صنفی تناظر میں لوری کی ماہیت و اصلیت پر واضح انداز میں بہت کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ اس کا نام سنتے ہی ہمارا ذہن اکثر ’بچوں کے گیت‘ یعنی شاعری کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ حالاںکہ شعریات و صنفیات کے پیش نظر لوری کو فقط بچوںکا گیت کہہ دینا ادبی انصاف نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں صنفی سنگلاخیت سے کہیں زیادہ غنائی ترنگ کی اہمیت ہوتی ہے۔ بچوں کو منثور لوری سنائیں یا منظوم، وہ لذت یاب اور محظوظ ہوتے ہیں: گویا انھیں فقط غنائیت مطلوب ہے۔ اس لیے شاید ہمیشہ لوری کو نظم کے بندھے ٹکے اصولوں سے جوڑکر دیکھنا مناسب نہیں۔ماہر ادب اطفال سلی گوڈارڈ بلیتھ(Sally Goddard Blythe) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں کئی ایسی لوریاں ہیں جن کا لفظی مطلب نہیں نکالاجا سکتا۔(1) ان کے اس نکتے سے بھی تقویت ملتی ہے کہ لوری کے لیے شاعری کا ہوناضروری نہیںہے۔
یہ الگ بات ہے کہ بہت سے ادبا کی نثر بھی نظمیہ/شاعرانہ آہنگ سے خالی نہیںہوتی۔ جیسا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ناول’’آگ کا دریا‘‘ کو تیس فیصد شاعری کہا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لوری کے لیے جس نثری فقرے کا انتخاب کیا جائے اس میں شاعرانہ نغمگی ہوسکتی ہے مگر یہاں اتنی سی بات کہنی ہے کہ مثنوی کے لیے جس طرح شاعری ضروری ہے، اس طرح لوری کے لیے شاعری لازمی نہیں!
اس ضمن میں ایک ذاتی تجربہ بیان کیا جاسکتاہے۔ میری ایک عزیزہ مجھے فون کرتی ہیں۔ ان سے باتیں اکثر طویل ہو جاتی ہیں۔ میں اونگھنے لگتا ہوں۔یہاں تک کہ کئی مرتبہ میں دوران فون سو بھی گیا۔ میرے سوجانے کے بعد انھوں نے میرے خراٹے ریکارڈ کر کے مجھے ارسال کیا۔سوال یہ ہے کہ آخر ان کی گفتگو کی طوالت یعنی بورنگ سے مجھے نیند آنے لگتی ہے یا پھر ان کے جملوں میں ہی غنائیت ہوتی ہے؟ ان دو سوالوں کے علاوہ یہاں محل استشہاد نثر اور لوری بھی ہے۔ کیوںکہ وہ میرے سوجانے پر ناراض ہوتی رہتی ہیںکہ کیا میںلوری سناتی ہوں؟ گویا وہ نثری جملوں کولوری سے تعبیر کرتی ہیں۔ اس لیے سوال ہوتا ہے کہ کیا نثر ی لفظوںکو لوری میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ کیا بڑی عمر میں بھی لوری کا اثر ہوتا ہے؟
تجربے کے بعد مشاہداتی معاملات پر غور کریں۔ ہمارے یہاں بہت سی عورتیں روتے بچے کو ’’آ،آ، او، او‘‘ سنانے کے بعد کہتی ہیں:’’سو جا بابو سوجا، تمھارے ابو آئیں گے۔ تمھیں سینے سے لگائیں گے۔ خوش ہوجائیں گے۔‘‘اسی طرح اور بھی بہت سے نثری فقرے بچوںکو سنائے جاتے ہیں۔ گویا ایسی نثری غنائیت بچوںکے لیے لوری بن جاتی ہے۔ اس لیے راقم کا یہ مفروضہ ہے کہ ’’بچوں‘‘ کے کھلانے،ہنسانے اور رجھانے کے لیے(انگلیوںسے) جو چٹکیاں بجائی جاتی ہیں وہ بھی لوری میں شامل ہیں۔
