Long Live مرزا یار
میرؔ کا شعر ہے ؎
چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
ہیر رانجھے کے علاوہ بھی پنجاب کی عشقیہ روایات بہت ہیں۔ان میں سے ایک کہانی مرزا اور صاحباں کی ہے۔ اس حوالے سے پنجابی کے یہ اشعار تعارف کے محتاج نہیں ؎
میں بکرا دیاں نیاز دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کُتی مرے فقیر دی جہیڑی چوئوں چوئوں نت کرے
پنج ست مرن گواہنڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے
مرزا یار کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں،اس کی محبوبہ انہیں ہٹانا چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا شوہر ہے جو کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے۔ اگر وہ مر جائے تو شکرانے کے طور پر وہ بکرا ذبح کرے گی۔ پھر بنیے کی دکان ہے جو رات گئے تک کھلی رہتی ہے اور جہاں دیوا یعنی چراغ جلتا رہتا ہے۔ یہ دکان بھی نذرِ آتش ہو جائے تو کیا ہی کہنا! پھر کٹیا والے فقیر کی کتیا مرے جو ہر وقت بھونکتی یعنی پہرے پر رہتی ہے۔محبوب کے وصال میں حائل، ان سارے ’’دشمنوں‘‘ کا صفایا ہو بھی جائے تو پڑوسنوں کا کیا بنے گا؟ یہ بدبخت ہر وقت کان لگائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ گلی میں کون آیا؟ کون یہاں سے گزرا؟ کس گھر میں داخل ہوا؟ بہتر ہے اِن فسادی پڑوسنوں میں سے کچھ اللہ کو پیاری ہو جائیں اور باقی جو بچیں، انہیں اتنا تیز بخار آلے کہ چارپائی ہی کی ہو کر رہ جائیں! اب کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔ میدان صاف ہو گا اور مرزا یار گلیوں میں دندناتا پھرے گا!۔
مرزے یار کی محبوبہ کی یہ ساری خواہشات (بلکہ دُعائیں)پوری ہو سکیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب پنجابی ادب کا کوئی عالم ہی دے سکتا ہے۔ ہمیں تو اتنا ہی معلوم ہے کہ اِن دنوں ملک کے سیاست دان مرزے کی محبوبہ کی طرح گلیاں خالی ہونے کی دعائیں کرتے پھرتے ہیں۔ یوں بھی قوم کو مبارک ہو کہ سیاست دانوں کے اتحاد کی ایک اور صورت پیدا ہو چلی ہے۔ پہلے تو آپس میں چونچیں لڑاتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست دان صرف اُس وقت باہم متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بنتے تھے جب اسمبلیوں میں ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہوتا تھا، یا زرعی آمدنی پر ٹیکس کی بات ہوتی تھی یا غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی ہونے لگتی تھی۔ اب یہ سیاست دان، یہ سارے سیاست دان اُن اداروں کے خلاف بھی متحد ہو گئے ہیں، جو کسی نہ کسی حوالے سے احتساب کر رہے ہیں۔ ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
سندھ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رینجرز سے تنگ ہیں۔ آج زرداری صاحب نے ایف آئی اے کی بھی شکایت کر دی۔ خیبرپختون خوا میں احتساب کے انچارج جرنیل صاحب استعفیٰ دے کر گھر سدھار گئے ہیں۔ پرویز خٹک صاحب ایسے احتساب کو پسند نہیں فرماتے جو ’’شرفا‘‘ کی داروگیر کرے۔ اونٹ کی پیٹھ پر پڑا ہوا آخری تنکا یوں نیچے آ رہا کہ ملک کی مقتدر ترین شخصیت، وزیر اعظم نے شکوہ کیا ہے کہ نیب ’’معصوم‘‘ لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔
قربِ قیامت کے لیے اور کون سی نشانی درکار ہو گی؟ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ اپنے عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ زرداری صاحب سندھ کے ہاریوں کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن کبھی رینجرز، کبھی ایف آئی اے، کبھی نیب، ہاریوں کو پتھر کے زمانے میں رکھنے کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ زرداری صاحب کو سندھ میں سماجی، معاشی اور تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنی ٹیم کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر عاصم کو بھی پکڑ لیں گے، اگر آپ ایان علی کو بھی ہر روز عدالتوں میں بلا لیں گے، اگر آپ شرجیل میمن کا تعاقب شروع کر دیں گے، تو وہ خاک اپنا پروگرام مکمل کر پائیں گے؟
