صوفیانہ کلام کو 'دنبورا' کے ساز پر اپنے منفرد انداز سے پیش کرنے والے علن فقیر سندھ کے ضلع جامشورو کے گاؤں آمری میں 1932 پیدا ہوئے۔
۔صوفیانہ کلام کے علاوہ انہوں نے اردو اور سندھی میں قومی گیت بھی گائے۔ انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
انہوں نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی۔
علن فقیرکا اصل نام علی بخش تھا.
علن فقیرنے جوانی میں فقیر تخلص کا انتخاب کیا اور گھر بار چھوڑ کر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت اختیار کرلی۔
ان کے والد دھمالی فقیر شہنائی بجانے کے حوالے سے معروف تھے۔
علن فقیر کوسندھی شاعری کی مشہور صنف وائی گانے میں بڑی قدرت حاصل تھی۔
بھٹ شاہ میں ہی علن فقیر نے شاہ لطیف بھٹائی کا کلام گانا شروع کیا۔
ان کی پرسوز آواز ریڈیو حیدر آباد تک پہنچی جس کے بعد انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔
علن فقیر نے اردو اور سندھی میں قومی گیت بھی گائے۔ان کا جھومتے ہوئے گائیکی کا منفرد انداز بہت پسند کیا گیا۔
نامور صوفی گائیک علن فقیر نے پاپ گلوکار محمد علی شہکی کے ساتھ مل کر گانا گایا تو وہ انہیں شہرت کی بلندیوں تک لے گیا۔
علن فقیر نے زیادہ تر سندھی زبان میں گلوکاری کی لیکن اردو زبان میں ان کا گایا ہوا ’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا ‘ انہیں مقبول کر گیا۔
اس کے علاوہ ان کی خوبصورت آواز میں گایا گیا ملی نغمہ ’اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا‘ خوب مشہور ہوا جو آج بھی یوم آزادی کے دن لہو گرماتا ہے۔
علن فقیر کو صدر جنرل ضیاء الحق نے 1980ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا، اس کے علاوہ انہیں شاہ لطیف ایوارڈ، شہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز سے بھی نوازا گیا-
1999ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے انہیں لائف اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا تھا۔
علن فقیر 4جولائی 2000ءکو اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔
وہ جامشورو میں سندھ یونیورسٹی کالونی میں اپنے مکان کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔۔!!!!