لسانیات سے موسیقی تک ۔ دنیا کا سب سے شاندار مالیکیول
ہارورڈ یونیورسٹی میں جرمن زبان کے پروفیسر جارج زف کو کچھ عجیب طبعیت کے مالک تھے۔ جب انہوں نے کلاسیکل ناول اوڈیسی پڑھا تو اس میں سے جو معنی نکالے، وہ یہ کہ اس میں الفاظ کتنے تھے اور کتنی الفاظ کتنی بار دہرائے گئے تھے۔ اس کے بعد ہومر اور پلوٹس کے کام، چینی زبان کی عبارتیں اور دوسرے ناولوں کے ساتھ یہ کرنا شروع کیا۔ اس سے انہوں نے زف کا قانون دریافت کر لیا۔
کسی زبان میں استعمال ہونے والا سب سے زیادہ لفظ جتنی مرتبہ دہرایا جائے گا، وہ دوسرے نمبر پر استعمال ہونے والے لفظ سے تقریبا دگنا، تیسرے نمبر پر استعمال ہونے والے سے تقریبا تین گنا اور اسی طرح سوویں نمبر پر استعمال ہونے والے لفظ سے تقریبا سو گنا زیادہ مرتبہ ہو گا۔ انگریزی زبان میں سب سے زیادہ "دا" استعمال ہوتا ہے، یہ سات فیصد ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر "آف" جو اس سے نصف، تیسرے نمبر پر "اینڈ" جو اس سے ایک تہائی اور انتہائی کم استعمال ہونے والے حروف تک یہی پیٹرن چلتا ہے۔
اردو، سنسکرت، روسی، ہسپانوی، قدیم مصری ہر زبان میں یہ ایسا ہی ہے۔ یہاں تک کہ خود بنائی گئی زبانوں میں یا پھر شاپنگ کے کیٹالوگ میں بھی یہی قانون ابھر کر آتا ہے۔ یہ صرف زبانوں تک محدود نہیں، دوسری ڈسٹریبیوشن پر بھی سامنے آتا ہے، جن میں موسیقی ۔۔۔ نہہیں اس پر ابھی بعد میں۔
ڈی این اے کے الفاظ کی ڈسٹریبیوشن بھی زفین ہے۔ ڈی این اے می الفاظ میں انگریزی یا اردو کی طرف وقفہ نہیں۔ یہ قدیم زبانوں کے مشابہہ ہے۔ اس کا تجزیہ اس وقت کیا گیا جب انٹرنیٹ پر سرچ انجن آئے۔ چینی زبان میں سرچ کرنا انگریزی یا اردو سے بڑا مختلف ہے۔ چینی زبان میں مرکب الفاظ بن جاتے ہیں۔ اگر اے بی سی ڈی لکھا ہے تو سرچ انجن کو اے بی، بی سی، سی ڈی، اے بی سی، بی سی ڈی، سب کو سلائیڈنگ کھڑکی کی طرح دیکھنا ہوتا ہے۔ اس تکنینک سے جب ڈی این اے کو پڑھا گیا تو ڈی این اے زف کے قانون کے مطابق ہے۔ اس سے بننے والے پروٹین بھی اسی قانون کے مطابق ہیں۔ کامن الفاظ کی طرح کچھ جین بھی بار بار دہرائے جاتے ہیں، جبکہ کچھ شاذ ہی آتے ہیں۔ اسی طرح وقت کے ساتھ خلیے کامن پروٹین پر انحصار کرنا سیکھ گئے ہیں۔
اس سے مطلب کیا نکلتا ہے؟ نہیں، کوئی بہت گہرا نہیں۔ اس سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ ڈی این اے کسی زبان کی طرح کام کرتا ہے اور محض کسی عام زبان کی طرح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زِف نے موزارٹ، چوپن، ارونگ برلن وغیرہ کے میوزک کے سروں کی بھی فریکوئنسی نکالی۔ یہ سُر زف کے قانون کے مطابق تھے۔ بعد میں آنے والے محققین نے روزینی سے رامونس کے سُروں میں اؐواز کے والیوم، ٹمبر، دورانیے وغیرہ کی ڈسٹریبیوشن دیکھی تو وہ بھی زفین تھی۔
