ممبئی جیسے وسیع و عریض شہر میں آمد ورفت کے ذرائع تو بہت سے ہیں لیکن لوکل ٹرین ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔سارے ذرائع آمد ورفت ایک پلڑے میں اور لوکل ٹرین کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو لوکل ٹرین کا پلڑا ہی جھکے گا ۔
ہندوستان بڑا عجیب ملک ہے ۔یہاں کی ہر چیز نرالی ہے ۔کچھ بھارتیہ سمپتی مخصوص رنگوں سے رنگی ہے ۔۔۔گلی محلّے میں پوسٹ بکس لال رنگ کے ہی دیکھتے آئے ہیں اور ڈاکیے کی خاکی وردی ۔۔جو ٹیلیگرام لاتے وقت خوف طاری کردیتا اور منی آرڈر کے موقع پر خوشی و انبساط کا ماحول قائم کر دیتا ۔۔۔پتا نہیں کیوں ٹیلیگرام کو پروانہ اجل کیوں سمجھا جاتا ۔۔۔جبکہ وہ مبارکاں کے پیغام بھی لاتا ۔۔۔خیر ،۔۔اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسیں بھی عروسی جوڑے میں سڑکوں پر دندناتی ۔۔جسے کچھ کج فہم لال ڈبہ بھی کہتے ۔۔ٹرینوں کا بھی وہی حال خربوزہ دیکھ خربوزے نے رنگ بدلا ۔۔مگر اب ورثے سے بغاوت ہو چلی ہے ۔۔۔کچھ پوسٹ بکس کو ہری ہری سوجھی تو تو بسوں کو بھی چونا پوتا گیا ۔۔ٹرینوں نے بھی زمانے کے ساتھ رنگ بدلے ۔۔مگر صاحب اب بھی پتا نہیں کیوں ڈاکیہ کی خاکی وردی سے انسیت ٹپکتی ہے تو سنتری کی خاکی سے ہول آتا ہے !!۔۔خیر بات چل رہی تھی ممبئی کی ،ممبئی میں مختلف مقامات کے نام عجیب وغریب ہیں ۔۔نام تو ہے بوری بندر۔۔لیکن نہ بوری ہے نہ بندر۔۔نام ہے دھوبی تالاب مگر دھوبی اور تالاب دونوں غائب ۔۔۔گلیوں کے نام عجیب ،محلوں کے نام عجیب ،چور بازار اور نل بازار سن کر آپ کے ذہن میں کیا خیال آئے گا ؟۔۔چٹوری گلی سے آپ کیا مراد لیں گے ؟۔۔۔خیال رہے کاندیولی میں دور دور تک پیاز نظر نہیں آئے گی نہ ہی بوریولی میں بوری !!!
خیر ایسی ہی عجیب و غریب ہے ممبئی کی لوکل ٹرین ۔۔لوکل میں سفر کرنے کے لیے ٹکٹ کی لمبی قطار میں آپ کو کھڑے رہنا ہوگا ۔۔۔ویسے آپ بغیر ٹکٹ بھی سفر کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے مطلوبہ اسٹیشن کے چور نکاسی کے راستے آپ کو معلوم ہونے چاہیے ورنہ دھر لیے جاؤگے ۔۔طویل قطار میں کھڑے ہو کر آپ کا نمبر آنے پر کاؤنٹر بند ہو جائے تو اس میں بکنگ کلرک کو کیا قصور ؟۔۔آپ نئے سرے سے دوسری قطار میں کھڑے ہو جائیے ۔۔۔جہاں آپ قدم قدم پر صبر کے امتحان دیتے آئے ہیں ۔۔۔ایک امتحان اور صحیح ۔۔صبر کے گھونٹ پی جائیے ۔۔آتم نربھر جو بننا ہے آپ کو ۔۔طویل انتظار کے بعد آپ کو گویا سفر کا پروانہ مل گیا ۔۔پلیٹ فارم پر آئیے ۔۔پلیٹ فارموں کے بھی نمبر ہوتے ہیں ۔۔آپ کی صحیح پلیٹ فارم کا انتخاب کرنا ہے ۔۔۔انڈیکیٹر پر نظریں دوڑائیے۔۔وہ اگر بند ہے تو کوئی بات نہیں ۔۔بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔پلیٹ فارم کے ایک گوشے میں ٹرین کی آمد کی انتظار ی گھڑیاں گنتے رہیے جو آپ معشوق کے انتظار میں بہت گن چکے ہیں ۔۔اس تجربے کا فائدہ یہاں اٹھائیے ۔۔