سردست ’لوری کیا ہے‘پر بھی بات مناسب ہے۔ مختصر گیت یا شاعرانہ جملے لوری ہوتی ہے جو عورتیں بچوں کو سلانے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے آہستہ آہستہ سر میں گاتی ہیں۔ یہ گنگناہٹ اکثرچند الفاظ پر مبنی ہوتی ہے۔یہ الفاظ دراصل جذبات اور ممتا سے مملو ہوتے ہیں۔ اسے بچہ یا ماں کا گیت کہا جاتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں کچھ یوں درج ہے: ’’لوری سے مراد وہ پیارے اور سریلے الفاظ ہیں جو بچوں کے سلانے کے واسطے گیت کے طور پر دھیمے دھیمے سروں میں عورتیں گاتی ہیں‘‘۔(2) یقینا ً اس عمل سے بچہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس ضمن میںگوڈارڈ بلیتھ نے ایک تحقیقی بات کہی ہے:’بچوں میں تال اور لے کو سمجھنے کی انوکھی صلاحیت ہوتی ہے۔ لوری کا تعلق ہلکورے یعنی ہلانے سے بھی ہے۔ کیوں کہ ماں بچے کو لوری سناتے وقت اسے پنگھوڑے میں لٹا کر یاگود میں ہلکورے دیتی ہے۔ (3) لوری کی ایک مذہبی شان بھی ہے یعنی جھولنا جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچپن کو منظوم انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اگر ہندستانی تناظر میں دیکھیں تو 1870 میں ایک انگریز سرجن جنرل ایڈورڈگرین بالفور(Edward Green Balfour ) نے ’لوری نامہ‘ شائع کیا تھا جو شاید لوریوں کا پہلا مجموعہ تھا۔34 صفحات کے اس کتابچے میں 18 لوریاں شامل تھیں۔(4)
دنیا میں پہلی بار لوری کا استعمال بچوں کو سلانے کے لیے ہوا تھا۔ ڈھائی ہزار قبل مسیح کی ایک لوری کھدائی کے دوران دریافت ہوئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ لندن کے برٹش میوزیم میں یہ محفوظ ہے۔ وہ’یونیفارم ا سکرپٹ‘ میںہے(جو دنیا میں وجود پانے والی تحریروں کی اولین اسکرپٹ میں سے ہے)۔ اس کا ترجمہ رچرڈ ڈمبریلRichard Dumbrill نے کیا ہے۔ بہ مشکل تمام پڑھنے کے بعد اس کا مطلب یہ یوں نکالاگیا:’جب ایک بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے۔‘ گویا یہاں روتے بچے کو چپ کرانے کی کوشش نظر آتی ہے۔موسیقار ذوی پامر ()نے لوری کے متعلق بتایا: ’لوگ بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ بہت شور کر چکے ہو اور اس شور سے بری روحیں جاگ گئی ہیں اور اگر وہ ابھی فوری طور پر نہیں سوئے تو یہ روحیں انہیں کھا جائیں گی۔‘ مغربی کینیا کے قبائل میں ایک لوری کافی استعمال ہوتی ہے جس میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ جو بچہ نہیں سوئے گا، اسے لکڑبھگا کھا جائے گا۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں مائیں جو ’راک اے بائے بیبی‘(Rock-A-Bye Baby) نامی لوری اکثر گنگناتی ہیں اس میں بھی خوف کے کچھ الفاظ ملتے ہیں۔(5)
مذکورہ باتوں سے تین پہلو سامنے آتے ہیں۔ (ا) بچوںکو سلانے کے لیے لوری کا استعمال کیا جاتا تھا۔ (۲)خوف کا نفسیاتی تناظر۔(۳) لوری سے بچوںکی ذہنی ترتیب۔راجا رسالو لکھتے ہیں:
’’میرے خیال میں لوری سن کر سوئے ہوئے بچے کی کیفیت اس بچے سے مختلف ہوتی ہے جو لوری سنے بغیر سوجاتا ہے۔لوری سن کر سونے والے بچے کا لاشعور ایک بڑے اورعلمی مقصد کے لیے تیار ہوتا رہتا ہے۔‘‘(6)
