دنیا کی رنگینی بڑی دلچسپ اور پر کشش ہے۔ یہ اپنے اندر بسنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس میں کھو جائے، اور انسان بھی اس کی چاہ میں دل لگا بیٹھتا ہے۔ وہ اس میں موجود اشیاء کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ جیسے یہ مستقل قیام کی جگہ ہے۔ وہ اپنے مال و دولت اور اسٹیٹس بڑھانے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ اسے یاد نہیں رہتا کہ دنیا میں جو آیا ہے، اسے ایک دن واپس جانا ہے۔
انسان اگر اس جذبے کو دل میں پیدا کر لے اور اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ میرا دنیا میں قیام چند لمحوں کا ہے اور اس کے بعد آنے والی زندگی لامحدود ہے تو معاشرے کے تقریبا تمام مسائل ختم ہو جائیں۔ انسان اس خیال کو اپنے اندر راسخ کر لے کہ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کا سب کچھ مٹ جانے والا ہے تو اس کے اندر کی حرص و ہوس اور لالچ ختم ہو جائے اور وہ ہمہ دم اپنی آخرت کی فکر میں لگ جائے۔ قرآن میں زمین کی سیرکرنے کے حوالے سے ترغیب دی گئی ہے۔ اس پیغام کی بے شمار حکمتیں ہوں گی لیکن ہو نہ ہو ایک حکمت یہ بھی ہے انسان زمین کی سیر کرتے ہوئے گزرے ہوئے بادشاہوں کے محلات دیکھے جو اب کھنڈر بن چکے ہیں، مٹ جانے والے قوموں کے آثار دیکھے جو اب اس صفحہ ہستی میں موجود نہیں، گزشتہ اقوام کی تہذیب و تمدن دیکھے تاکہ اس کے اندر یہ چیز ترقی پائے کہ انسان خود بھی فانی ہے اور اس دنیا نے بھی مٹ جانا ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے، اللہ کی مان کر، اللہ سے دل لگا کر، اور اللہ ہی کی دی ہوئی زندگی کو اللہ کی اطاعت میں گزارنا چاہیے۔
احادیث میں موت کو کثرت سے یاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اس عارضی دنیا کو مستقل گھر نہ سمجھ بیٹھے، بلکہ یہاں ایک مسافر کی طرح زندگی گزارے۔ بلکہ ایک مثال سے واضح کیا گیا کہ ایک مسافر جو اپنی منزل کی جانب گامزن ہوتا ہے اور راستے میں کسی اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رک جاتا ہے تو یہ جو تھوڑی دیر کے لیے رکنے والا عمل یعنی اسٹیشن ہے، یہ ہی دنیا ہے۔ اس مثال سے ہم پر یہ بات عیاں ہو جانی چاہیے کہ انسان کا اس دنیا میں صرف اتنا ہی قیام ہے جتنا ایک مسافر کا راستے میں کسی اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رکنے کا۔
دنیا میں جو لوگ سخاوت کرتے ہیں، عبادت و ریاضت کرتے ہیں، خدمتِ خلق کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں بناتے ہیں، حرام سے بچتے ہیں، کسی کو دکھ نہیں دیتے، کرپشن سے وہ بھاگتے ہیں اور ظلم سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ان کے دل و دماغ میں بھی یہ بات موجود ہوتی ہے کہ ہمیں اس دنیا سے کچھ وقت کے بعد رخصت ہو جانا ہے،
یہاں راقم ()اظہار احمد گلزار) نے قبروں کے کتبوں سے ایک تاریخ کے ساتھ دنیا کے عارضی ؤ مختصر ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ ۔کہ کیا کیا ارمان لے کر یہ مشاہیر کل کے میدان سخن کے بادشاہ مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئیے ۔۔یہی قانون فطرت اور زندگی کی اصل ہے۔ ۔ان کے لواحقین نے ان کے کلام سے منتخب اشعار ان کی قبور پر درج کر کے اپنے دل کی تشفّی کے ساتھ ساتھ ان۔ مرحومین اہل قلم کی خواہش کا احترام کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ ۔۔۔اس دنیا سے سبھی کو ایک نہ ایک دن چلے جانا ہے۔ ان میں سے جن شعرا کا کلام ان کی زندگی میں ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجانے والوں کے کتبوں پر سجا، خود ان شعرا کی موت کے بعد وہی شعر ان کے لوحِ مزار پر بھی لکھ دیا گیا۔ یا پہلی بار لکھا گیا۔ ۔۔ یہاں ہم چند شاعروں کا ذکر کررہے ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں مدفون ہیں اور ان کے لوحِ مزار پر انہی کا شعر لکھا ہوا ہے۔
*اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں محوِ خواب ہیں۔
ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے:
سوئیں گے حشر تک کہ سبک دوش ہوگئے
بارِ امانتِ غمِ ہستی اُتار کے
*نام وَر نقاد اور شاعر سلیم احمد کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، ان کی قبر کے کتبے پر ان کا یہ شعر کندہ ہے:
اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
*اردو کے معروف اور صاحبِ طرز شاعر سراج الدین ظفر کراچی میں گورا قبرستان کے عقب میں مسلح افواج کے قبرستان میں دفن ہیں.
