لوگ ن لیگ اور نواز شریف کو کیوں سپورٹ کرتے ہیں؟ ہمارا ان سے کیا نظریاتی اختلاف ہے؟
جواب:
عمومی طور پر انسانی خواہشات و چاہتوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ یہ خواہشات Minimum سے شروع ہوکر maximum تک مختلف درجات میں تقسیم ہوتیں ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ maximum درجے کی خواہشات عمومی طور پر سب انسانوں میں قریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ minimum یا کم سے کم خواہش ہی وہ درجہ ہے جو انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔
اس کو ایک آسان مثال سے سمجھتے ہیں:
ایک جماعت میں مختلف بیک گراؤنڈ، خیالات، صلاحیتیں اور "خواہشات" رکھنے والے طالبعلم موجود ہیں۔ اب تمام کے تمام طالبعلموں کی جو زیادہ سے زیادہ خواہش کا درجہ ہے وہ سب میں مشترک ہے اور وہ ہے آنے والے امتحانات میں اے ون گریڈ کا حصول۔ سب ہی کی دلی تمنا یا خواہش ہوگی کہ وہ سب سے اعلیٰ گریڈ میں پاس ہوسکیں۔ لیکن جہاں بات کم سے کم خواہش کے درجے کی آئیگی وہاں واضح تقسیم اور گروہ بندی نظر آنے لگے گی۔
جو جماعت کی کریم ہوگی وہ اے ون گریڈ سے "کم" پر راضی نہیں۔ کچھ طالبعلم ہونگے جن کا "کم سے کم" اے گریڈ ہوگا۔ کچھ کا بی، کچھ کا سی گریڈ اور کچھ کا صرف امتحان پاس کرلینا ہی مطمع نظر ہوگا۔ یہیں سے مختلف الخیال افراد وجود میں آتے ہیں۔
ایک اور مثال بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل گریجویٹ کی سوچ میں بھی اس تقسیم کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اوپری درجے کی بات کریں تو سب کی سوچ اور خواہشات میں یکسانیت نظر آئے گی۔ سب کے سب لاکھوں روپے تنخواہ، کمپنی مینٹینڈ کار اور دیگر مراعات کے خواہشمند ہونگے لیکن "کم سے کم" کا معیار ہر ایک کا الگ اور متنوع ہوگا۔ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی اور ایک لاکھ تنخواہ سے کم پر راضی نہ ہوگا۔ کسی کے لیے پچاس پزار بہت ہیں۔ کوئی بارہ ہزار پر بھی راضی ہوجائے گا اور کسی کے لیے صرف نوکری مل جانا بھی بہت ہوگا۔
اس طویل تمہید باندھنے کا مقصد یہی سمجھانا تھا کہ انسانوں میں پائی جانے والی گروہ بندی اور سوچ و فکر کا تنوع maximum کی بنیاد پر نہیں بلکہ minimum requirement کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں اصل بات کی طرف!