ڈی این اے زفین تو ہے لیکن کیا ڈی این اے کا موسیقی سے بھی کوئی تعلق ہے؟ موسیقاروں نے دماغ کے کیمیکل سیروٹونن سے ڈین این اے کے حروف لئے۔ ان سے موسیقی بنائی۔ کچھ اور موسیقاروں نے امینو ایسڈ سے جو زیادہ پیچیدہ نوٹ بنے۔ ان سے بننے والی دھنیں اتنی سریلی تھیں کہ ایک بائیولوجسٹ کا کہنا تھا کہ جینیات کو پڑھنے کے لئے یہ جوسیقی ایک نیچرل میڈیم ہے۔ انسانی سماعت ان دھنوں کو قدرتی طور پر اکٹھے ٹکڑوں کے طور پر سمجھ سکتی ہے۔
اس سے زیادہ دلچسپ تجربہ دو سائنسدانوں نے کیا، جب اس عمل کو الٹ دیا۔ چوپن کے ایک ساز کو ڈی این اے میں بدل دیا۔ اسکا سیکوئنس آر این اے پولیمریز بنانے والی جین سے بہت زیادہ قریب تھا۔ یہ پروٹین ہر قسم کے جاندار میں موجود ہے۔
پولیمریز ڈی این اے سے آر این اے بناتی ہے۔ آر این اے پیچیدہ پروٹین بناتی ہیں پروٹین خلیے بناتی ہیں۔ خلیوں سے چوپن بنے تھے۔ چوپن نے سریلی دھن بنائی تھی اور یہ چکر مکمل ہو گیا جب یہ دھن اس ڈی این اے میں تھی جو پولیمریز بناتا ہے۔
کیا یہ دریافت سب تکا ہے؟ مکمل طور پر نہیں۔ جین بس ایسے ہی نہیں بن گئیں۔ یہ دہرائے جانے والے فقروں کی صورت میں بنی تھیں۔ ایک سے دو درجن ڈی این اے کی بیسز جن کو بار بار دہرایا گیا۔ اس میں ہونے والی میوٹیشن اس طرح کام کرتی ہیں جیسا کہ موسیقار ساز چھیڑتا اور ٹیون کرتا ہے تا کہ اصل میں سے خوشگوار ویری ایشن پیدا ہو جائے۔ یعنی جینز میں موسیقی ابتدا سے ہی لکھی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان ہمیشہ سے خواہش کرتا آیا ہے کہ موسیقی فطرت کی کسی گہری یا بڑی تھیم سے لِنک کر دے۔ یونانی ماہرینِ فلکیات سے کیپلر تک سائنسدان اس موسیقی کی تلاش میں آسمان کو تکتے رہے ہیں۔ آفاقی موسیقی موجود ہے لیکن ہماری توقع سے کہیں قریب۔ یہ ہمارے ڈی این اے میں لکھی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیات اور لسانیات کا تعلق زف کے قانون سے گہرا ہے۔ جینیات کی اپنی صرف و نحو ہے۔ ہم معنی الفاظ ہیں، سابقے اور لاحقے ہیں، امینو ایسڈ سے بنے الفاظ سے بنے پروٹین کے جملے ہیں جن کو خلیے پڑھ لیتے ہیں۔ یہ صرف و نحو یہ بتاتی ہے کہ پروٹین کو کیسے فولڈ ہونا ہے اور یہ ڈی این اے کی زبان کا اہم ترین حصہ ہے۔ اور صرف ٹھیک گرائمر نہیں چاہیے۔ اس کا کوئی مطلب بھی ہونا چاہیے۔ نوم چومسکی کی مثال، “بے رنگ سبز بکریاں جوش و خروش سے سو رہی ہیں” گرائمر کے لحاظ سے بالکل ٹھیک ہے لیکن کوئی مطلب نہیں رکھتا۔ ڈین این اے کی زبان میں بھی صرف گرائمر ٹھیک ہونا کافی نہیں۔
اسی طرح ڈی این اے کی میوٹیشن الفاظ کی شکل اور معنی بدلتی ہیں۔ کبھی یہاں کوئی شاعرانہ لائسنس، کبھی وہاں تھوڑی سی تبدیلی۔ اکثر تو ایسی تبدیلیاں بے کار جاتی ہیں اور خلیہ مر جاتا ہے، لیکن کبھی کوئی نیا جملہ، نیا سُر، نیا مطلب۔ ارتقا ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی این اے اور لسانیات کی اس ہم آہنگی کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی آف کیلے فورنیا ایٹ برکلے کے سائنسدانوں نے 2009 میں ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ ایک سافٹ وئیر بنایا جو الفاظ کی لڑیوں اور فقروں کے پیٹرن دیکھ کر اس کا تجزیہ کرے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ کتاب کس طرح کی ہے۔ اس کو درجنوں کتابوں اور جانوروں کے جینوم پر چلا کر دیکھا گیا۔ پیٹر پین، بُک آف مورمون، افلاطون کی ری پبلک۔ تجزیہ کر کے یہ بتا دیتا تھا کہ کتاب کس کی جینر کیا ہے یعنی بچوں کی کتاب ہے یا مذہبی کتاب ہے یا سیاست پر ہے۔ اس نے انکی کلاسیفیکیشن مکمل ایکوریسی سے کر دی۔ اسی سافٹ وئیر نے بغیر کسی تبدیلی کے جانوروں کے جینوم کا تجزیہ کر کے ان کو بھی بالکل ٹھیک ٹحیک جینرا میں تقسیم کر دیا۔
سائنسدان اس سے آگے بڑھے اور ادب کے متنازعہ کاموں کے ادیبوں پر تجزیہ کرنا شروع کیا۔ ادیب کی رائٹنگ کا انداز دیکھ کر کہ یہ کتاب بارڈ نے لکھی ہے جبکہ یہ دوسری والی کسی اور کا کام ہے۔ اس سافٹ وئیر کو جب وائرس اور آرکیا پر استعمال کیا گیا تو اس کے تجزیے نے ہمیں وہ لنک دکھا دئے جو عام طریقے سے اوجھل رہ گئے تھے اور ان کی کلاسیفیکیشن کی نئی تجاویز دیں۔ اتنے بڑے ڈیٹا کے تجزیے پر 320 کمپیوٹروں کو ایک برس کی پراسسنگ لگی لیکن پوائنٹ بائی پوائنٹ تجزیے سے کہیں زیادہ بہتر تجزیہ لسانیات کے اس سافٹ وئیر نے کر دیا۔ انواع کی نیچرل ہسٹری ڈین این اے کی زبان میں ہمارے سامنے کھل کر آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شینن کا انفارمیشن تھیوری کا کام زندگی کی تاریخ پڑھنے میں اس قدر مددگار ہو گا، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا لیکن اس سے ہم اب تک کئی چیزیں معلوم کر چکے ہیں۔ مادہ کے ایکس کروزوم سے نر کا وائی کروموزوم کب اور کیسے الگ ہوا۔ اس میں جین اس قدر کم کیوں ہیں۔ اس میں چار بڑی تبدیلیاں کیسے آئیں۔ ارتقا اس قدر تیز رفتار کیوں ہوتا ہے۔ زندگی کی باریکیاں کس قدر شاندار ہیں؟ یہ سب اس تجزیے سے ہمیں معلوم ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ڈی این اے صرف وہ کام کرتا، جو ہم نے اب تک دیکھا ہے۔ اپنی بار بار کاپی بنانا، آر این اے اور پھر پروٹین نکالنا، نیوکلئیر بم کو بھی سہہ جانا، الفاظ اور فقرے بنانا، سیٹیوں سے دھنیں ترتیب دینا، یہ پھر بھی حیرت انگیز مالیکیول تھا۔ ہمارے علم میں آنے والی سب سے بہترین چیز لیکن جو خاصیت اس کو بالکل ہی جدا کرتی ہے، وہ ایک اور ہے۔
یہ اپنے سے اربوں گنا بزی چیزیں بنا لیتا ہے۔ ان جانداروں کو دنیا میں گھما پھرا دیتا ہے۔ ان کی تاریخ بھی محفوظ کرتا جاتا ہے۔ ایک سفرنامہ، کہ اس سے بنی کس چیز نے کب کیا کچھ کیا۔ اور اب چند خوش قسمت مخلوقات نے اسے ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہ ہے کیا؟ کرتا کیا ہے؟ اور اب اس میں نقش کہانیوں کو خود پڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان مخلوقات کے بننے کی ہدایت اور ان کی تاریخ بھی یہیں تو محفوظ ہے۔
یہ اس کتاب سے لیا گیا ہے
Violinist’s thumb and other lost tales of love, war and genius, as written by our genetic code