لندن کے سیورج سسٹم میں حال ہی میں پولیو وائرس کی موجودگی ڈیٹیکٹ ہوئی ہے جس سے ماہرین کو یہ خطرہ ہے کہ کہیں پولیو برطانیہ میں دوبارہ نہ پھیلنے لگے- پولیو کی ویکسین برطانیہ (اور دنیا بھر میں) بچوں کو دی جاتی ہے اس لیے وہاں کی آبادی عمومی طور پر پولیو سے محفوظ ہے- لیکن پچھلے چند سالوں میں اینٹی ویکسین لابی کے پراپیگنڈہ کے نتیجے میں بہت سے والدین اپنے بچوں کو تمام ویکسینز نہیں لگواتے جس وجہ سے اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہاں کی آبادی کا کچھ حصہ پولیو وائرس کا شکار ہو سکتا ہے
سیوریج سسٹم کی مانیٹرنگ کیوں کی جاتی ہے؟
کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں- جہاں اب جگہ جگہ کورونا کے ٹیسٹ دستیاب ہیں اور کئی حکومتیں لوگوں کو گھروں میں فری کورونا ٹیسٹ کٹ فراہم کر رہی ہیں وہیں اب ہر بڑے شہر کے سیوریج سسٹم کو بھی مانیٹر کیا جا رہا ہے- سائنس دان سیورج سسٹم سے پانی کے سیمپلز لیتے ہیں اور ان میں موجود مختلف وائرس اور بیکٹیریا کی موجودگی کا ٹریک رکھتے ہیں- کورونا وائرس کس محلے میں پھیل رہا ہے اس کی جلد سے جلد ڈیٹیکشن سیوریج کے پانی کی سیمپلنگ سے ہوتی ہے- ایک ہی علاقے میں مختلف مقامات پر سیوریج کے پانی کے سیمپلز لے کر ماہرین بہت جلد یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ کورونا کا وائرس کس گلی کے کس حصے سے سیوریج سسٹم میں آ رہا ہے- اس علاقے کے لوگوں کے کورونا ٹیسٹ سے فوری طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وائرس کس گھر میں موجود ہے- اس گھر کے افراد اور ارد گرد کے ہمسایوں کو ویکسین کی ڈوز دی جا سکتی ہے اور متاثرہ افراد کو قرنطینہ کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ وائرس مزید نہ پھیلنے پائے- اسی قسم کی سیمپلنگ کے دوران لندن کے سیوریج سسٹم میں پولیو وائرس کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا
لندن میں پولیو کا وائرس کیسے پہنچا؟
ماہرین کو فی الحال اس سوال کا جواب معلوم نہیں ہے- لیکن ان کا اندازہ ہے کہ پولیو کا وائرس لندن میں کسی ایسے شخص سے پہنچا ہے جو پاکستان یا افغانستان سے لندن اس حالت میں گیا کہ اس کے جسم میں پولیو کا انفیکشن موجود تھا- اس وقت پولیو سوائے پاکستان اور افغانستان کے دنیا بھر سے ختم کیا جا چکا ہے- پولیو کا وائرس جسم کے دوسرے حصوں کی طرح معدے اور آنتوں میں بھی اپنی کاپیاں بناتا ہے اور فضلے کے ساتھ خارج ہوتا ہے- ترقی پذیر ممالک میں پولیو کا وائرس عام طور پر فضلے سے ہی پھیلتا ہے- خاص طور پر پاکستان اور افغانستان میں چونکہ ہم لوگ حوائج سے فارغ ہو کر ہاتھ سے طہارت کرتے ہیں اس لیے وائرس ہاتھوں کو بھی لگ جاتا ہے- اگر فراغت کے بعد صابن سے اچھی طرح سے ہاتھ نہ دھوئے جائیں تو ہاتھوں پر وائرس رہ جاتا ہے جو دوسرے لوگوں میں منتقل ہو سکتا ہے- اسےfecal-oral ٹرانسمشن کہا جاتا ہے- پاکستان اور افغانستان میں بچوں کو ویکسین کے قطرے اسی لیے پلائے جاتے ہیں تاکہ ویکسین براہِ راست نظام انہضام میں پہنچے اور وہاں کسی وائرس کو قدم نہ جمانے دے- مغربی ممالک میں جو پولیو ویکسین انجیکشن کے ذریعے دی جاتی ہے وہ fecal-oral ٹرانسمشن کے خلاف زیادہ اثر نہیں رکھتی
