لیونگ دی لیفٹ بی ہائنڈ کے چھپنے تک میں جمال نقوی صاحب کے بارے کچھ نہ جانتا تھا۔ یہ 70 کی دہائی کا نصف تھا، جب میرا کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تعارف ہوا۔ اس سے قبل اسکول، کالج اورپنجاب یونیورسٹی کے تعلیمی مراحل کے دوران بائیں بازو کےنظریات کے ساتھ مکمل طور پر جڑچکا تھا۔مطالعہ کا بے پایاں شوق ابتدائی عمرسے ہی لگ چکا تھا۔سیالکوٹ شہر کی بات ہے۔70 کی دہائی کا آغاز۔ سوشلسٹ ، کمیونسٹ فکرکےنوجوانوں کا ایک حلقہ بن چکا تھا۔وہاں ڈاکٹراجمل تھے جولاہور سے نئےنئے ڈینٹل سرجن کی ڈگری لے کرآئے تھے۔ میری ان کے ساتھ گہری دوستی ہوگئی۔ وہ ہم سے چند سال بڑے تھے۔ اورکمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ابھی ہمارے سیکھنے، سمجھنے اورمطالعےکے دن تھے۔ تاریخی مادیت اورجدلیاتی مادیت کی کتابوں سے متعارف ہورہے تھے۔ میں نظریاتی، علمی، فکری لحاظ سےتیزی سے ترقی کررہا تھا۔ ہمارے ہاں ایک سینئر آدمی جن کا پورا نام یاد نہیں، مہدی صاحب ہوتے تھے، جولاہور میں انکم ٹیکس وکیل کی پریکٹس کرتے تھے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی (روس نواز) کی پنجاب کے سینئر رکن تھے۔ وہ سیالکوٹ ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ مجھے پارٹی کی براہ راست تنظیم کا پتا نہ تھا۔ وہ سرخ پرچم ساتھ لاتے تھے، اورہمیں پوشیدہ سے انداز سے دے جاتے تھے۔اس زمانے میں مجھے بس اتنا پتا تھا، کہ امام نازش صاحب پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اگرچہ بعد میں اپنی عمرکے طویل عرصے تک ایک کمیونسٹ کے طورپررہا۔ لیکن پارٹی کی براہ راست تنظیم میں کبھی نہ آیا۔ حسن ناصر، نذیرعباسی، جام ساقی ، سبط حسن اوردیگرتمام ترقی پسند ادیبوں شاعروں سےزہنی اوردلی وابستگی رہی۔ جمال نقوی صاحب کے ساتھ اچانک سے غائبانہ تعلق بنتا ہے، جب ان کی زیرنظرکتاب مارکیٹ میں آتی ہے ، اور لیفٹ کے حلقوں میں ایک شورسا برپا ہوجاتا ہے۔ ایک کمیونسٹ مرتد سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل میں بھی اسی طرح کی نظریاتی تبدیلی سے گزرچکا تھا گاہے بگاہے میں کمیونزم اورمارکسزم کے فلسفہ وفکرپر اپنے تنقیدی مضامین میں اس کا اظہارکیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ سارے خطابات اورکٹرپرست کمیونسٹوں کی طرف سے ناگوار ردعمل چکھ چکا تھا۔ جس کا اب جمال نقوی صاحب کو سامنا تھا۔ جب میں نے یہ کتاب پڑھی، توبے حد متاثرہوا۔ چونکہ میں عملی اورپارٹی کی سیاست سے باہررہا تھا۔ اس لئے جب ان سب تفصیلات کا پتا چلا، کہ لوگوں پرکیسے کیسے قید و بند کے ظلم پاکستانی ریاست اورحکومتوں کی طرف سے ان معصوم لوگوں پرڈھائے گے۔ تاریک راہوں میں مرنے والوں کی تاریک کوٹھریوں میں ازیتیں سہنے کی ہوش ربا کہانیاں پڑھنے کوملی۔ اورپھرزندگی بھرکے سارے آبلہ پا سفرکے بعد پتا چلتا ہے۔۔کہ ہم محض ایک سراب کے پیچھے پاگل بن کردوڑے چلے جارہے تھے۔ جسے سائنس سمجھتے تھے ، وہ سائنس نہ تھی۔محض ایک عقیدہ تھا۔اندھا عقیدہ۔۔ایک اپنی خوش کن تمنا۔ حیرت ہے جسے دنیا میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔مارکس اوراینگلز پرکوئی گلہ نہیں۔ انسان اورانسانی معاشرے کو سمجھنے کی ایک پرخلوص کوشش تھی۔ ان کی دردمندی اورنیک نیتی کوتو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ مفکرتھے۔ انہوں نے جی جان کر انسانی بھلائی کے ایک نظرئے کو ڈیزائن کیا۔ انہوں نے حتی الوسع اس کی عقلی، تاریخی، سائنسی اورفلسفیانہ بنیادیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اپنی خیال آرائیوں میں مستقبل بینی بھی کردی۔ لیکن اس میں سائنس کم تھی، جذبات ،خواہشات اورجوش کا دخل زیادہ تھا۔ انسان کی نفسیات پربھی خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی۔ اور دوسرے آمریت کے تصورکوگلوری فائی کرکے یہ نہ دیکھا، کہ انسانی معاشروں کو بدلنے کا جب سخت ترین آمریت کواعلی ترین ہتھیار بنائیں گے، تو ایک طرف کرپشن، جھوٹ، منافقت ، ریاکاری ، چاپلوسی کے اپنی طرح کے رستے کھل جائیںگے، معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی تخلیقی قوتوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سرمایہ داری کے پولیٹکل جمہوری نظام کو زبردستی آمریت کے کھاتے میں ڈال کرپرولتاری آمریت کا نظریہ گھڑلیا گیا۔ مطلب ڈنڈے کے زورپر اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول کےلئے شارٹ کٹ لینا تھا۔سوشلزم کے نتیجے میں جو معاشرہ اورریاست تشکیل ہوئی، وہ اپنی فطرت میں نہائت جابرانہ تھی۔اوردوسرے معاشی ترقی کی اس رفتارکو بھی نہ چھو سکی، جو مقابلے کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت والے ممالک تھے۔ شروع کے جوش جنوں کے دور میں اوراجتماعی محنت کی وجہ شروع کے جوش جنوں کے دور میں اوراجتماعی محنت کی وجہ سے ترقی کی نمو میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یہ چونکہ شعوری دھکا تھا۔ اشتراکی نظام کی اپنی فطری قوانین کا نتیجہ نہ تھا۔ اشتراکی نظام نے اس کی وجہ سے بھی مارکھائی، کہ یہ ایک آئیڈیالوجی تھی۔ آپ ایک خیالی فلسفہ وفکرکے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وقت کےساتھ بدل بھی نہیں
سکتے۔ آئیڈیالوجی خوش کن نعروں پرمبنی ہوتی ہے۔ چنانچہ سامنے کی مادی اورعملی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی بجائے، آئیڈیالوجی کی حفاظت مقصد بن جاتا ہے۔چنانچہ حالات مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ جب کہ آپ Denial Mode میں رہتے ہیں۔نظریہ غلط کیسے ہوسکتا ہے۔لحاظہ کمیونسٹ آج بھی عقیدہ پرست مسلمانوں کی طرح یہی دعوی کرتے ہیں۔ اسلام میں کوئی خرابی نہیں،مسلمانوں میں ہے۔ نافذ ہی صحیح طریقے سے نہ کیا گیا۔ سوشلزم نافذ کرنے والے غلط تھے،نظریہ بالکل صحیح ہے۔ صحیح نافذ کرنے والے آسمان سے نازل ہونگے۔80 سال تیس چالیس ملکوں میں نافذکرنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ ایک ہی نکلا۔کہ اس کوچھوڑکردوسری راہ لی جائے۔ اس میں کسی طویل بحث کی اس لئے ضرورت نہیں رہتی کہ 80 سال کے عمل کے بعد ساری دنیا نے اس نظام کو اپنے ہی عوام کے ہاتھوں گرتے دیکھا۔ اورپھروہ دنیا میں کہیں نہ سنبھل سکا۔ اب وہ ایک یاد رفتگاں ہے۔ جو لوگ اس کے ساتھ ابھی تک چمٹےہوئے ہیں۔اوراسی طرح اندھے عقیدے کے ساتھ۔۔ان پرافسوس صرف اتنا ہے۔ کہ جمال نقوی جیسے اپنے سابقہ ساتھیوں پرانتہائی گرے ہوئے الزامات اورگھٹیا حملے کرتے ہیں۔ وہی مذہبیوں کی طرح کا رویہ ۔ جو ان کے عقیدے سے باہرہوکرسوچنے لگے۔ وہ مرتد ہے، قابل گردن زدنی ہے۔