اس ضمن میں قوم کو دو اہم نکتے یاد رکھنے چاہئیں۔ سیاست دان ملک کا مقدر ہیں۔ انہیں قدرت نے مامور کیا ہے۔ وہ ہماری تقدیر بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آدھے سیاست دان حکمران ہیں۔ باقی
آدھے اپوزیشن میں ہیں؛ تا ہم ہر دو اقسام مقدس ہیں۔ ہر دو ظل اللہ ہیں! ہر دو ہماری قسمتوں کے مالک ہیں، یہ رینجرز، یہ ایف آئی اے، یہ پولیس، یہ نیب یہ سب آخر کیا ہے؟ کیا سلطان علائو الدین خلجی کے زمانے میں یہ سارے جھنجھٹ تھے؟ کیا شہنشاہ اکبر، شہنشاہ جہانگیر، شاہ جہان، اورنگ زیب کے سامنے یہ رکاوٹیں تھیں؟ انہوں نے جو چاہا کیا مقبرے بنوائے، محلات تعمیر کیے، باغات بنوائے۔ ان میں بارہ دریاں کھڑی کیں۔ آبِ رواں کے لیے اِن باغوں اور محلات میں نہریں اور تالاب بنوائے۔ ان بادشاہوں کے نام آج بھی زندہ ہیں! کیا کسی نے ان کے مخالفین کے نام سنے؟ پھر زرداری صاحب ‘وزیر اعظم صاحب، پرویز خٹک صاحب اور عمران خان صاحب کے زمانے میں اِن رکاوٹوں کی، اِن اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ حضرات میٹرو بسیں بنائیں، اورنج ٹرینیں چلوائیں، دبئی میں بیٹھ کر سندھ پر حکومت کریں۔ کے پی میں تبدیلی لانے کے لیے احتساب کمیشن کے سربراہ کو گھر جانے پر مجبور کریں، جو چاہیں کریں، کسی کو کیا تکلیف ہے؟ خورشید شاہ کے کتنے اثاثے ہیں؟ اور اقتصادی راہداری کا اصل نقشہ کیا ہے؟ عوام کو اِن تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
دوسرا اہم نکتہ عوام کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کرپشن کی لعنت ملک سے دور کرنے کے لیے پٹواریوں، تھانیداروں، پرائمری سکولوں کے اساتذہ، پوسٹ مینوں، کلرکوں، نائب قاصدوں اور خاکروبوں کا احتساب لازم ہے۔ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ نیب پنجاب کا رُخ کرنے پر تلی کھڑی ہے۔ جبکہ خاکروبوں، پوسٹ مینوں اور پٹواریوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا بھی احتساب کوئی نہیں کر رہا۔ پولیس کے سپاہی کھلے پھر رہے ہیں۔ ریڑھی والوں پر ہاتھ کوئی نہیں ڈالتا۔ صحافیوں کو جیل میں ہونا چاہیے، مسجدوں کے موذن کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ آخر اس ملک میں انصاف کب آئے گا؟
ہمارے سیاستدانوں کو آخر کار، بعد از خرابیٔ بسیار، احساس ہو گیا ہے کہ ہمارا دشمن بھارت نہیں، ہمارا دشمن غربت اور ناخواندگی نہیں، ہمارا سب سے بڑا دشمن ہر وہ ادارہ ہے جو سیاست دانوں اور حکمرانوں کے احتساب کا سوچے گا اور کرنے کی کوشش کرے گا۔
ہم جناب وزیر اعظم کی خدمت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ نیب، پولیس اور ایف آئی اے کے تمام افسروں اور اہلکاروں کو فوراً جیلوں میں بند کر دیا جائے۔ رینجر زکو میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینیں چلانے پر مامور کر دیا جائے۔ مسلح افواج پر پابندی لگا دی جائے کہ وہ بیرکوں سے باہر نہ نکلیں اور نکلنا ہو تو لاہور گروپ کے اُن افسروں سے تحریری اجازت لیں جو دارالحکومت کو چلا رہے ہیں۔ کابینہ سے وزراء کا ایک وفد دبئی جا کر جناب زرداری کو عزت و احترام سے واپس لائے۔ ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا جائے۔ ایان علی کو سندھ کا گورنر مقرر کیا جائے اور ہاں! ایک ضروری تجویز پیش ہونے سے رہ نہ جائے۔ جناب افتخار چوہدری کو دوبارہ قاضی القضاۃ تعینات کیا جائے۔ بلٹ پروف کار ان سے کبھی واپس نہ لی جائے۔ وہ اپنی سیاسی جماعت کے بدستور سربراہ رہیں۔ نیب کو کنٹرول کرنے کے لیے اتنے زرخیز دماغ سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“