لندن کی ایک خوبصورت شام پاکستان کے نام۔
چند دن ھوے مجھے e mail کے ذریعے ایک مہربان کی طرف سے دعوت نامہ موصول ھوا جس میں پاکستان ایمبیسی لندن Pakistan Embassy London اور دیگر دو پاکستانی تنظیموں Global Pakistani Christian Association کی طرف سے یوم پاکستان کے حوالے سے ایک تقریب کا اھتمام کیا گیا تھا اس تقریب کا موضوع تھا
The role of the Pakistani minorities, built of nation".
آٹھ اگست کی شام چھ بجے تقریب کا اھتمام پاکستان ایمبیسی کے اندر تھا۔ تقریب کا آغاز قومی ترانے سے شروع ھوا۔
میزبان اور اسٹاف انتہائی محبت اور انکساری سے پیش آے جاتے ھی سوفٹ ڈرنک سے تواضع کی گئی، پورے لندن سے چند درجن چنیدہ چنیدہ لوگوں کو دعوت دی گئی تھی میں خود کو بار بار آئینے میں دیکھ رھا تھا کہ میں کب سے خاص ھو گیا ھوں؟ مہمان خصوصی بشپ مائیکل نذیر علی تھے جبکہ میزبان ھائ کمیشنر پاکستان تھے۔ تقریب اپنے مقررہ وقت پر شروع ھوئ میزبان تقریب رانا یوآب خان اور محترمہ آستر داس تھے۔ ھال میں لگے ھوے فل اسکرین ٹیلی ویژن پر تخلیق پاکستان سے لے کر آج تک کے، ھر شعبے ھاے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے بڑے غیر مسلم ھیروز کی تصویریں اور مختصر تعارف پیش کیا جا رھا تھا۔ سماجی خدمت میں پارسی عقیدہ نمایاں رھا جبکہ دفاع، تعلیم، اور طب کی خدمات میں مسیحیوں کی خدمات چھائ رھیں۔ احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ھیرو صرف عبدلسلام ھی جگہ پا سکے جو کہ میرے خیال میں بددیانتی کے مترافی تھا کیونکہ بے شمار جرنیل اور ھائ رینک فوجی اور سول سرونٹ افسران احمدی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے اور ھیں۔ اسی طرح ھندووں کی ریپرسنٹیشن ناں ھونے برابر تھی البتہ کامریڈ باغی سوبھو گیانچندانی کی تصویر اسکرین پر بار بار دیکھائی جارھی تھی۔ اسی طرح کوئ ھندو اور سکھ بھی پاکستان کی طرف سے اس تقریب میں موجود ناں تھا جبکہ اگر کوئ احمدی تھا تو وہ سامنے آکر بولا نہیں تھا بس خاموش تماشائی ھی تھا۔
ذاتی طور پر مجھے دو شخصیات کی تصاویر دیکھ کر خوشی ھوئ " اقبال مسیع " اور " سوبھوگیانچندانی " کیونکہ ان دونوں کے وجود کو حکومت پاکستان ھمیشہ نظرانداز کرتی آئ ھے۔ بشپ مائیکل نذیر علی آخری مقرر تھے مگر محفل لوٹ کر لے گئے۔ انتہائی تاریخی اور گمشدہ پہلو نمایاں کئے بہت ھی خوبصورت اور مدلل بولے۔ آخیر میں میزبان کونسلر جنرل صاحب نے اپنی دھواں دار تقریر کے ذریعے محفل میں جان ڈال دی، وہ کراچی کے رھنے والے ھیں اس لئے سینٹ پیٹرک اسکول اور اپنے اساتذہ کا ذکر خیر کرتے تھے اور انسان دوستی اور مذھبی رواداری کا بھی ذکر خیر بہت آیا۔ ان کی باتوں اور طرز تخاطب سے صاف عیاں تھا کہ وہ مسلمان تو ھیں مگر مولوی نہیں ھیں اگرچہ کہیں کہیں وہ بیروکریٹس والی ڈپلومیسی بھی کر جاتے تھے جو کہ ھر بیوروکریٹ کی خوبی ھے۔
اگرچہ میرے خیال میں بہت ھی خوبصورت پروگرام تھا ایک لبرل اور سیکولر پاکستان کا ماحول تھا بات بات پر اسلام اور حدیثوں کا ذکر نہیں تھا کسی بھی مذھب یا عقیدے کے متعلق کوئ بات نہیں ھوئ صرف اور پاکستان پاکستانیوں کا ذکر خیر اور محبتوں کا ذکر تھا، تاھم مجھے اس پروگرام میں بہت سے اقلیتی فرقوں کی نمائندگی کی کمی شدت سے محسوس ھوئ خاص طور پر احمدی، ھندووں اور۔۔۔۔خاص طور پر کولہی، بھیل،میگھواڑ اور باگڑی اور پکھی واس۔۔۔۔ یہ وہ اصل اور قدیم لوگ ھیں جنہیں اب ھم دھرتی کا وارث کہتے ھیں۔ امید کرتا ھوں مستقبل میں ان بے زبان لوگوں کو بھی یاد رکھا جاے گا۔ آخیر بہت ھی پر تکلیف ڈنر پیش کیا کھانا انتہائی لذیذ اور پرذائقہ تھا اور یہ محفل کھانے کے بعد بھی کئی گھنٹے تک جاری رھی۔شکریہ تمام میزبانوں کا۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