نمبر دو ہے، سازشی تھا، بک گیا سرمایہ داروں کے ہاتھوں۔ اس سے جمال نقوی کا قد توچھوٹا نہیں ہوتا۔یہ لوگ ضرورگرجاتے ہیں۔اورپھراپنے خیال کومزید تقویت ملتی ہے، کہ اگر ایمان یافتہ لوگوں کی سوچ اورفکراس طرح کی ہے، توپھرایسے نظریئے سے ہرباشعورکوہاتھ اٹھالینا چاہئے۔میں تواس نتیجے پرپہنچا ہوں، کہ جس طرح کے پیروکارہوتے ہیں۔ نظریہ بھی ویسی ہی کوالٹی کا ہوتا ہے۔ اگرنظریہ پرعمل نہیں ہوسکتا، اوردعوی کردہ نتائج نہیں دے سکتا، تو ایسے نظریئے کوتاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنا اچھا۔مارکس نے خود کہا تھا، وہ قانون، اصول، نظام باقی رہتا ہے، جس میں آنے والے وقت کی مطابقت ہوتی ہے۔ وہ اسے مزید ترقی دے سکتا ہے۔ افسوس اس کا اپنا نظام اسی کے سمجھائے تاریخی قانون کی نظرہوگیا۔ سوشلزم میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہوتی، تو وہ آج اپنی آن بان شان کے ساتھ زندہ وسلامت ہوتا۔ اب وہ مشرقی یورپ کے سابقہ سوشلسٹ ملکوں کے عجائب گھروں میں پایا جاتا ہے۔ اوروہاں بھی اس کی بھیانک اورمضحکہ شکل کو اجاگرکیا ہوا ہے۔ جدلیاتی سائنس نے ہی سوشلزم کا خاتمہ کیا۔ وہ ترقی پسندی سے ایک رجعت پسند اورعقیدہ پرست نظام بن گیا۔اندرسے وہ خالی اورکھوکھلا ہوگیا۔ کتاب میں جمال نقوی صاحب نے بھی لکھا اورمیرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے۔ کہ کہ کمیونسٹوں سے اختلاف کرنے پرجس طرح وہ ٹوٹ کرپڑتے ہیں۔ اور اپنی عقل و ہوش کھوتے ہیں۔ اس سے مزید تقویت ملتی ہے۔ کہ یہ نظریہ کس قدرنقائص کا حامل ہے۔
یہ کتاب ہراس شخص کولازمی پڑھنی چاہئے، جس کا ترقی پسندی اوربائیں بازو کی فکرسے ماضی یا حال میں کوئی تعلق ہے۔ اس میں لیفٹ کی سیاسی تاریخ بھی ہے، پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی ہے۔ اس تحریک اورنظریئے کے حامل لوگوں پرپاکستانی ریاست اورعسکری اسٹیبلش منٹ نے امریکہ کی چاکری میں ان معصوم لوگوں پرجو ظلم کے پہاڑتوڑے۔۔دل چیرجاتا ہے ان کو پڑھ کر۔۔آج کی نسل کوپاکستانی ریاست کو سمجھنے کے بھی بہت ضروری ہے اس کتاب کا مطالعہ کرنا۔ جو ابھی بھی سوشلزم کے پرانے عشق میں مبتلا ہیں۔ یا آج بھی اس کی صداقت پرایمان رکھتے ہیں، ان کے لئے یہ کتاب ضروری ہے۔ کہ بہرحال یہ اپنے وقت کےایک سچے کمیونسٹ کی داستان حیات ہے۔ آنکھیں بند کرنے سے تومعروضی صداقت تبدیل نہیں ہوجاتی۔ آخرمیں یہ کہنا چاہوں گا۔ کہ جمال نقوی صاحب کو مرتد قراردینا۔۔ نہائت گھٹیا اورکم ظرف سوچ کے لوگ ہی ایسا فتوی جاری کرسکتے ہیں۔ ہرکمیونسٹ بنیادی طورپر انسان دوست ہوتا ہے۔ انصاف پسند ہوتا ہے۔ ترقی پسند ہوتا ہے۔ اورکمیونزم کی مخصوص نظریہ حیات کوچھوڑنے کے بعد بھی وہ انسان دوست، انصاف پسندا ورترقی پسند ہی رہتا ہے۔ وہ ظالموں اوراستحصال کرنے والوں کا ساتھی نہیں بن جاتا۔۔اگروہ اس نتیجہ پرپہنچا ہے کہ ہم نے جو عملی سیاسی اورمعاشی نظام وضع کیا تھا۔ اس نے کام نہیں کیا، لیکن وہ اپنے بنیادی سوچ کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ چنانچہ جمال نقوی صاحب کا اس نظام سے ایمان تو اٹھا، لیکن وہ اس کے بعد بھی انسان دوست، سماجی انصاف، ترقی پسند ، استحصال اورکسی طرح کے ظلم کے خلاف ہی رہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"