہے ۔اس کے تخیلات میں تیزی سے ترقی ہوتی ہے وہ قوت متخیلہ سے خیالی دنیا میں اڑان بھرنے لگتا ہے۔ اور مختلف جہان کی سیر کرتے ہوئے یا لوری کے ذریعے جس جذبات و احساسات کی روشنی اسے نصیب ہو ،اس روشنی میں ۔اس کی تربیت ہوتی ہے ۔جو تاعمر اس کے لیے ناقابل فراموش بنتی ہے۔
لوریوں میں سبق اموز خیالی کہانیاں کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ جن کے ذریعے بچے کی ذہنی تربیت میں، اخلاقیات کی شمولیت کی جاتی ہے ۔ بچے کو منظوم لوریوں کے ذریعے زندگی کے مسائل کا مثبت حل پیش کیا جا سکتا ہے ۔زندگی کی مصیبتوں اور غموں سے لڑنے اور فتح پانے کا گر سکھایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ادب میں لوری، لولی اور جھولنہ، کے ناموں سے بھی معروف ہے بچہ میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ لوری کے الفاظ اور معنی سے پوری طرح واقف ہوں مگر جذبات و احساسات اور ردم اور ترنم کے سمندر میں ڈوب کر نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
لوری پاکستانی ہر لوگ ادب میں موجود ہے۔ لوری ایک دلچسپ لوگ گیت ہے ۔ جس میں دلکشی دلاویزی کے ساتھ ساتھ سریلا پن اور مترنم خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔لوریوں میں ماؤں کی مامتا کے جذبات و احساسات کی وہ گہری خوشبو ہوتی ہے، کہ بچہ آواز ،ردم ،ترنم، سر، لے اور حیات کے طلسمی اثرات سے مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتا، بلکہ جنت الفردوس جیسی خوابیدہ کیفیت میں محو ہوجاتا ہے۔
لوری بچوں سے پیار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ لوری کے ذریعے عزم و ہمت، شجاعت و بہادری، حب الوطنی تہذیب و تمدن کا تعمیری نشہ بچوں کے رگ و پے میں اتارا جا سکتا ہے۔ لوری کے ذریعے ماضی حال مستقبل کے متعلق بچوں کا رشتہ استوار کیا جا سکتا ہے۔ لوری کا روحانی سریلا پن، رب کائنات کا بابرکت تاثر بھی ہے۔ جس کی مٹھاس روتے ہوئے بچوں کو ہنساتے ہنساتے سلانے کا کام انجام دیتی ہے۔ لوریوں کے بول بے مقصد اور بے کار نہیں ہو سکتے۔ بلکہ سادہ عام فہم الفاظ کے ذریعے ممتا کا اظہار اور شفقتوں کا احساس نچھاور کیا جاتا ہے۔ پنجابی، پشتو، بلوچی ،کشمیری، زبانوں میں بھی لوریاں مختصراً روحانیت کے جذبات و احساسات سے رشتہ جوڑتے ہوئے الگ نورانی تاثر چھوڑتی ہیں۔ جس میں اللہ ہو کے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لوری دراصل ادب اطفال کا ایک اہم حصہ ہے ۔ صدیوں سے رائج ہے۔ اسے ہم قصے کہانیوں میں سنتے چلے آرہے ہیں۔ بچوں کو بہلانے یا کھلانے سلانے کے لیے جو لوگ گیت لوریاں وجود میں آئیں جن کے ذریعے بچہ ذہنی تفریح کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت وہ افادیت ، قدر منزلت محسوس کرتا ہے۔
دنیا میں ماں ہی وہ شخصیت ہے جو بچے کو اپنی گود میں لے کر ممتا کی دولت لٹاتی ہے۔ وہ روتا ہے تو دھیمے دھیمے سروں میں گاتی ہے۔ وہی لوری کہلاتی ہے۔