انسانی خواہشات کی مختلف درجہ بندیاں ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے انسان عمومی طور پر اپنے حکمرانوں سے مختلف نوع کی توقعات رکھتا ہے۔ سیاسیات کی حرکیات انہی متنوع توقعات سے جنم لیتیں ہیں۔ سیاسی طور پر اسکی توقعات کی درجہ بندیاں درج ذیل ہیں:
پہلا درجہ: سب سے پہلی خواہش ہے پیٹ۔ انسان کی سب سے پہلی ترجیح بھوک کو مٹانا اور پیٹ بھر کھانا ہے۔
دوسرا درجہ: بھوک مٹ جائے تو انسان کی اگلی خواہش تن آسانی ہے۔ اس میں کپڑا و مکان وغیرہ شامل ہی۔
تیسرا درجہ ہے آسائشات۔ اس مرحلے میں سواری، سڑکیں، پل، بجلی وغیرہ شامل ہیں۔
چوتھا درجہ ہے عزت نفس: اس شعوری مرحلے میں انسان سوسائٹی میں عزت سے زندگی گزارنے اور اقوام عالم میں سر اٹھا کر جینے کی خواہشات اپنے دل میں پروان چڑھتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ اپنی عزت نفس کے حوالے سے وہ بہت حساس ہوجاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جہاں سے اشرف المخلوقات کا اسٹیٹس حقیقی معنوں میں شروع ہوجاتا ہے۔ اخلاقی پیمانے اپنی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔
اب یہاں سے پاکستانی سیاست کے حوالے سے ان تمام درجات کا جائزہ لیتے ہیں:
سندھ میں پیپلز پارٹی عشروں سے حکمران ہے۔ اس جماعت کی پرفارمنس اور قابلیت بدترین شمار کی جاسکتی ہے۔ نتیجتاً صوبے کی اکثریتی عوام، خاص کر دیہی سندھ میں عوام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سندھ کے کئی پسماندہ اضلاع میں عوام کو اس جدید دور میں بھی فاقوں سے لڑنا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود وہاں کا ووٹر زبان سے لاکھ شکایت کیوں نہ کرے لیکن الیکشن میں آج بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈال آتا ہے جو کہ ہم جیسے کئی لوگوں کے لیے شدید حیرت کا باعث ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
وجہ ہے "کم سے کم" خواہش کا درجہ۔۔۔
اپنی کئی عشروں کی شدید بدحالی کے باعث، سندھ کا غریب و لاچار ووٹر بمشکل پہلے یا دوسرے درجے تک پہنچ پایا ہے۔ دل تو اسکا بھی چاہتا ہے کہ سکھر و لاڑکانہ لندن و پیرس بن جائے لیکن جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان عمومی طور پر maximum کی خواہش تو کرتا ہے لیکن گزارا اپنے minimum پر ہی کرتا ہے۔
غریب سندھی کا پیٹ جیسے تیسے بھر ہی جاتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح اس کے لباس اور پھر چھت کا انتظام بھی ہو ہی جاتا ہے تو زبان پر شکوہ رکھنے کے باوجود وہ دل میں پیپلز پارٹی سے آج بھی "کم سے کم" درجے میں مطمئن ہے اور آج بھی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پھر سے ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔
اب آتے ہیں پنجاب کی طرف۔۔۔
پنجاب کے حالات سندھ سے کئی گنا بہتر ہیں۔ یہاں پیٹ بھرنے، لباس یا چھت کا مسئلہ نہیں۔ عوام میں تعلیم و شعور کا لیول سندھی عوام سے کافی حد تک بہتر ہے۔
پنجاب میں سالہا سال سے نون لیگ کا مضبوط ووٹ بینک قائم ہے۔ ووٹر میاں صاحب اور انکی حکومت سے مطمئن نظر آتا ہے۔ کرپشن، تھانہ کچہری کے معاملات سے اسے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔۔۔
وجہ۔۔۔؟؟؟