اور اگر آپ نے عشق نہیں کیا ۔۔انتظار نہیں کیا ۔۔تو پھر آپ نے زندگی میں کیا کیا !!!۔۔کم از کم ممبئی میں رہنے کے لیے یہ لازم و ملزوم ہے !!!۔۔اسی دوران خاکروب آئے تو اس سے بچیے۔۔ورنہ آپ کے منہ میں خاک۔۔خاکم بدہن ہی نہیں خاک آلود کردے گا ۔۔پان کی پچکاری ،بیڑی سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑے جابجا بکھرے ملیں گے ۔انتظار کی گھڑیاں کٹھن گزرے تو ۔۔سر کھجائے۔۔سیٹی بجائیے ۔ٹانگیں ہلائیے۔۔کوئی روک ٹوک نہیں ۔۔خیر سے پڑھے لکھے ہیں تو اخبار بینی کیجئے ۔۔تھوڑی دیر بعد اعلان ہوگا کہ ۔۔۔ٹرین آدھا گھنٹہ دیری سے چل رہی ہے ۔۔پھر فوراً دلاسے کے لیے مترنم الفاظ گونجتے ہیں ۔۔آپ کی اسیودھا کے لیے ہمیں کھید ہے !۔۔چلو کوئی تو ہے ہمارا غمگسار ۔۔۔یہ غنیمت کہ ٹرین لیٹ سہی مگر اسی پلیٹ فارم پر آرہی ہے جس پر آپ اس معشوق کے منتظر ہیں ۔۔ورنہ کبھی کبھی یہ ہرجائی کسی دوسرے پلیٹ فارم کا بھی رخ کر لیتی ہے !!!
خیر صاحب !۔۔ٹرین آنے سے پہلے پلیٹ فارم پر حرکت شروع ہوجاتی ہے ۔ٹرین ناگن کی طرح رینگتی ہوئی آتی ہے ۔کچھ جیالے کھڑکیوں اور دروازوں پر لٹکے نظر آئیں گے ۔۔۔ان کے والدین نے شاید بیمہ کیا ہوتا ہے ۔۔کچھ ٹرین کی چھت پر ایسے بیٹھے نظر آئیں گے جیسے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں ۔۔تنگ کمروں میں رہنے والے جن کا ان کھولیوں میں دم گھٹتا ہے ۔۔یہاں چھت پر ہوا خوری کے مزے لیتے ہیں ۔۔ظاہر ہے وہ اوٹی اور مہابلیشور تو جا نہیں سکتے ۔۔
ٹرین میں سوار ہونا ہے تو اپنی تمامتر اخلاقیات کو جیب میں رکھ لیجیے ۔۔کسی کو دھکا لگتا ہے تو کوئی بات نہیں ۔۔۔کسی کے پیر کو آپ کچل دیتے ہیں تو یہ روز مرہ کا معمول ہے جس کے ممبئی واسی عادی ہو چکے ہیں ۔۔۔ساری بولنے کی نہ آپ کو ضرورت ہے نہ اسے سننے کی کسی کو فرصت ۔۔میکانکی شہر میں !!آپ چھیل چھلاکر۔۔آگے بڑھ گئے تو گویا آپ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔مگر یہ کامیابی نامکمل ہے ۔۔ابھی آپ نے آدھی بازی جیتی ہے ۔اب دوسرا مرحلہ سیٹ حاصل کرنے کا ہے ۔کسی شخص کے اٹھنے پر کسی اور کو موقع دیےبغیر آپ فوراً بیٹھ جائیے ورنہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔۔۔چوتھی سیٹ بھی مل گئی تو غنیمت کہ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے ۔۔اپنے اطراف میں نظریں دوڑائیے۔۔کوئی سیٹی بجا رہا ہے تو کوئی تان سین کو مات دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔یہاں بہت سے باتھ روم سنگر مل جائیں گے ۔۔وقت گزاری کے لیے اشتہارات کو چاٹ جائیے ۔۔باباؤں کے کرشماتی اشتہارات پڑھیے مگر ان کے چکروں میں نہ پڑیے۔۔۔اس سے دل اوب جائے تو موبائل سنبھالیے۔۔چاہے تو مونگ پھلیاں پھانک سکتے ہیں اور بے تکلف چھلکے فرش پر پھینک سکتے ہیں ۔۔سنترے سے دل بہلا کر اس کے چھلکے بے پروا ہو کر ادھر ادھر پھینک سکتے ہیں ۔۔بس اپنے ہاتھ پاؤں نہیں پسار سکتے !!!
