وکیل، صحافی، لوہار، کسان، ٹیچر، فوجی، درزی، ڈرائیور، انجینیر، تاجر ۔۔۔۔ ہم اپنی پہچان اپنے پیشے سے کرواتے ہیں۔ پیشہ ہماری مہارت اور معاشرے میں ڈالے جانا والا ہمارا حصہ ہوتا ہے۔ خانہ بدوش قبیلے میں محنت کی تقسیم نہیں ہوتی۔ جس طرح آبادی بڑھتی ہے، خاص مہارتوں کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پیشوں میں سپیشلائزیشن زیادہ آتی جاتی ہے۔ ڈبل انٹری اکاونٹنگ یا کارپوریٹ وکالت کا فن ایک دیہی کمیونیٹی میں بے کار ہے۔
ابتدائی پیشوں کا مقصد اشیاء بنانا تھا۔ لیکن اس کے بعد کچھ ایسی مہارتوں پر مبنی پیشے بھی آنے لگے جن کا مقصد فزیکل محنت یا خوراک یا اشیاء کی پروڈکشن نہیں تھا، بلکہ ذہنی ایکٹیویٹی تھا۔
کئی لوگوں کی مہارت نہر کھودنا نہیں ہوتی بلکہ بغیر تھکے طویل وقت تک یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر سوچنا ہوتی ہے۔ یہ انٹلکچوئل پیشے ہیں۔ میسوپوٹیمیا کے شہری کلچر میں مرکزی تنظیم، قوانین، ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اسے ریکارڈ کرنے کے پیشے بھی آنے لگے۔
شہری نظام میں تبادلے کے نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی باڈی کی جو اس تبادلے پر نظر رکھ سکے تا کہ بلاتعطل نظام جاری رہے۔ جب خوراک زیادہ ہو تو کمیونیٹی اسے ذخیرہ کر سکے تا کہ خانہ بدوش قبائل کی طرح اس کے کم ہونے پر نقل مکانی نہ کرنے پڑے۔ اور پھر ان ذخائر کی حفاظت ہو سکے۔ اپنا دفاع کرنے والی ملیشیا کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اس وقت کی شہری ریاستیں ہمیں مسلسل جنگ کی حالت میں نظر آتی ہیں اور یہ جنگ زمین یا پانی کی سپلائی پر ہوا کرتی تھی۔
پبلک ورکس کے پراجیکٹ کے لئے افرادی قوت کو منظم کرنے کی ڈیمانڈ تھی۔ شہر کے دفاع کے لئے دیوار تعمیر کرنا تا کہ حملہ آوروں سے بچا جا سکے۔ سڑکیں تا کہ ایجاد ہونے والی پہیے کے استعمال سے بننے والی گاڑیوں کو ان پر چلایا جا سکے۔ زراعت کے لئے پہلے سے بھی بڑے آبپاشی کے پراجیکٹ۔ اور اس سب کو منظم کرنے کے لئے مرکزی اتھارٹی، بیوروکریسی اور ان کے لئے عمارتیں اور پھر محل۔
پھر ان شہروں میں نظم قائم رکھنے کے لئے پولیس کی ضرورت تھی۔ جب بستیوں میں درجنوں یا سینکڑوں لوگ رہتے ہوں تو ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہے۔ جب یہ تعداد ہزاروں میں ہونے لگے تو ایسا ممکن نہیں رہتا۔ لوگوں کو اجنبیوں سے معاملات کرنے ہوتے ہیں اور اس میں تنازعے آ جاتے ہیں۔ سائکولوجسٹ، اینتھروپولوجسٹ اور نیوروسائنٹسٹ گروپ کا سائز بڑا ہونے پر ہونے والی ڈائنامکس کی تبدیلی کی سٹڈی کرتے ہیں اور اس کے ماڈل بناتے ہیں لیکن بنیادی لیول پر اسے سمجھنا آسان ہے کہ ہوتا کیا ہے۔ اگر کسی سے میری ملاقات رہنی ہے تو اگر میں اسے پسند نہیں بھی کرتا تو بھی اسے ظاہر نہیں کروں گا۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اس کے سر پر ڈنڈا رسید کر کے اس کی بکری اٹھا کر نہیں لے جاوٗں گا۔ لیکن اگر کوئی میرے لئے اجنبی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ میری اس سے ملاقات نہیں ہونی تو بات بدل جاتی ہے اور یہ تنازعات کی جڑ ہے۔ اور اگر اس لئے تنازعات طے کرنے کے رسمی طریقے درکار ہیں۔ ان پر عملدرآمد کروانے کے لئے پولیس درکار ہے۔ اور اس کے لئے مرکزی حکومتی اپریٹس کی ضرورت ہے۔
اس سب کو منظم رکھنے کے لئے ذاتی اور اجتماعی اخلاقی نظام کی ضرورت ہے۔ اتھارٹی کی ضرورت ہے اور قوت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک شہر کو اور ایک سوسائٹی کو اکٹھا باندھ کر رکھتی رہی ہیں۔ اور اس وجہ سے لوگ کسی کے سر پر ڈنڈا رسید کر کے بکری نہیں لے جاتے اور شہر چل سکتے ہیں۔ اوروک کے معاشرے میں مذہبی عمارتیں اور شاہی عمارتیں شہر کا فوکس تھیں۔
اتھارٹی کا مطلب طاقت ہے لیکن موثر ہونے کے لئے ڈیٹا کی بھی ضرورت ہے۔ محنت اور اشیاء کے تبادلے کی ریگولیشن کے لئے، ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے اور معاہدوں پر عملدرآمد کروانے کے لئے۔ اس کے لئے وہ لوگ چاہیے تھیں جو یہ ڈیٹا اکٹھا کر سکیں، اس کو پراسس کر سکیں اور اس بارے میں کی گئی ایکٹیویٹی کا ریکارڈ رکھ سکیں۔ آج حکومتی بیوروکریسی کو انٹلکچوئل کام کے طور پر نہیں دیکھا جاتا لیکن یہ وہ بیوروکریسی کی ضروریات تھیں جن کی وجہ سے انسانی تاریخ کی اہم ترین ذہنی ٹیکنالوجی کی ایجادات ہوئی۔ پڑھنا، لکھنا اور ریاضی۔
آج انہیں بنیادی مہارتیں سمجھا جاتا ہے جو ہم چھوٹی عمر میں ہی سیکھنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری بنیادی اس لئے لگتے ہیں کیونکہ کسی نے انہیں بہت پہلے ایجاد کیا تھا اور اس وقت سے یہ فن اساتذہ کے ذریعے سفر کرتا رہا ہے جو اسے سکھانے میں محنت کرتے رہی ہیں۔ لکھنا، پڑھنا، جمع تفریق کے خیالات ان شہروں کو منظم رکھنے کے لئے کی گئی ایجادات ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...