ان کے لوحِ مزار پر ان کا یہ شعر رقم کیا گیا ہے:
ظفر سے دُور نہیں ہے کہ یہ گدائے الست
زمیں پہ سوئے تو اورنگِ کہکشاں سے اٹھے
*استاد قمر جلالوی کا شمار اردو غزل کے چند نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ کلاسیکی رنگ میں شعر کہنے کے فن کے استاد تھے، ان کا ایسا ہی ایک شعر ان کی قبر کے کتبے پر بھی کندہ ہے جو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں واقع ہے۔
وہ شعر یہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتّوں پر جَلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے، بجلی گری تھی جب گلستاں پر
*اطہر نفیس جدید اردو غزل کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں دفن ہیں۔
ان کی لوح مزار پر انہی کا شعر تحریر ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا
* نور محمّد نور کپور تھلوی(1917-1997) ایک ایسے کہنہ مشق اور قد آور شاعر ہیں جن کی شاعری خوش گوئی و دلآویزی اور متانت فکرو نفاست خیال کا جہان رنگ و نور ہے۔ انصاف اور انسانیت کے لیے نور کپور تھلوی کی وابستگی کا شعلہ بے حد تابناک رہا ۔۔وہ ہمیشہ مرد مجاہد بن کر مردانہ وار ظلم کے خلاف لکھتا رہا۔وہ خیر کی قدروں کے نقیب تھے اور بری قدروں کو بری نظر سے دیکھتے تھے اور یہی ایک اچھے اور کھرے ادیب کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اور غیروں کی خیر چاہے۔۔۔۔خیر، امن اور سلامتی کے گیت گاتا چلا جائے۔۔۔۔یہی اُس کے اخلاص کی نشان دہی کرتی ہے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی کے فن آگاہ اور مزاج آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے ہر عہد اور ہر دور میں یہی رنگ بکھیرے اور اسی خوشبو کو عام کیا ۔ یہی دولت تقسیم کی اور اسی نور سے ظلمتوں کے خاتمے کی تمام تر کوششیں کیں۔
وہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں چک 87 گوگیرہ برانچ براہ ڈجکوٹ میں آسودہ خاک ہیں۔ان کے لوح مزار پر ان کا اپنا ہی شعر رقم ہے ۔۔۔
ہیں سب نور ہم منتظر اس گھڑی کے
کسے موت سے اس جہاں میں مفر ہے
*کوثر نیازی موسیٰ خیل پنجاب میں ١٩٣٤ کو۔ پیدا ہوۓ اور ١٩٩٤ کو وفات پا گئے ۔١٩٧٤ سے ١٩٩٧ کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ طاقت ور وفاقی وزیر تھے۔ ۔کوثر نیازی ، ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ایک تھے۔ ۔اوہ شاعری عمدہ شغف رکھتے تھے۔ ۔وہ اسلام آباد میں مدفن ہیں ۔۔ان کے لوح مزار پر ان کا اپنا نعتیہ شعر درج ہے ۔۔۔۔
کوثر ہے دل میں ایک ہی اعزاز کی ہوس
کہہ دیں وہ حشر میں کہ ہمارا غلام ہے
* پروین شاکر اردو کی معروف شاعرہ ٢٢نومبر ١٩٥٢ کو کراچی مسن پیدا ہوئیں ۔۔"خوشبو " سے "خود کلامی " تک کا پروین شاکر کی شاعری کا سفر کتنے متنوع تجربات،سوچ کی کتنی دیدہ جہتوں اور حسن اظہار کے کتنے تیوروں سے آراستہ ہے ۔۔29 دسمبر ١٩٩٣ کی ایک دھندلی صبح ٹرافک کے حادثہ کا شکار ہو گئیں ۔۔وہ اسلام آباد میں ہی مدفن ہیں ۔۔۔۔ان کے لوح مزار پر ان کے اپنے اشعار رقم ہیں ۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھولا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
عکس خوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر تو جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
*احمد فراز (1931-2008)پاکستان کے ایک ممتاز و معروف شاعر ہیں۔ ان کی ہم رنگ و ہمہ گیر طبعیت نے کسی خاص رنگ سخن پر قناعت نہ کر کے مشاہیر شعراءے متقدین و متاخرین میں سے ہر ایک کے انداز سخن کا پسندیدہ نمونہ پیش کیا ۔۔ان کی شاعری غم دوراں اور غم جاناں کا حسین سنگم ہے ۔۔وہ اسلام آباد میں آسودہ خاک ہیں۔ ۔ان کی لوح مزار پر یہ شعر رقم ہے ۔
میں کہ صحراے محبّت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
….