بلاشبہ لوری سے بچوں کی بہترین تربیت ہوتی ہے۔ ان کا ذہن بڑے مقاصد وعزائم کے لیے بھی تیار ہوسکتاہے۔ان کے علاوہ لوری اور قوتِ سماع کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ یہ مفروضہ قائم کرنا مناسب ہے کہ لوری سننے والے بچے دوسرے بچوںکے مقابلے ذرا جلدی بولنے لگتے ہیںاور بڑے ہوکر ان کے اسلوب میں شستگی وشگفتگی آجاتی ہے۔ گویا لوری اسلوب کی دل کشی اور سماعت کی مضبوطی میں ایک ریاض کی حیثیت رکھتی ہے۔چناں چہ یہ کہنا مناسب ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر اس کا اثر زندگی بھر باقی رہتا ہے۔ میر شیر محمد بھی تسلیم کرتے ہیں:
’’لوریوں میں نہ صرف ماں کی ممتا ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کو ان کے ذریعے ماضی، حال اور مستقبل کا درس بھی دیتی ہیں۔’’(7)
اس میں شک نہیںکہ لوری سے بچوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے مگر ڈراؤنی باتوں سے کیا ذہن بالیدہ ہوتا ہے؟ کیا ایسے واقعات اور فقرے کو لوری میں شامل رکھناجائز ہے؟ خوف ناک لوریوں سے لاشعور میں خوف کی نفسیات جاگزیں ہوجاتی ہے یا نہیں؟یہ حقیقت ہے کہ لوریوں سے بچپن میں ایسی تربیت ہوتی ہے جس کا اثر زندگی بھر نظر آتا ہے۔ لوری سننے اور نہ سننے والے بچوں کے درمیان راجا رسالو نے جو فرق واضح کیا اس میں بڑی حد تک سچائی نظر آتی ہے۔ ایک معنی میں لوری حالت نیند اور بیداری دونوں میں اپنااحساس کراتی ہے۔ چناںچہ ایسی بھی لوری ہونی چاہیے کہ جو نہ صرف سلانے پر زور دے بلکہ سونا اس لیے ضروری قرار دے کہ سو کر جاگنے کے بعد تازگی کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ سونے یا سلانے میں ایک عنصر غفلت کا بھی ابھرتا ہے مگر اس سونے کو بیداری کے عنصر سے جوڑ کر دیکھنا بھی مناسب ہے۔بیدار ی کے ساتھ بھی برا سلوک ہوا ہے کہ اسے سونے کے بعد کے جاگنے سے جوڑ دیا گیا۔ حالاں کہ وہی فرد کامران ہے جو سوتے وقت بھی بیدار رہے۔ گویا مائیں لوری سنا کر بچے کو سلا تودیتی ہیں مگر اسے خواب غفلت میں مبتلا نہیں کرتیں بلکہ فکرکو مہمیز بھی کرتی ہیں۔ گویاوہ بچوں کو آئندہ زندگی کے لیے بیدار کرتی رہتی ہیں۔ یہاں نفسیاتی طور پر ایک بات اور کہی جاسکتی ہے۔ اتنی بات تو متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ لوری سننے کے بعد بچوںکو بچپن میں نیند آجاتی ہے مگر گہرائی سے سوچنے کے بعد یہ کہنے کی گنجائش نکلتی ہے کہ جس بچے نے ماں سے بچپن میںلوریاں سنیں، وہ بڑی عمر میں بھی بہ آسانی جلدی سوجاتا ہے۔ اعصاب پر پریشانیاں کیوںنہ سوار ہوں، اگر اس نے بچپن میں امی سے لوری سنی ہے تو کل نیند آجاتی تھی اور آج بھی نیند آجاتی ہے۔
جان کیج John Cageلکھتے ہیں: It’s useless to play lullabies for those who cannot sleep. گویا لوری اس کے حق میں غیر سود مند ہے جو لوری سننے کے بعد سو نہ سکے۔ اگر گہرائی سے غور وفکر کریں تو مذکورہ قول سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ لوری اسی عمر میں اہمیت رکھتی ہے جب بچہ اسے سن کر سوسکے۔ گویا اس کی عمر اتنی کم ہو کہ وہ لوری سن کر لذت یاب ہو مگر لوری کے الفاظ پر وہ اپنی زبان سے کچھ بول نہ سکے۔ فقط وہ لوری سنتے سنتے سوجائیں۔ دوسرا پہلو یہ ابھرتا ہے کہ لوری میں اتنی غنائیت ہونی چاہیے کہ وہ بچے کو سلاسکے۔ جس لوری میں ایسی نغمگی والی کیفیت نہ ہو تو وہ بچوںکے حق میںبے سود ہے۔