لوری کا اغازچار ہزار سال قبل عراق میں بابل کی تہذیب میں ہوا تھا لوری پہلی بار بچے کو سلانے کے لیے ہی گائی گئی تھی۔ کھدائی کے دوران دو ہزار قبل مسیح میں یہ لوری خاک کے چھوٹے حصے پر لکھی ہوئی تھی۔ جسے لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔
پہلے پہل لوریوں میں ممتا سے زیادہ “خوف” کا جذبہ غالب تھا مغربی کینیا کے قبائلی لوری میں کہا جاتا ہے. جو بچہ نہ سوئے گا اسے لکڑ بھگا کھا جائے گا۔ بلکہ بعض برطانیہ کی لوریوں میں، حسین سلیقے سے بچوں کو ان دیکھی مخلوق سے خوفزدہ کرنے کا کام کیا گیا ہے۔
زیادہ تر لوریوں میں تک بندیوں سے کام لیا جاتا ہے ۔ ان کے صدیوں پرانا ہونے میں کوئی بھی شبہ نہیں۔ ہمارے لاشعور میں لوریوں کے ذریعے اچھے خاصے الفاظ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ آج سماج میں دراصل ان ماؤں کا کافی فقدان ہے، جو بچوں کو تہذیبی وہ ادبی طرز سے پال پوس سکیں جو بچوں کو لوریاں سنا سکیں۔ سماج کا وہ ماحول نہ رہا جس میں لوریوں، لولیوں یا جھولوں، کی اہمیت و افادیت ہوا کرتی تھیں ۔ نتیجتا یہ صنف لوری معدوم ہو رہی ہیں یا بعض جگہ ہو چکی ہیں۔
لوریوں کے ذریعے ملک کی تاریخ کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مائیں اور خانوادوں کی دیگر خواتین بچوں کو لوریاں سنا کر بہلانے اور سلانے کا کام کر سکتی ہیں ۔
بشرطیکہ ہمارے موجودہ عہد کے شعرائے کرام لوریوں پر اپنی توجہ مرکوز فرمائیں۔ اور بہترین لوریاں دنیائےاردو ادب میں پیش کر کے اضافہ فرمائیں۔
تاکہ غیر ملکی گانوں اور موسیقی کے مضر اثرات سے نئی نسل کو محفوظ رکھا جا سکے۔ آج بھی لوریاں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے کی لوریوں سے ایک مقبول لوری جن میں چندا ماما کا ذکر ہوتا ہے ۔
چندا ماما دور کے
کھوئے پکائیں دودھ کے
آپ کھائیں تھالی میں
منے کو دیں پیالی میں
پیالی گئی ٹوٹ
منا گیا روٹھ
نئی پیالی لائیں گے
منے کو منائیں گے
چندہ ماما دور کے۔۔۔۔
اس لوری میں بچے کی نفسیات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ جو عظیم اور مفکر ذہن کی تخلیق قرار دی جا سکتی ہے۔
جسے شیر خوار یا چھوٹے بچوں کی نفسیاتی کیفیات کا علم حاصل رہا ہوگا۔ انسان ہر گھر میں بچے کی شکل و صورت میں پیدا ہوتا ہے ۔جو خدا کی عطا ہے۔ جس کا ذہن معصوم ہوتا ہے وہ منظوم لوریوں کے ذریعے بہت جلد جینے کی تربیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
انسانی جذبات و احساسات کے معنی و مفہوم سے آشنا ہونے لگتا ہے۔ اکثر لوریوں ،جھولوں، لولیوں، میں مماثلت و یکسانیت در آتی ہیں۔ چندا ماما پریوں کا ذکر یا ممتا و شفقت کے جذبات واحساسات کا برملا اظہار روایتی نظریے کی پاسداری تو کرتا ہے مگر جذبۂ افکار اور تخیلات سے عاری بھی ہو جاتا ہے۔