*ہادی مچھلی شہری کے لوح مزار کے لئے خود ان کے اپنے لکھے ہوئے شعر
اک کھلونا ٹوٹتے جس کو نہیں لگتی ہے دیر
زندگی کیا ہے فقط ترکیبِ آب و گلِ کی بات
عہدِپیری تک تھیں جتنی منزلیں سب آگئیں
رہ گئی ہے اب تو ہادی آخری منزل کی بات
…….
* حفیظ ہوشیار پوری کی قبر کا کتبہ ہے:
سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہو گئے
بارِ امانتِ غم ہستی اُتار کے
……
*قیس سہارنپوری :
اے قیس میری قبر کسی کی عطا نہیں
دے کر متاعِ زیست ملا ہے یہ گھر مجھے
…..
میں بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
(وفات :8نومبر 2002ء قبر ،جون ایلیا )
…….
کہتا ہوں __ ایک بات بڑی مختصر سی ہے
جھک کر چلو حیات بڑی مختصر سی ہے
(وفات: 1987ء قبر: سید محمد حسن نقوی ،شاعر)
…….
اک پتنگے نے یہ اپنے __ رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
( قبر: سلیم احمد ،ڈرامہ نگار، شاعر)
……
جاتے ہوئے کہتے ہوقیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
(وفات: 27اکتوبر 1968ء قبر: سید رئیس احمد جعفری)
…….
شاید ہی ہم سا کوئی پرستارِ حسن ہو
خود ہم بکھر گئے تیری زلفیں سنوار کے
(وفات :29مئی 1986 ء قبر: ابومسلم صحافی ادیب)
…….
جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سائے تلے
حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سائے تلے
……..
ہندوستان کے بادشاہ جہانگیر کی بڑی صاحبزادی اور ممتاز محل کی شہزادی جہان آراء بیگم جنکی آخری آرام گاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کےاحاطے میں ہے ۔ ایک فارسی گو شاعرہ اور مصنفہ تھیں ۔انکی قبر کی لوح پر یہ شعر درج ہے ۔
بغیر سبزہ نپوشد کسی مزارمرا
کہ قبر پوش غریباں ھمین گیاہ بس است
یعنی ،
صرف سبزہ ہی میری قبر کی چادر ہو
ہم غریبوں کے لیئے یہ بھی بہت کافی ہے
*میر جدید کہلانے والےعہد ساز شاعر ناصر کاظمی کی شاعری لطیف انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔ آٹھ دسمبر سن انیس سو پچیس کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے اپنی سینتالیس سالہ زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں، اور رات کی کہانیاں سناتی ویران سڑکوں پر رتجگے کرتے ہوئے گزارا۔ اُن کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں رتجگوں کا نچوڑ ہیں۔1٩٧٢ کو سخن کی شمع گل ہو گئی تھی ۔
ناصر نے شاعری میں اپنی لفظیات اور حسیات کے پیمانے رومانوی رکھے اس کے باوجود اُن کا کلام عصرِ حاضر کے مسائل سے جڑا رہا۔ چھوٹی بحر کی خوبصورت پیرائے میں لکھی گئی غزلیں اور منفرد استعارے اُن کی شاعری کو دیگر ہمعصر شعرا کے اُسلوبِ کلام سے ممتاز کرتے ہیں۔ان کے لوح مزار پر ان کا ہی مشہور شعر رقم ہے۔
دائم آباد رہے گی یہ دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
*مجید امجد (1914-1974)اردو کے عہد ساز اور صاحب اسلوب نظم گو کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ شب رفتہ اور شب رفتہ کے بعد، جیسے مہتمم بالشان شعری مجموعوں نے اردو ادب کو بے حد ثروت مند بنایا۔ اردو غزل جیسی طاقت ور صنف سخن کی موجودگی میں نظم گوئی کے میدان میں قدم جمانا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا بلاشبہ مجید امجد ہی کا کارنامہ تھا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جدید اردو نظم گوئی کے بنیاد گذاروں میں مجید امجد کا نام بہت نمایاں اور وقیع ہے۔ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شعری روایت سے منسلک رہتے ہوئے جدید تقاضوں کا خیال بھی رکھا اور ایسی تازہ شاعری کی جو اردو ادب کا بیش بہا اثاثہ بن گئی ہے۔۔مجید امجد کی قبر پر ان کا اپنا ہی شعر کنداں ہے ۔۔