خوش حال زیدی نے بچوں کے ادب کی درجن بھر جو خصوصیات بیان کیں ان میں’مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی‘ کو بھی اہمیت دی ہے۔(8) لیکن یہاں اس بات کی وضاحت لازمی ہے کہ لوری کی مبالغہ آرائی میں رائے کا پربت یا پہاڑ بنا نا مناسب نہیں بلکہ اس میں کسی چھوٹی چیز کو محدب سے شیشے سے دیکھنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ کیوںکہ کسی محدب شیشے سے دیکھنے کے بعد چیزیں گرچہ چھوٹی ہوں، بڑی بن کر واضح ہوتی ہیں۔ واقعہ ہے کہ محدب شیشے والی مبالغہ آرائی لوری کو قابل ذکر بناتی ہے۔ اس لیے افلاطونی مبالغہ آرائی کے بجائے ارضیت یا محدب شیشے والی مبالغہ آرائی اہم ہوسکتی ہے۔
کہایہ بھی جاتا ہے ادب کی تخلیق اکثر لاشعور کے عالم میں ہوتی ہے۔غالب نے بھی بڑی حد تک مذکورہ خیال کی عکاسی کی ہے:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
اس قول وفکر کو نفسیاتی اصطلاحات کے تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سرریلزم اور نیوراسس کا تخلیقی ادب سے گہرا تعلق ہے۔آندریبرتیون نے1924 میں سرریلزم کے اولین منشور میںلکھا تھا کہ ادراک کی کسی آمیزش کے بغیر اور عام جمالیاتی واخلاقی انداز سے آزاد نفسیاتی عمل کو پیش کرنا سرریلزم کا نصب العین ہے۔۔۔ سرریلسٹ رجحانات ابتدائے فن سے ہی اس کا اہم عنصر رہے ہیں۔ (9)یہ حقیقت ہے کہ ادیب قلم اٹھانے سے پہلے مختلف حیثیتوں سے گزرتا ہے۔چند لمحے غور وفکر کرتا ہے۔ کوئی لکھنے سے پہلے بہت دیر تک خاموش رہتا ہے۔ کوئی(بالزاک) پوپ کا لباس پہنتا تھا۔ اسی طرح شُلّر سڑا سیب ٹیبل کے نیچے رکھ کر لکھتا تھا۔ کوئی سگریٹ نوشی کے بعد قلم کو حرکت دیتا ہے۔یا پھر کوئی بادہ خواری کے بعد لفظوں سے رشتہ جوڑتا ہے۔کوئی چند آیتوں کی تلاوت کے بعد لکھنے کا عمل شروع کرتاہے؛ یہ وہ تمام کیفیات ہیں جو کہیں نہ کہیں نیوراسس اور سرریلزم کے معاملات کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ گویا تخلیقی ادب لاشعور کے عالم میں لکھا جاتا ہے لیکن اسے شعور کے عالم میں پڑھا یا سنا جاتا ہے۔ اگر لوری کی بات کریں تو اس میں بھی شعور اور لاشعور کی اہمیت ہے مگر لوری اور عام ادبی تخلیقات میں ذرا سا فرق ہے۔ وہ اس طرح کہ عام تخلیقی ادب کسی نہ کسی سطح پر لاشعور ی کے عالم میں وجود میں آتا ہے اور شعور کے عالم میں اسے پڑھاتا ہے۔جب کہ شعور کے عالم میں ماں لوری گاکربچوں کوسناتی ہے اور بچہ لاشعوری کے عالم میں سنتا ہے۔ گویا کہانیاں اورقصے بدوِ شعور(شعور کی شروعات) سے اپنا اثر دکھاتے ہیں اور لوریاںقبل شعور سے۔ اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیںکہ لوری کی زبان کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب بچہ لازبان ہو، یعنی وہ بول پانے کی عمر کو نہیں پہنچا ہو۔ مسعود حسین خان لکھتے ہیں:
