خوف پیدا ہونے کیلئے خطرے کا ہونا ضروری نہیں، خوف انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے حالات سے اور خیالات سے۔
جینے کی خواہش اور موت کا خوف وہ دو فیکٹرز ہیں جنکا “مین اسٹریم میڈیا” کی طرف سے بے دریغ استعمال جتنا پچھلے دو مہینوں میں نظر آیا ہے اتنا پہلے کبھی نظر نہیں آیا
کورونا ایک جان لیوا بیماری ہے جان جانے کا خوف تین فیصد ہی سہی لیکن بحرحال موجود ہے لیکن جان جانے کا تناسب صرف تین فیصد ہی ہے۔
اس تین فیصد کو استعمال کرکے مین اسٹریم میڈیا نے پوری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے
عالمی معیشت تاش کے پتوں کے محل کی طرح زمین بوس ہوگئی ہے
کل کے کروڑ پتی کورونا سے بچ کر بھی جیتے جی مر گئے ہیں
حالانکہ ذمہ دار میڈیا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تین فیصد مرنے کے تناسب کے ساتھ ساتھ ستانوے فیصد بچنے کے تناسب کو بھی عوام کو بتایا جاسکتا تھا
یہاں پر سوشل میڈیا کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ سوشل میڈیا نے
اتفاقاً ہی سہی لیکن پھر بھی عوام کو اپنے ہلکے پھلکے مزاح سے تفریح طبع کی خاطر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے
انفارمیشن کے بازار میں اگر تقابلی جائزہ لیں تو مین اسٹریم میڈیا نے صرف تین فیصد خوف بیچا ہے
جبکہ سوشل میڈیا نے باقی کے ستانوے فیصد “امید” بیچی ہے
اب یہ تین فیصد خوف کتنا ہی بھیانک سہی لیکن اللہ کی رحمت پر یقین رکھیں کیونکہ وہ ستانوے فیصد نہیں بلکہ “کامل رحمت” ہے
احتیاط کریں اپنا اور اپنے پیاروں کا اور زندگی کے اس عجیب و غریب حصے کو انجوائے کریں
کسی کی مدد کردیں
اپنے آس پاس میں لوگوں کو دیکھییں
جنھیں باہر جانے
سے بچانے کیلئے انکی ضرورت کا سامان لاکر دے دیں
دنیا پر یہ وقت شاید پھر نہ آئے اور صدیوں یاد رکھا جائے گا
اس لئے اس گزرتے ہوئے وقت میں اچھی یادیں بنائیں جو کل اس وقت کو یاد کرکے آپکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لے آئے
“لوگوں کو امید بیچیں، خوف نہیں”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...