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں ، گلاب کے پھول
*دلشاد احمد چن کا تخلیقی سفر ایک جہد مسلسل ہے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ قریب سے دیکھا، پڑھا اور محسوس کیا اُسے اُسی شدت سے پڑھنے والے تک پہنچا دیا۔ اُن کے شعروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھا اور سچا شعر وہی ہوتا ہے جو اُس لمحے کو گرفت میں لے لیتا ہے جب وہ نازل ہوتا ہے۔ دلشاد احمد چن نے ایسے کتنے سینکڑوں لمحات شعروں میں گرفتار کر رکھے ہیں۔ یہ لمحے اُس عہد کی کہانی پیش کرتے ہیں جو دلشاد احمد چن کا عہد ہے۔ آپ کا عہد ہے۔ میرا عہد ہے۔ جنہیں ہم کمزور اور بے بس طبقہ کہتے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے کہتے ہیں۔ جنہیں بے زمین کہا جاتا ہے۔ دلشاد احمد چن نے اِن محروم طبقے کو تاریخ کے اوراق میں مزین کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب ہم نہیں ہوں گے یہ عہد نہیں ہو گا تو دائم آباد رہنے والی دُنیا اور ہم جیسے کئی دلشاد احمدچن کے شعروں میں ہمیں اپنے شُعلے برساتی آنکھوں اور تمتاتے چہروں کے ساتھ سجے دیکھیں گے۔غلام۔ محمّد آباد فیصل آباد کے قبرستان میں مدفن ان۔ کی قبر کے کتبے پر ان۔ کے اپنے پنجابی اشعار رقم ہیں۔ ۔
اوھنے حشر وچ آونا اے کم تیرے بٹھ نیکیاں دا جیہڑا پتھ جانا
اوسے پیار نے رکھنی لاج تیری پا کے جیھدے سہاگ دی نتھ جانا
نشہ دولت دا پل دو پل دا اے اینے وانگ شراب دے لتھ جانا
چن کجھ وی نہیں جانا نال تیرے خالی ہتھ آئیوں خالی ہتھ جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بری نظامی (1937-1997)گیت نگاری کے حوالے سے ایک ماؤف نام ہے۔
بری نظامی کے لکھے ہوئے نغموں نے نصرت فتح علی خان کے فن کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا- وہ خود تو غریب تھا، غریب ہی مرا، لیکن اس کانام اس کے گیتوں کے باعث امر ہو گیا- اس کے دلگداز گیت ’’کسے دا یار ناں وچھڑے ‘‘نے تو سارے پاکستان کو رلا دیا تھا- بے پناہ درد ہے اس کے الفاظ میں بھی اور نصرت فتح علی کے انداز میں بھی- عطا اللہ خان عیسی خیلوی کی آواز میں بھی بری نظامی کا ہر گیت بے پناہ مقبول ہوا-۔قوالی ۔۔مست مست دم مست مست کو نصرت فتح علی خان نے گا کر گیت اور گیت نگار دونوں کو امر کر دیا ۔کدی کدائیں دنیا اتے بندہ کلا رہ جاندا اے اپنے غیر وی بن جاندے نیں بس اک اللہ رہ جاندا اے۔ آباد فیصل میں سمن آباد۔ کے شہر خموشاں میں ان۔ کی قبر پر ان قوالی اور ایک گیت کے بول درج ہیں۔
مست مست دم مست مست ۔۔۔۔اور کدی کدائیں دنیا تے بندہ کلا رہ جاندا اے ۔۔
* احمد شہباز خاور (1959-2019) ان ادبی شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے مختلف ادبی اصناف میں اظہار_خیال کیا۔اردو اور پنجابی زبان میں بہت کچھ لکھا۔ آپ کی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں ، شاعری کے علاوہ ، افسانہ اور ڈرامہ نگاری میں بھی شہرت حاصل کی۔ اردو اور پنجابی زبانوں میں نعت کہنے کی سعادت بھی میسر رہی۔۔ جامعہ سلفیہ دار العلوم روڈ فیصل آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک اس شاعر کے لوح مزار پر ان کا اپنا پنجابی نعتیہ شعر درج ہے ۔۔
لباں تے تذکرہ ہووے سدا آقا ؤ مولا دا
اساڈی قبر دے وچ وی ضیاء سرکار دی ہووے
…….
“