’’چھ سال کی عمر تک وہ صاف تلفظ کے ساتھ زبان بولنے لگتا ہے۔ چھ برس کی عمر سے بچے میں اپنی مادری زبان پر عبور حاصل ہونے لگتا ہے۔ اس کے بعد اسی منزل پر بچے میں ادبی شعور جاگتا ہے۔ اس کے بعد فرہنگ،اظہار بیان، اصطلاحات علمیہ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔‘‘(10)
یہاں سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اکثر چھ سال کی عمر تک بچوں کا شعور بیدار ہونے لگتا ہے۔ جب شعور بالیدہ اور بیدار ہونے لگے تو انھیں لوری سے تسکین نہیں پہنچا ئی جاتی ہے۔ عمر کے اس مرحلے میں انھیں قصے اور کارٹون دل چسپ معلوم ہوتے ہیں۔ بچے چھوٹی عمر میں نظموں اورغزلوں کو حافظے کا حصہ بناتے ہیں،یا پھر وہ ایسے افسانے، مضامین اور ناولوں کو پسند کرتے ہیں جن میں بچوں کی نفسیات شامل ہوں مگر بچے بدوِ شعور کے بعد لوری سنتے ہیں او رنہ ہی یاد کرتے ہیں۔ گویا شعوری زندگی میں لوری کی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔میرا مفروضہ ہے کہ لوری رال یا لار (لیر) سے ماخوذ ہے؛یعنی جب تک بچوں کے ہونٹوں سے لار ٹپکے اسی وقت تک یہ اہم ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کی افادیت بہت زیادہ نہیں رہ جاتی ہے۔ اس لیے واضح طور پر اسے’ادب اطفال‘ میں شامل رکھنا مناسب نہیں ہے۔ لوری سے کہیں زیادہ پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں سے انھیں دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ گویازمرۂ اطفال میں پہیلیوں اور کہہ مکرنیوںکے بعد ہی لوری کو مقام مل سکتا ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ کہہ مکرنیوںکا پس منظر کچھ اور ہوتا ہے)لوری کی عظمت سے انکار نہیں،ادب اطفال میں لوری کی شمولیت پر اشکال ہے۔ اس اشکال کو صوفی اور غیر صوفی کے کلام سے جوڑ کر سمجھاجا سکتا ہے۔ پہلے اشعار سنیں:
مجھ کو اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوںمست ہوکے تمھارے خیال میں
تاروںسے پوچھ لو میری رودادِ زندگی
راتوںکو جاگتا ہوں تمھارے خیال میں
اس میں شک نہیںکہ ان اشعار میںعشقیہ عنصر شامل ہے مگر شاعر سے نسبت کیے بغیر اس کا صحیح عشقیہ مقام متعین کرنا ممکن نہیں۔ اگر کسی صوفی شاعر سے ان اشعار کا رشتہ جوڑا جائے توہم انھیں عشق حقیقی کا شعر کہیں گے، جب کہ کسی عام شاعر کی طرف نسبت ہوتو ان اشعار کو بازاری یا سوقیانہ پن سے جوڑدیں گے۔ جس طرح صوفی اور غیر صوفی شاعر کی بنیاد پر شعر کی حقیقت بدل رہی ہے۔ اسی طرح’’شعور اور لاشعور‘‘ کی بنیاد پر ادب اطفال اور لوری میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ گویا بچے سے مربوط ادب کا تعلق اگر شعور سے ہوتو اس کا شمار ادب اطفال میں کرنا مناسب ہے اور جس کا تعلق ’’لاشعور‘‘ سے ہے اسے ادب اطفال میں شامل رکھنا شاید قرین عقل نہیں۔لوری کو کلیۃً بچوں کا ادب تسلیم نہ کرنے کے باوجود اتنا کہاجانا مناسب ہے کہ ادب اطفال لوری کی ارتقائی شکل ہوسکتا ہے۔لوری کا ادب اطفال سے اتنا ہی تعلق ہے،جتنا تنقید کا تذکرے سے۔ گویا لوری’ادب اطفال کا تذکرہ‘ ہوتی ہے اور ادب اطفال کی دیگر اصناف یا کیفیات ’ادب اطفال کی تنقید‘ ہے۔