لندن کے سیورج سسٹم میں پولیو وائرس کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ لندن میں ایک سے زیادہ افراد کے جسم میں پولیو کا وائرس موجود ہے اور یہ وائرس مقامی آبادی میں سرکولیٹ کر رہا ہے- ماہرین عوام پر زور دے رہے ہیں کہ اگر ان کے بچوں کو پولیو کا ویکسین نہیں لگا تو فوری طور پر انہیں پولیو کے ویکسین لگوائیں تاکہ پولیو کے وائرس کو پھیلنے کا موقع نہ مل سکے- اس کے علاوہ چونکہ لندن ایک انٹرنیشنل شہر ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ آتے جاتے ہیں اس لیے ماہرین کو ڈر ہے کہ کہیں یہ وائرس لندن سے باقی دنیا میں نہ پھیلنے لگے
پاکستان میں پولیو کی ویکسین فری کیوں ہے؟
جو لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ترقی یافتہ ممالک پولیو کو ختم کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مفت ویکسین کیوں فراہم کرتے ہیں وہ یہ آرٹیکل ضرور پڑھیں- اس وقت پولیو تمام دنیا سے ختم ہو چکا ہے سوائے دو ممالک کے، یعنی پاکستان اور افغانستان- ان دونوں ممالک سے پولیو کو ختم کرنے کے لیے ویکسین کی فراہمی اور ڈسٹریبیوشن کے لیے عالمی ادارہ صحت نے لگ بھگ 300 ملین ڈالر مختص کیے ہیں- اگر بالفرض پولیو واپس دنیا میں پھیل جاتا ہے تو اسے کنٹرول کرنے کے لیے اربوں، شاید کھربوں ڈالر درکار ہوں گے اور اس سے دنیا کی معیشت کو جو نقصان پہنچے گا اس کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے- اس لیے دانشمندی یہی ہے کہ پولیو کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے- پولیو وائرس ایک انسانی وائرس ہے جو صرف انسانی جسم میں ہی اپنی کاپیاں بنا سکتا ہے- اگر اسے ایک دفعہ پوری دنیا کے انسانوں کے جسم سے ختم کر دیا جائے تو یہ بیماری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی-
اس سے پہلے دنیا بھر سے چیچک کا خاتمہ بھی اسی طرح کی ایک انٹرنیشنل مہم کی بدولت کیا جا چکا ہے- پولیو کی طرح چیچک کا وائرس بھی انسانی جسم سے باہر نہ تو زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے جانور میں اپنی کاپیاں بنا سکتا ہے- پولیو کے خاتمے کی مہم چیچک کے خاتمے کی کامیاب مہم کے سٹائل پر ہی ڈیزائن کی گئی تھی- چیچک کے خاتمے کے وقت دنیا میں نہ تو سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی سازشی نظریات- اس لیے چیچک کے خلاف مہم انتہائی کامیاب رہی اور 1980 میں چیچک دنیا بھر سے ختم ہو گئی- لیکن بدقسمتی سے پولیو کی مہم کے خلاف سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں بھرپور پراپیگنڈہ کیا گیا جو آج تک جاری ہے- اس وجہ سے پولیو کے خلاف مہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائی اور پاکستان اور افغانستان میں ابھی تک پولیو کے نئے مریض دریافت ہو رہے ہیں
کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کی معیشت کو ساڑھے آٹھ کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے- دنیا بھر میں اس وقت جو شدید معاشی بحران آیا ہوا ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ کورونا کی وبا بھی ہے- اگر دنیا بھر کی حکومتیں پہلے سے وباؤں کی روک تھام کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈنگ فراہم کرتیں تو کورونا کو وبا بننے سے پہلے ہی روکا جا سکتا تھی- ایسے پروگراموں پر جو لاگت آتی وہ کورونا کی وبا سے ہونے والے نقصان کے ایک فیصد سے بھی کم ہوتی- پولیو کے خاتمے کے لیے بھی فنڈز اسی لیے دیے جا رہے ہیں کہ اگر پولیو دنیا میں دوبارہ پھیلنے لگا تو اس کی روک تھام پر کئی گنا زیادہ لاگت آئے گی
اوریجنل انفارمیشن کا لنک