لاک ڈاؤن کو آج پانچواں دن تھا۔
اس نے سوچا اس ماہ مزدوروں اور ملازموں کی تنخواہ جلدی دے دی جائے تاکہ ان کو اور ان کے خاندان والوں کو لاک ڈاؤن میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس کی فیکٹری اور آفیس میں ڈھائی سو سے زیادہ افراد ملازم تھے
اس نے آفس کے ایک دو املازم جو ملازمین کی تنخواہ کا نظم رکھتے تھے انہیں آفس میں آنے کے لیے کہا
اور اپنی کار لے کر آفس کی چل دیا ۔
ملازمین کی تنخوا ہ چیک پر سائن کرکے آج ہی چیک بینک میں جمع کردیا جائے۔
چوراہے پر پولیس نے اسے روک لیا اور کر سے اترنے کے لیے کہا۔
” کہاں جا رہے ہو? “
ایک وردی والے نے کڑک کر پوچھا
” آفس “
اس نے کہا ابھی وہ کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک چاروں پولیس والے کے ڈنڈے اس پر برسنے لگے
” نالائق کمینے حرا می پتا نہیں وزیراعظم نے ملک میں لاک ڈاؤن لگا دیا ہے اور تو آفس جا رہا ہے “
تھوڑی دیر وہ ڈنڈوں کی مار سہتا رہا اور پھر چکرا کر گر گیا
جب اسے ہوش میں ساراتوو ہسپتال میں تھا اس کے دونوں ہاتھوں اور پیروں پر پلاسٹر لگا ہوا تھا
وہ ہے بسی اس ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جس سے اُسے مزدوروں کی تنخواہ کے چیک پر دستخط کرنی تھی۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...