ہم ایک جیتے جاگتے معاشرہ کے باسی ہیں جہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے کبھی خوشی کبھی غم ،اتار چڑھاٶ کبھی ذاتی نوعیت کے اور کبھی گرد ونواع کے ہم پر اثر انداز ہوا کرتے ہیں اور خوش قسمتی سے چار لفظ برتنے آتے ہوں تو کہانی بناتے وقت نہیں لگتا مگر بدقسمتی سے مردانہ کہانی اتنی دلفریب نہیں ہوا کرتی جتنی کسی خاتون کے نازک ہاتھوں سے لکھے چند روتے دھوتے لفظ ، مقابل چاہے مردانہ کہانی کتنی ہے جاندار ہو مگر دنیا کے بازار میں عورت کی روتی کہانی ہی بکتی ہے،مرد کتنا بڑا دانشور ہو مگر قسمت کو کوستی عورت نمبر ون ٹھہرتی ہے، یہی پر آکر عورت مرد کو بے وقوف بناتی ہے اور مرد خوش دلی سے بے وقوف بنتا چلا جاتا ہے اور مقصد پورا ہونے کے بعد مرد عورت کو برا کہتا ہے اور عورت مزید قسمت کو کوستی ہوٸی کچھ اور ہمدردیاں سمٹنے لگ جاتی ہے ،حقیقت میں دونوں اصناف ہی بے وقوف بن بھی رہے ہوتے ہیں اور بنا بھی رہے ہوتے کچھ زیادہ کچھ کم ، بہرحال برق رفتار میڈیا نے یہ سہولت کچھ زیادہ عام کر دی ہے اب جہاں کوٸ خاتون موسم کی بے رنگی کا ذکر کرے یا طوطے اڑنے کا ذکر کرۓ کچھ ہمدرد جلدی سے تعویذ اور فوری اثر کرنے والے اسما۶ کا ورد اور تعلقات کی گھٹڑی لے کر پہنچ جاتے ہیں افسردہ فریق اگر کمزور پڑ گیا تو سب ٹھیک ورنہ کہیں اور قسمت آزمانے چل پڑتے ہیں۔