وجہ ہے تیسرا درجہ۔۔۔
پنجاب کے ن لیگی ووٹر کو سڑکیں مل رہیں ہیں، پل مل رہے ہیں۔ اسکی انکھوں کے سامنے چمچماتی ہوئی گرین لائن بسیں اور اورنج ٹرینیں دوڑتی پھر رہیں ہیں۔ لوڈ شیڈنگ میں پہلے کے مقابلے میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ شعوری طور پر یہ ووٹر تیسرے درجے سے تعلق رکھتا ہے لہذا یہ سب باتیں اسکو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں۔
رہے یہ سوال کہ میگا پروجیکٹس کہاں سے بنے، کیسے بنے، ریکارڈز میں اتفاقیہ بار بار کیوں آگ لگتی رہی، ملک پر قرضےقریب قریب دوگنے کیوں ہوگئے، کشکول کو آج بھی کیوں توڑا نہ جاسکا وغیرہ وغیرہ، ان سب باتوں سے اس ووٹر کو ایسے ہی فرق نہیں پڑتا جیسے اپنے درجے کے لحاظ سے پیپلز پارٹی کے ووٹر کو نفسیاتی طور پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
یہ افراد انسانی شعور کے بلند ترین مقام تک نہیں پہنچے۔ عزت نفس انکا خاص مسئلہ نہیں۔ شعور کے بلند ترین مقام تک نہ پہنچنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان Absolute سوچ کے بجائے comparative سوچ میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔
ن لیگ کا ووٹر، ترقی یافتہ معاشروں میں انسانوں کو ملنے والے حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنا موازنہ سندھ سے کر کے مطمئن ہوجاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اسکی نظر پولیس کے بہتر نظام کی بجائے سڑکوں، پلوں اور بسوں تک ہی رہتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ پاتا کہ کے پی کے میں کوئی عابد باکسر نہیں۔ وہاں ماڈل ٹاؤن جیسا حکومتی سرپرستی میں ہونے والی قتل و غارتگری کا ایک بھی واقعہ نہیں۔ انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ میں کے پی کے پنجاب سے یقیناً پیچھے ہے لیکن وہاں کی عوام کو پولیس اور سرکاری اداروں کے ہاتھوں ذلیل کرنے جیسے واقعات میں پنجاب و سندھ کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔
یہ سب چیزیں ن لیگی ووٹر کیوں نہیں دیکھ پاتا؟
وجہ یہی ہے کہ درجہ سوئم میں ہونے کی وجہ سے عزت نفس ن لیگی ووٹر کا سرے سے مسئلہ ہے ہی نہیں۔
آپ دیکھتے ہوں گے کہ عام ووٹر کو تو چھوڑیں، ن لیگ سے ہمدردی رکھنے والے چوٹی کے دانشور آپ کو بجلی، سڑکیں، بسیں اور ٹرینیں گنواتے ہوئے انکی تعریف میں رطب اللسان ملیں گے۔
(دانشوروں کے ناموں سے آپ سب بخوبی واقف ہیں)
انکے لیے پولیس کا انتہائی گھناؤنا رویہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کورٹ کچہری میں شریف آدمی کی عزت کا جو فالودہ بنایا جاتا ہے وہ انکی ترجیہات ہیں ہی نہیں۔
اب ایک درجہ اور اوپر چلتے ہیں۔۔۔
گرین پاسپورٹ کو پوری دنیا میں تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کہیں گے کہ اس میں عوام کا قصور ہے۔ جزوی اتفاق ہے، مکمل نہیں۔
بھارتی شہری اپنی حرکتوں میں آپ سے کم نہیں۔ خلیجی ممالک میں جاکر دیکھیے، پاکستانیوں کی چمک، ششکے اور دماغ الگ نظر آتے ہیں، بھارتیوں کی مفلسی و مفلوک الحالی الگ پتا چلتی ہے۔ ایک عام بھارتی، پاکستانی سے کہیں کم اجرت پر کام کرنے کو فوراً راضی ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کی کوئی حکومت بھارتیوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت تک نہیں کرتی۔۔۔
