لوکل دولہا‘ امپورٹڈ دلہن
آپ نے کبھی ’’چمڑیس پور‘‘ کا نام سنا ہے؟ نہیں سنا‘ حالانکہ یہ تحصیل ’’لدھڑآباد‘‘ کا بڑا مشہور گاؤں ہے۔اب آپ کہیں گے کہ آپ ’’لدھڑ آباد‘‘ کا نام بھی پہلی دفعہ سن رہے ہیں۔ آپس کی بات ہے میں نے بھی یہ نام پہلی دفعہ سنے ہیں لیکن حیران ہوں کہ یہاں ایسی کیا خاصیت ہے جو آسٹریلیا کی خاتون کو پسند آگئی۔ پہلے پورا واقعہ سن لیجئے۔ میں جس سروس اسٹیشن سے گاڑی واش کرواتا ہوں وہاں کا ایک لڑکا طفیل مجھے کافی عرصہ سے جانتا ہے۔ بمشکل پانچ جماتیں پڑھا ہواہے ‘ صبح کے وقت سروس اسٹیشن پر گاڑیاں دھوتا ہے اور شام کو اپنے جیسے ہی ایک ڈاکٹر کے پاس کمپاؤڈری کرتاہے۔ دو دن پہلے اس نے مجھے بڑے اہتمام سے ایک شادی کارڈ تھمایا اورکہنے لگا’’سرجی! میری شادی ہے ، آپ نے ضرور آنا ہے۔‘‘ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر شادی کارڈ کھولا اور مجھے دو جھٹکے لگے۔ پہلا جھٹکا تو یہ لگا کہ ساری عبارت روایتی کارڈ والی تھی تاہم ولیمہ کے لیے جگہ کا نام ’چمڑیس پور‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے حدود اربعہ پوچھا تو پتا چلا کہ یہ تحصیل لدھڑ آباد کا گاؤں ہے اوراتنا مشہور ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ اپنے گاؤں کے نام سے واقف ہے۔ دوسرا جھٹکا یہ لگا کہ دلہن کا نام ’’جینی فر‘‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے کنپٹی کھجاتے ہوئے طفیل سے پوچھا’’دلہن غیر مسلم ہے؟‘‘۔ طفیل کے دانت نکل آئے’’ہاں جی! لیکن میری خاطر اس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور آسٹریلیا سے آرہی ہے‘‘۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ آسٹریلیا کی جینی فر‘ چمڑیس پور کے طفیل پر عاشق ہوگئی ؟لیکن کیسے؟۔۔۔خداگواہ ہے حسد کی شدید ترین لہر میرے اندر ابھری لیکن میں نے بمشکل اسے دبا لیا اور اتنا ہی کہا’ مبارک ہو!‘
پتا چلا کہ طفیل فیس بک جوائن کر چکا ہے اور ’جینی فر‘ سے اُس کا رابطہ فیس بک پر ہوا تھا‘ اس کے بعد آپس میں گپ شپ شروع ہوئی اور دونوں طرف عشق ہوگیا۔میں نے طفیل سے پوچھا کہ گپ شپ پنجابی میں ہوتی رہی؟ قہقہہ لگا کر بولا’’نہیں سرجی! اُسے تو انگریزی کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں‘‘۔میں نے دانت پیسے’’تو پھر وہ تمہاری پنجابی اور تم اُس کی انگریزی کیسے سمجھ گئے؟‘‘۔ طفیل نے ایسا جواب دیا کہ میں عش عش کرکے غش کھاگیا۔کہنے لگا’’سر جی!میں اُردو میں چھوٹا سا جملہ لکھ کر ٹائپ کرتا تھا اور گوگل ٹرانسلیشن سے ترجمہ کروا کے اسے بھیج دیتا تھا‘ جواب میں جو کچھ آتا تھا وہ بھی میں اسی طرح اُردو میں ٹرانسلیٹ کروا لیتا تھا اور اتنی سمجھ آجاتی تھی کہ ’جینی فر‘ کیا کہہ رہے۔ بس اسی طرح ہم دونوں کو پیار ہوگیا۔’جینی فر‘ ایک بہت بڑے فیکٹری مالک کی بیٹی ہے‘ میں نے اسے متاثر کرنے کے لیے بتایا کہ میں بھی ’چمڑیس پور‘ کا بہت بڑا جاگیردار ہوں اوراس کے علاوہ میرا امپورٹ ایکسپورٹ کا بہت بڑا بزنس ہے۔‘‘
طفیل کی بات سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ ’دونوں طرف تھی بکواس برابر لگی ہوئی‘‘۔ طفیل نے بتایا کہ ’’ پھر میں نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو اس نے فوراً حامی بھر لی۔میں نے اسے فیس بک پر ہی مشرف بہ اسلام کیا اور اب وہ آسٹریلیا سے مجھے لینے آرہی ہے۔‘‘ میرے کان کھڑے ہوگئے’’لینے آرہی ہے؟ کیا مطلب۔۔۔کیا تم آسٹریلیا جاؤ گے؟‘‘۔ طفیل کا سینہ پھول گیا’’ہاں جی سر! اس نے سارا انتظام کر لیا ہے، شادی کے بعد وہ مجھے آسٹریلیا لے جائے گی اور باقی کی زندگی میں آسٹریلیا ہی میں گذاروں گا۔‘‘طفیل کی بات سن کر بے اختیار دل میں ایک کسک سی پیدا ہوئی کہ کاش پاکستان میں 17 سال پہلے فیس بک آگئی ہوتی۔۔۔لیکن خیر۔۔۔ہونی کو کون ٹال سکتا ہے!!