دعائیہ نعتیہ انداز میں بھی لوریاں تخلیق کی گئی ہیں۔ بنیادی طور پر لوریاں بچوں کے ادب کا انمول حصہ ہیں۔ اس حصے پر مستحکم عمارت کی تعمیر شعراء و ادباء کو منصوبہ بندی کے ساتھ عہد کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کی جانی چاہیے۔
زیر طبع “علیم طاہر کی لوریاں” مجموعے سے ماخوذ چند لوریاں پیش خدمت ہے ۔
لوری گیت…نمبر01…علیم طاہر
نیند کرے ترا انتظار
راہ تکے سپنے ہزار
آئے گا پھر مجھے قرار
سوجا سوجا مری بٹیا
سو جا سو جا مری بٹیا
مجھ کو تکتی رہتی ہے
چنچل ہنستی رہتی ہے
ہر پل مستی رہتی ہے
تجھ پر قرباں دل کا پیار
سوجا سو جا مری بٹیا
سوجا سو جا مری بٹیا
تجھے دیکھوں کھل کھل جاؤں
دنیا کی خوشیاں پاؤں
تری خاطر لوری گاؤں
پیار لٹاؤں بے شمار
سوجا سوجا مری بٹیا
سوجا سو جا مری بٹیا
رات گزرتی جائے ہے
نیند اترتی جائے ہے
آنکھ یہ بھرتی جائے ہے
جھولا جھلاؤں با ر بار
سوجا سوجا مری بٹیا
سوجا سوجا مری بٹیا
A loree geet …no.01…by Aleem Tahir
لوری گیت……نمبر02…علیم طاہر
سو جاری سجنی سوجا
نیندوں میں پیاری کھوجا
کب تک نہ سو ؤگی تم
کب تک یوں روؤ گی تم
قسمت سے آئی ہے یہ
وقتی جدائی ہے یہ
آؤں گا آؤں گا میں
دلہن بناؤں گا میں
فون پر جو بات ہے یہ
آدھی ملاقات ہے یہ
اک دن یہ ہو گی پوری
مٹ کر رہے گی دوری
لوٹیں گے خوشیوں کے دن
ممکن ہے ہاں یہ ممکن
سچّا ہے پیار اپنا
پورا ہوگا ہر سپنا
ہو گی ہماری شادی
گزری ہے رات آدھی
چل اب نیندوں کی ہو جا
سوجا ری سجنی سوجا
نیندوں میں پیاری کھو جا
A loree geet no.02 …by….
Aleem Tahir…
لوری دو ہا گیت: 03
۔۔۔علیم طاہر
جھولے میں سوجا بیٹی ہو گئی اب تو رات
موند لے اپنی آنکھیں تو مت کر کوئی بات
بات کرو تو یہ نندیا مرغی سی بھاگے
نیند نہ آئے تو لمحے شعلوں سے لاگے
رات نیند کی خاطر ہی ہم کو ملی سوغات
جھولے میں سو جا بیٹی ہو گئی اب تو رات
نیند لگی تو آئیں گے پریوں والے خواب
بیٹی جنت دکھلا ئیں رنگ برنگے خواب
ننھے فرشتے کھیلوں میں دیں گے تیراساتھ
جھولے میں سوجا بیٹی ہو گئی اب تو رات
ابو لوری گاتے ہیں تجھے سلانے کو
پلکیں لگتی جاتی ہیں نندیا آنے کو
ہاتھ تھام کر سوئی تھی چھوٹ رہا ہے ہاتھ
جھولے میں سوجا بیٹی ہو گئی اب تو رات
A Lori Doha geet…
by… Aleem Tahir
لوری گیت نمبر۔۔04۔۔۔۔۔۔
وقت ہے یہ سونے کا
سو جا میرے لعل
چھریاں ہیں تھکا نیں تو
نیند جیسے ڈھال
تو بھی اپنی نیند کو
مٹھی میں سمیٹ لے
یوں نہ کر شرارتیں
جھولے میں تو لیٹ لے
وقت جیسے کچھووں سی
چل رہا ہے چال
وقت ہے یہ سونے کا
سو جا میرے لعل
آج کی ہواوں میں
ندیوں کی روانی ہے
ماں کے ہر تبسم میں
پریوں کی کہانی ہے
سو گئے کھلونے بھی
اپنی ضد کو ٹال
وقت ہے یہ سونے کا
سو جا میرے لعل
خوشبوؤں سے سر بکھرے،
ماں کی ننھی لوری سے
نیند بلی جیسی اب،
آرہی ہے چوری سے
نیند تجھ کو آ ئی تو،
کتنا پر سکوں ہے حال
وقت ہے یہ سونے کا ،
سو جا میرے لعل
A Lori geet by…aleem tahir.
علیم طاہر۔