کیوں؟
انکی حکومت ملک میں عوام کا جتنا بینڈ بجاتی ہے، وہ الگ بات ہے، مگر ملک سے باہر وہ اپنی قوم پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے۔ بھارتی حکمران اس معاملے میں انتہائی سخت و جارحانہ رویہ اپناتے ہیں۔
چلیے ایک اور بات بتاتا چلوں۔۔۔
آپکے خیال میں ہماری حکومت و اسٹیبلشمنٹ نے ریمنڈ ڈیوس کو اسکے اعلیٰ اخلاق و بلند کردار کی وجہ سے چھوڑا تھا؟
آپکو آپکا جواب مل چکا ہے۔۔۔
ریمنڈ ڈیوس اور اس قماش کے دوسرے بدمعاشوں کو فوراً چھوڑدینے کی وجہ انکی حکومتوں کے انتہائی جارحانہ اقدامات تھے۔
اب زرا سوچیئے کہ اگر آپ بیرون ملک کہیں پھنس جائیں تو آپکی حکومت کا کیا کردار ہوگا؟
گرین پاسپورٹ کی دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر کیا وقعت ہے؟
آپکا دل کڑھتا ہے نا؟
لیکن ٹہریے، پاکستان پر سالہاسال سے باریاں لگانے والی حکومتوں کے ووٹروں کا دل اس پر مکمل طور پر مطمئن ہے۔۔۔
یقین نہ آئے تو ان سے خود پوچھ لیجیے۔ آپ کبھی بھی انھیں اس "عزت افزائی" پر کڑھتے یا شکایت کرتے نہیں دیکھیں گے۔
وجہ کیا ہے؟
وہی جو بار بار بیان کی ہے۔ "عزت نفس" اس ووٹر کا سرے سے مسئلہ ہے ہی نہیں۔
ملک کا حاکمران بیرون ملک جائیدادیں بنائے، کاروبار باہر پھیلائے یا تہوار ملک سے باہر منائے، یہ بھارتی کا، برطانوی کا، امریکی کا، جرمن کا اور شاید آپکا تو مسئلہ ہوسکتا ہے، اس ووٹر کا نہیں۔
اس ووٹر کو تھانے کا ایس ایچ او ذلیل کرے، جج اسکے کیس کو لٹکائے رکھیں، وکیل اس کو سبز باغ دکھا دکھا کر چونا لگائے یا سرکاری دفاتر میں اس کی عزت کو فٹبال بناکر لاتیں رسید کی جائیں، یہ اف تک نہیں کرے گا۔
عزت نفس اسکا مسئلہ ہے ہی نہیں۔۔۔
یہ ووٹر بظاہر کتنا تعلیم یافتہ ہو، کسی بڑی یونیورسٹی میں پروفیسر ہو، اعلیٰ سرکاری عہدیدار ہو یا کوئی صحافی، شعوری سطح پر "لاشعوری" طور پر یہ تیسرے درجے میں پھنسا ہوا ہے۔
آپ نے اسے شعور دینا ہے۔ اس کی سوئی ہوئی عزت نفس کو بھرپور طریقے سے جگانا ہے۔
یہ سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس کی ووٹ کی پرچی کو بے توقیر کیا ہے۔ اس نے ایسا خود سے نہیں سوچ لیا، اسے یہ سکھایا گیا ہے۔ بنا سکھائے یہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ کسی غیرت مند انسان کو آپ چاہیں تھپڑ رسید کریں یا لاتیں ماریے، وہ دونوں صورتوں میں شدید ردعمل کا مظاہرہ کرے گا۔ اس ووٹر کے ردعمل پر غور کیجیے۔ اسکو اسٹیبلشمنٹ کا تھپڑ تو زور سے پڑتا ہے لیکن سیاستدانوں کی لاتیں یہ انتہائی خوشی اور رغبت سے کھاتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا تھپڑ بھی اسے تب یاد آتا ہے جب سیاستدان کرپشن میں پھنسنے کے بعد چیخیں مارے۔ یاد کیجیے "امن" کے دن۔ اس وقت تمام دانشور "محب وطن" اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی تھے۔ اس زمانے میں قانون کو نہ ماننا ملک کو جنگل بنادینے کے مترادف تھا۔ آرمی چیف کا قومی الیکشن میں "کردار" باعث تحسین تھا۔
وجہ؟
عزت نفس مسئلہ قطعی کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔
ہمارا مؤقف کیا ہے؟