آئے دن یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ باہرکے ملک کی کوئی میم پاکستانی نوجوان پر نہ صرف عاشق ہوگئی ہے بلکہ شادی رچانے پاکستان بھی آرہی ہے۔ کبھی ان لوگوں کو دیکھئے گاجن پر یہ مغربی عورتیں عاشق ہوتی ہیں‘ ان میں سے اکثر کا تعلق عجیب و غریب ناموں والے علاقوں سے ہوتاہے‘ یہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے‘ شکل و صورت بھی کوئی خاص نہیں ہوتی ‘ پھر آخر اِن کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہوتی ہے کہ سات سمندر پار کی عورتیں ان پر دل و جان سے فدا ہوجاتی ہیں۔اس کا جواب مجھے طفیل کی ہونے والی بیگم کی تصویر دیکھ کر مل گیا۔ طفیل کی عمر 27 سال ہے اور اس کی بیگم اللہ جھوٹ نہ بلوائے میک اپ کے باوجود 55 سال کی لگ رہی ہے۔
یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جو چھ سات درجن بوائے فرینڈ اور ڈیڑھ دو درجن شوہر بھگتا چکی ہوتی ہیں۔ یہ آسٹریلیا کے ’چمڑیس پور‘ کی رہائشی ہوتی ہیں اور طفیل کی طرح ہی لمبی لمبی چھوڑتی ہیں۔ان کی اکثریت شادی اس لیے بھی کرنا چاہتی ہے کیونکہ شادی کے علاوہ یہ سب کچھ کرچکی ہوتی ہیں۔پاکستانی ’طفیلیوں‘ کو یہ اس لیے فوراً پسند آجاتی ہیں کیونکہ ملک سے باہر جانے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آجاتاہے۔لیکن عموماً یہ شادیاں ناکام رہتی ہیں کیونکہ باہر کی ’دوشیزائیں‘ اکثر جب پاکستان آتی ہیں تو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سعادت مند بیوی کی حیثیت سے یہیں سیٹل ہونے کے ارادے سے آتی ہیں اور یہی بات سارے پلان کا بیڑا غرق کر دیتی ہے۔
کئی ایسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جو کسی ’جینی فر‘ سے شادی کے بعد ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر ساری زندگی سات سمندر پار ’چمڑیس پور‘ میں سسکتے ہوئے زندگی گذارتے ہیں اور زوجہ محترمہ سے بڑی حسرت کے ساتھ پوچھتے ہیں’’یہ آسٹریلیا کا کون سا علاقہ ہے جہاں ابھی تک تانگے چلتے ہیں؟‘‘ ایسی شادیاں اس لیے بھی زیادہ دیر نہیں چلتیں کیونکہ بیگمات جلدی وفات نہیں پاتیں۔عموماً پاکستانی نوجوان اس لیے بھی باہر کے ملک کی ’اماں‘ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں کہ یہ جلدی مر جائے گی لیکن ہوتا بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کئی نوجوان لڑکیاں پیسوں کے لالچ میں کسی قریب المرگ بابے سے شادی کر لیتی ہیں تاہم بعد میں پتا چلتا ہے کہ شادی کی خوشی میں بابے کی ساری بیماری رفوچکر ہوگئی ہے اور اب وہ بالکل یوں ہوگیا ہے ’منڈا جیویں پنجی سال دا‘۔
آپ نے شائد کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی ایسے پاکستانی پر کوئی غیر ملکی’لڑکی‘ بھی عاشق ہوگئی ہو‘ ان کی منکوحہ بننے کے لیے وہی تیار ہوتی ہے جسے چھ بچے پیدا کرنے کے بعد یاد آتاہے کہ اب کوئی اچھا سا شوہر بھی ہونا چاہیے۔ہمارے ’’طفیلییوں‘‘ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ جب یہ کسی ’جینی فر‘ سے شادی رچاتے ہیں تو ساتھ ہی اپنی منگیتر کو بھی تسلی دے دیتے ہیں کہ’ ’شکیلہ! میں اک دن لوٹ کے آؤں گا‘‘ ۔۔۔اکثر پاکستانی نیشنیلٹی کے چکر میں باہر کے ممالک میں ’پیپرمیرج‘ کرلیتے ہیں ‘ صالح پاکستانیوں کے لیے یہ ایک محفوظ شادی کہلاتی ہے جس کے بعد انہیں نیشنیلٹی بھی مل جاتی ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ۔میرے ایک دوست عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم تھے‘ انہیں وہاں کی نیشنیلٹی نہیں مل رہی تھی،موصوف انتہائی شریف النفس اور باکردار تھے ۔ ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ وہ کسی عفیفہ سے پیپر میرج کرلیں اور جونہی نیشنیلٹی ملے‘ اسے چلتا کریں۔ موصوف چھٹیوں میں پاکستان تشریف لائے تو بیگم سے اجازت مانگی کہ کیا وہ کسی گوری سے ’پیپر میرج ‘ کرلیں؟ خاتون نے چونک کر پوچھا کہ پیپر میرج کیا ہوتی ہے؟ فرمایا ‘ ایسی شادی جو صرف کاغذوں میں درج ہوتی ہے۔ خاتون اطمینان سے سرہلا کر بولیں’اچھا اچھا، جیسے ہماری ہے۔۔۔‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“