شعرا اور ادیب جب نیا ادب تخلیق کرتے ہیں تو انہیں خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا لکھنے والے ہیں- تمام بڑے شعرا اس بات پر متفق ہیں کہ اگر وہ پہلے سے سوچ کر شعر کہنا چاہیں (جسے آورد کہتے ہیں) تو وہ اتنے معیاری اشعار نہیں کہہ پاتے جتنے اس وقت کہتے ہیں جب بلا سوچے سمجھے شعر نازل ہوں (جسے آمد کہا جاتا ہے)-
کمپیوٹرز بھی مصنوعی ذہانت کے حامل الگورتھمز کی بدولت اب شعر کہنے اور ادب لکھنے کے قابل ہو گئے ہیں- یہ الگورتھم بھی جب کوئی ادب تخلیق کرتے ہیں تو پروگرام کے لکھنے والے بھی نہیں جانتے کہ یہ الگورتھم کیا تخلیق کرنے والے ہیں- لیکن مصنوعی ذہانت پر مبنی تخلیقات اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بارآور لکھاری کوئی انسان نہیں بلکہ چین میں تیار کردہ الگورتھم ہے- اگرچہ یہ الگورتھم ادب تخلیق نہیں کر رہا لیکن یہ ہر روز ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نئی تخلیقات میں مصروف ہے- یہ الگورتھم چین کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ علی بابا پر فروخت کے لیے لگنے والی اشیا کے اشتہارات کی عبارت خود تخلیق کرتا ہے- اس الگورتھم سے اس وقت اوسطاً ایک سیکنڈ میں اشتہارات کی بیس ہزار لائینیں تخلیق ہو رہی ہیں- اگرچہ یہ دنیا کا بہترین ادب نہیں ہے لیکن اس تخلیق کی بدولت اربوں ڈالر کی چیزیں خریدی اور بیچی جا رہی ہیں چنانچہ اس الگورتھم کی مصنوعی ذہانت کو بہتر سے بہتر بنانا علی بابا کی ترجیحات میں سرِ فہرست ہے- اس طرح کمپیوٹر کے ذریعے بہتر سے بہتر اشتہارات تخلیق کرنے سے ایک تو علی بابا کی سیلز میں اضافہ ہو گا اور دوسرے علی بابا کو ہزاروں افراد صرف اس لیے بھرتی نہیں کرنا پڑیں گے کہ وہ ان اشتہارات کا متن لکھ سکیں-
علی بابا کا دعویٰ ہے کہ یہ الگورتھم اس قدر ذہین بن چکا ہے کہ یہ ٹیورنگ ٹیسٹ آسانی سے پاس کر سکتا ہے- ٹیورنگ ٹیسٹ مشہور ماہرِ ریاضی ایلن ٹیورنگ نے 1950 میں تجویز کیا تھا جس کے مطابق اگر ایک کمپیوٹر اور ایک انسان کو پردے کے پیچھے بٹھا دیا جائے اور آپ دونوں سے ایک ٹرمنل کے ذریعے گفتگو کرتے وقت یہ نہ پہچان سکیں کہ ان میں انسان کون ہے اور کمپیوٹر کون، تو اس کمپیوٹر کو انسان کے برابر ذہانت کا حامل سمجھا جانا چاہیے- اس وقت تمام ماہرین کی متفقہ رائے یہ تھی کہ کمپیوٹرز اس ٹیسٹ میں کبھی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے- لیکن یہ ٹیسٹ کمپیوٹرز ایک دہائی سے زیادہ پہلے کامیابی سے پاس کر چکے ہیں- اس کے بعد اس ٹیسٹ کو بتدریج مشکل سے مشکل بنایا جا رہا ہے لیکن جیسے جیسے اس ٹیسٹ کو مشکل بنایا جاتا ہے ویسے ویسے کمپیوٹرز کی ذہانت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجود ٹیورنگ ٹیسٹ کو جدید الگورتھم آسانی سے پاس کر سکتے ہیں-
http://www.bbc.com/…/20180829-the-worlds-most-prolific-writ…