یہاںلوری کی عظمت کومزید بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ایک صنف کے بطن سے دوسری صنف پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً:داستان سے ناول نکلااور افسانہ بھی۔ اسی طرح تذکرے کی پگڈنڈیوںسے تنقید کی شاہ راہ بنی مگر گہرائی سے غور کرنے کے بعد لوری کی حقیقت اور بھی مستحکم ہو جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ لوری ایک ایسی صنف ہے جس سے دو اصناف نکلیں۔ اول: بچوں کا ادب۔ دوم: نثری نظم۔
اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا کہ لوری میں قافیہ، ردیف اور دیگر شعری لوازمات کا خیال رکھنا لازمی نہیں ہے۔’یہ گیت کوئی خاص وزن، بحر، تکنیک یا ہیئت نہیں رکھتا ہے۔‘(11) یعنی آہنگ اور غنائیت سے لبریز فقرے بچوں کے حق میں لوری بن جاتی؛ گویا بکھراؤ لوری کے لیے مزاحم نہیں ہے۔اسی طرح نثری نظم میں بکھراؤ کے ساتھ آہنگ اور غنائیت پائی جاتی ہے۔اس میں آہنگ سب سے بڑا عنصر ہے۔ اس لیے شاید یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہے کہ لوری کی شعریات سے نثری نظم کے اولین ہیولے کو ملایا جاسکتا ہے۔یہ کوئی دعوی نہیںلیکن گہرائی سے غور کرنے کے بعد کسی نہ کسی سطح پر لوری اور نثری کا رشتہ اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
راجا رسالواور مشتاق دربھنگوی نے لوریاں جمع کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے مگر ان کے یہاں بھی اس کی شعریات کے ضمن میں نظریاتی بحث نہیں ملتی(12)، اسی طرح خوش حال زیدی کے یہاںبھی نہیں۔اس لیے راقم نے اس کی شعریات پر کچی پکی گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ باتیں مسلمہ اصول نہ سہی، لوری کی مبادیات کے پس منظر میں قابل ذکر ہوسکتی ہیں۔ گردشِ زمانہ ہمیں پیچھے لوٹ کر قدیم فنون پر غور وفکر پر اکسارہی ہے۔ اس لیے لوری پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ کیوں کہ لوری یقیناً اہم ہے۔ جس طرح پاکیزہ قوالی باشعور لوگوں کا سماع ہے، اسی طرح بے شعور یعنی بچوںکے حق میں لوری سماع ہے؛ لوری بچوںکا سماع!
حواشی:
(1)لوری کی آفاقی زبان،مشمولہ:بی بی سی اردو،یکم جنوری 2013۔
(2)سید احمد دہلوی، مولوی، فرہنگ آصفیہ، جلد سوم، ترقی اُردو بیورو نئی دہلی، دوسرا ایڈیشن 1980، ص228۔
(3)راجا رسالو، لوک ورثے کا قومی ادارہ، اسلام آباد، 1980،ص4۔
(4)وکی پیڈیا
(5)لوری کی آفاقی زبان،مشمولہ:بی بی سی اردو،یکم جنوری2013۔
(6)راجا رسالو، لوک ورثے کا قومی ادارہ، اسلام آباد، 1980،ص5۔
(7)بلوچ، مری، میر شیر محمد،‘‘بلوچی زبان اور ادب کی تاریخ’’، کوئٹہ، بلوچی اکیڈمی، ص94۔
(8)خوش حال زیدی، اردو میں بچوںکا ادب، بزم خضرراہ کانپور،1989، ص14
(9)دیویندر اسر،ادب اور نفسیات،مکتبہ شاہراہ دہلی،1963، ص78۔
(10)خوش حال زیدی، اردو میں بچوںکا ادب، بزم خضرراہ کانپور،1989، ص14۔
(11) برکت شاہ، بچوں کے ادب میں لوری کی اہمیت، مشمولہ: اردو ریسرچ جرنل، شمارہ نمبر 23،جولائی2020۔
(12)مشتاق دربھنگوی، لوریاں، اخبار مشرق پبلی کیشنز کولکاتا، 2015، ص5۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...