ہاں!۔۔دوپہر کے اوقات میں ہاتھ پاؤں پسارنے کی گنجائش نکل آتی ہے ۔۔ان اوقات میں مختلف قسم کے بھک منگوں کی یلغار ہوتی ہے ۔۔قدرتی یا مصنوعی دونوں قسم کے مفلوجوں کی ۔۔گویے قسم کے بھکاریوں کی جن کے گیت،
غریبوں کی سنو وہ تمھاری سنے گا
تم ایک پیسہ دوگے وہ دس لاکھ دے گا
کو سن کر دس لاکھ کے لالچ میں بہت کچھ دے چکا ہوں ۔۔مگر پھوٹی کوڑی ہاتھ نہ آئی لہٰذا باز آیا ۔۔۔ایک بات اور ۔۔لوکل ٹرین ایک زبردست متحرک مارکیٹ ہے جو تینوں لائنوں پر منافع بخش کاروبار ہے کہ اس کی اشیاء ۔۔ڈیپارمینٹل اسٹور سے کم۔۔فٹ پاتھ پر اور اس سے بھی کم قیمت پر ٹرینوں میں دستیاب ہوتی ہیں ۔۔کیونکہ نہ انہیں دکان کا کرایہ دینا پڑتا ہے نہ لائٹ ،ٹیلیفون بل اور نہ لازمی و جبری ٹیکس ۔۔۔ناقص اشیاء کی واپسی کا راستہ بھی بند کہ بیچنے والا آج یہاں تو کل کہاں ہوگا اسے خود اپنی خبر نہیں ۔۔۔آپ کہاں جائیں گے تلاشنے !!!
خیر صاحب !۔۔اپنی منزل آنے سے پہلے تیار ہوجائیے۔خیال رہے جدھر پلیٹ فارم آنے والا ہے اسی دروازے کا رخ کیجیے ورنہ آپ کی خیر نہیں ۔۔وہی اخلاقیات جو سوار ہونے کے وقت آپ اپنی جیب میں رکھ چکے تھے ۔۔اسے وہیں رہنے دیجیے ۔۔ہاں اپنی جیب کی بھی حفاظت کیجیے ورنہ صفائی کے آپ کو سو نمبر دینے ہوں گے ۔۔!!!۔پلیٹ فارم آنے پر قومی دھارے میں شامل ہو جائیے ۔۔۔کون کہتا ہے ملک میں یکجہتی نہیں ؟؟۔۔تمام مذاہب کے لوگ ایک دھارے میں شامل ہیں ۔۔آپ پلیٹ فارم پر بغیر توانائی خرچ کیے نظر آئیں گے ۔۔آپ بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی منزل پر آپہنچے ۔۔۔بس کچھ گہرے سانس لے کر طبیعت بحال کیجیے !!!
یہی ہے ہماری لوکل ٹرین ۔۔بھارتیہ جنتا کی سمپتی۔۔اس سے فائدہ اٹھانا ہر ممبئی نواسی کا فرض اولیں ہے !!!