آج سے تین دن پہلے کرونا کی وباء پھیلنے کی روک تھام کے لئے وزیراعظم کے اعلان سے پورا شہر آسیب زدہ سا لگ رہا تھا
تمام بازار،شاپنگ مالز،سنیماگھر ،ہوٹل ،پارک ، اسکول کالج سب بند۔سڑکوں پر چنگھاڑتی گاڑیاں نہ لوگوں کا جم غفیر ۔نوجوان لڑکے لڑکیوں کی وہ ٹولیاں جو دنیاو مافیا سے بیخبراپنی ہی خرمستیوں میں رہتے ندارد تھے۔حد نگاہ تک ایک مہیب خاموشی ایک ہو کا سا عالم
ہر شخص کرونا جرثومے کے ڈائناسور سے ایسے خائف تھاجیسے اگلے لمحہ وہی لقمہء اجل بنےگا۔پوری انسانیت ڈر سے اپنے اپنے گھروں میں محصور تھی
اگر کچھ تھا تو کالونی کے باہر پیڑوں پر چڑیوں کی مختلف آوازوں کی چہچہاہٹ
اسکے دل پر عجیب اضطرابی کیفیت تھی وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنے لگا اسکی نگاہیں سامنے پیڑ پر بیٹھی چڑیوں پر مرکوز ہو گئیں اس کو لگا چڑیاں آپس میں بات کر رہی ہیں
"ارے کیا ہوگیا ؟ان انسانوں کو کہاں چلے گئے ؟سب طرف قبرستان کی سی خاموشی"
"ارے ہوگا کیا؟یہ انسان سینکڑوں برس سے اپنی دل بستگی کے لئے پرندوں کو قید کرتا رہا۔آج اس مالک کائنات نےاس کو گھروں میں قید کر دیا"
اسکے دماغ پر چڑیوں کی چہچہاہٹ ہتھوڑے کی مانند چوٹ لگا رہی تھی چڑیاں اس کا مذاق اڑا رہی تھیں