عمران خان نے گر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولا ہو، لیکن پھر بھی ہم اسٹیبلشمنٹ کے کالے کرتوتوں سے بخوبی واقف بھی ہیں اور اپنی آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات پر ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے افسوسناک کردار پر دل کھول کر بولا تھا۔ عافیہ صدیقی کا معاملہ ہو یا بارہ مئی کو بزدل کمانڈو کی کراچی میں خونریزی، یہ تمام واقعات پر ہم مشرف جیسے بدکردار جرنیل پر شدید لعن طعن کرتے رہے ہیں۔
یہ سب کہنے و بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی شرپسند اس طویل گفتگو کو ہوشیاری سے بوٹ پالشی کی طرف نہ لے جانے پائے۔
ہمیں عزت چاہئیے۔ اللّٰه نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے تو اس درجے تک پہنچنے کی ہم دل سے خواہش بھی رکھتے ہیں۔ گرین پاسپورٹ کی بے توقیری ہمارے کلیجے کو بری طرح چھلنی کرتی ہے۔
اپنے حکمرانوں کو بیرون ملک جائیدادیں بناتے دیکھ کر آپ مطمئن رہتے ہونگے لیکن ہمارے سر اقوام عالم و اپنے پڑوسیوں کے سامنے شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ہمارے اور آپکے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچنے والے جب ایک دھیلے کا کام نہیں کرتے تو آپکی نظروں سے نہ گرتی ہو لیکن ہماری نظروں میں یہ پارلیمنٹ بے توقیر ہوجاتی ہے۔
پوری قوم کے پیسوں سے چلنے والے پی ٹی وی کو جب ایک سیاسی جماعت کا پروپگینڈا چینل بنادیا جاتا ہے تو سویلین بالادستی، یعنی عوام کو "عزت" دو کا نعرہ سسکتا ہوا دم توڑنے لگتا ہے۔
بارہ مئی، بلدیہ و ماڈل ٹاؤن میں جب معصوم لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے تو ہماری عزت نفس کا خون ہوجاتا ہے۔ ہمارے دلوں میں بلا امتیاز مشرف، الطاف حسین، زرداری و نواز شریف کے خلاف نفرت کے لاوے پھٹتے ہیں۔
ہمارا اور آپکا فرق یہ ہے کہ آپ صرف راؤ انوار سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم راؤ انوار، عابد باکسر سمیت ہر اس قاتل س نفرت کرتے ہیں جس نے انسان سے زندہ رہنے کا حق چھینا چاہے سانحہ بارہ مئی کا زمہ دار مشرف ہو یا ماڈل ٹاؤن کے قاتل شریف برادران ہوں!
خدارا ہمیں بوٹ پالیشیا کہہ کر ہمارے بنیادی انسانی حقوق کا بے دردی سے استحصال نہ کیجیے۔ آپ اسٹیبلشمنٹ سےتو زبردستی عزت کروانا چاہتے ہیں لیکن سیاستدانوں کے ہاتھوں ہر طرح کے "گینگ ریپ" پر انتہائی رضا و رغبت سے راضی ہیں۔ جناب یقین جانیے، ہمارا کل اثاثہ ہماری عزت نفس ہے۔ مرتے دم تک ہم اپنے اس بنیادی حق سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔
آپکا یہ مسئلہ بے شک نہ ہو لیکن انسان ہونے کے ناطے، اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے عزت نفس ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔۔۔
آئیے، ہم سب مل کر اس درجے میں پہنچنے کی کوشش کریں جو اللّٰه تعالیٰ نے ہم انسانوں کو عنایت کی ہے۔ میں دعوت دیتا ہوں کہ ہماری عزت نفس کو چاہے بدکردار جرنیلوں نے بیچا ہو یا بدقماش سیاستدانوں نے، ہم سب مل کر، ایک قوم ہوکر، سیاسی وابستگیوں سے بلند ہوکر ایسے تمام مجرموں کے خلاف آواز بلند کریں!
کیونکہ۔۔۔
عزت صرف میرا نہیں، آپکا بھی حق ہے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