پہلے ایک چھوٹی سی پہیلی۔
ایک شخص اپنے دفتر جا رہا ہے۔ اس نے پیدل جانے کے بجائے ٹرانسپورٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس پر سوار ہونے سے پہلے اس نے جی پی ایس پر اپنی جگہ دیکھی۔ سفر اچھا رہا۔ سواری درمیان میں رکتی رہی، مسافر سوار ہوتے اور اترتے رہے۔ اپنی منزل پر پہنچ کر اس نے دوبارہ جی پی ایس پر اپنی جگہ دیکھی۔ یہ بالکل وہی تھی جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ کیسے؟
یہ شخص ایک اونچی عمارت میں کام کرتا تھا اور اس نے لفٹ کا سفر کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لفٹ کو ٹرانسپورٹ سسٹم کے طور پر تصور نہیں کرتے لیکن یہ روز دسیوں کروڑ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مدد کرتی ہیں۔ اس وقت چین میں سالانہ ساتھ لاکھ نئی لفٹیں نصب ہو رہی ہیں۔
برج خلیفہ میں فلور کا رقبہ تیس لاکھ سکوائر فٹ ہے۔ شکاگو کے سئیرز ٹاور (اب وِلس ٹاور) اک رقبہ چالیس لاکھ سکوائر فٹ ہے۔ تصور کریں اگر اتنا رقبہ اتنی اونچی عمارتوں میں نہ ہوتا تو اس کے درجنوں حصے کر کے الگ عمارتیں بنانی پڑتیں۔ ان کو آپس میں جوڑنے کے لئے سڑکیں، گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہیں ۔۔۔ یہ سب کچھ ایک چھوٹا سا شہر ہوتا۔ لفٹ اس شہر کو ایک عمارت میں سمیٹ دینا ممکن بناتی ہے۔
اس میں بڑی ایجاد سیفٹی ایلیویٹر کی ایجاد تھی۔ لفٹ تو اس سے بہت پہلے سے موجود تھی جس میں رسی اور پلی استعمال ہوتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ارشمیدس نے بھی ایسی لفٹ بنائی تھی۔ مصر، چین، ہنگری میں جانوروں کی طاقت سے اس کو اٹھائے جانے کی لفٹ بنی تھی۔ سٹیم انجن کی طاقت اس کو مزید آگے لے گئی۔ اس کی مدد سے کان سے کوئلے نکالے جاتے تھے۔ یہ سب کام کرتی تھیں لیکن انسانوں کو زیادہ بلندی پر محفوظ طریقے سے لے جانے کا بڑی چیلنج اس کو محفوظ بنانا تھا۔ کیونکہ کبھی کبھار کوئی چیز خراب ہو ہی سکتی ہے۔ آپ پانچ منزلہ بلندی سیڑھی کے ذریعے چڑھ سکتے ہیں لیکن غیرمحفوظ مشین پر اتنی بلندی پر جانا پاگل پن ہی کہا جائے گا۔ حادثے کا امکان کم بھی ہو تو بھی زندگی تو صرف ایک ہی ہے۔
اس لئے نہ صرف محفوظ دکھانا بلکہ قابلِ اعتبار طریقے سے اس کو محفوظ دکھائے جانا ضروری تھا۔ اور یہ کام الیشا اوٹس نے کیا۔ 1853 میں نیویارک کے میلے میں وہ ایک پلیٹ فارم پر سوار ہوئے۔ مجمع کے سامنے اس کو اوپر اٹھایا گیا۔ یہ کسی جلاد کا تماشا لگ رہا تھا۔ اوٹس کے پیچھے ایک شخص کلہاڑی لے کر کھڑا تھا۔ کیا یہ کسی کے مرنے کی تیاری تھی؟ کلہاڑا سر سے بلند ہوا۔ مجمع نے سانس روک لیا۔ وار نے رسی کاٹ دی۔ لیکن یہ پلیٹ فارم اپنی جگہ پر ویسا ہی رہا۔ اوٹس نے مسکراتے ہوئے کہا، “حضرات، سب کچھ محفوظ ہے، بالکل محفوظ ہے”۔ جو شے شہروں کا نقشہ بدلنے والی تھی، وہ لفٹ نہیں تھی۔ اس کی بریک تھی۔
شہروں کا نقشہ بدلنا ہی اس ایجاد کی درست وضاحت کرتا ہے۔ لفٹ نے عمارتوں کی تعمیر کا طریقہ ہی بدل دیا۔ زیادہ سے زیادہ چھ سے سات منزلہ عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے اوپر والی منزلوں تک پہنچنا مشقت والا کام تھا۔ یہاں ملازموں کے کوارٹر بنائے جاتے تھے یا کسی قلاش آرٹسٹ کو کرائے پر دئے جاتے تھے۔ اس ایجاد کے بعد اوپر کی منزل مطلوب جگہ بن گئی۔
لفٹ کو شہری ڈیزائن کے وسیع تر تناظر میں دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ ائیرکنڈیشنر کے بغیر جدید اونچی عمارتیں ناقابلِ رہائش ہوتیں۔ فولاد اور ری انفورسڈ کنکریٹ کے بغیر ناقابلِ تعمیر ہوتیں۔ لیکن لفٹ کے بغیر ناقابلِ پہنچ ہوتیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے اچھے نظام کے بغیر شہر گنجان آباد نہیں ہو سکتے۔ سکائی سکریپر والے علاقوں میں اچھی ٹرانسپورٹ اور لفٹ ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ ماحول دوست شہر ہیں۔ ایسے علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگ پبلک ٹرانسپورٹ پر یا سائیکل پر یا پیدل سفر کرتے ہیں۔ اونچی عمارتیں میں رہنے کے لئے لوگ زیادہ کرایہ ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں تخلیقی صلاحیت کی آوٹ پُٹ زیادہ ہوتی ہے۔ یہ امیر علاقے ہوتے ہیں۔ (پیٹنٹ اور نئے کاروبار کی شرح اور معاشی آوٹ پُٹ کے پیمانوں سے یہ پیمائش کی جا سکتی ہے)۔ عام شہری علاقوں یا دیہی علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ماحول دوست ہوتے ہیں۔ توانائی کی فی کس کھپت کم ہوتی ہے، پٹرول کی کھپت کم ہوتی ہے۔ بیک دولت، تخلیقی صلاحیت اور ماحول دوست ہونے کا یہ معجزہ لفٹ کی ایجاد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
لفٹ کی ایجاد کو کئی بار ہم اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ کئی لوگ ان پر سوار ہوتے وقت نروس بھی ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ چلنی والی سیڑھیوں کے مقابلے میں کئی گنا کم حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ایک وفادار خادم ہے اور نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن تصور کریں کہ ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ دروازے بند ہوئے، گریویٹی کے احساس میں کچھ تبدیلی آئی۔ درازہ دوبارہ کھلا اور آپ کسی نئی جگہ پر پہنچ گئے۔ اگر کچھ سائن اور روشنیاں نہ ہوں تو آپ کو شاید ہی کوئی اندازہ ہو کہ کس منزل پر پہنچے ہیں۔ یہ ٹیلی پورٹ کئے جانے کا قریب ترین تجربہ ہے۔
اور یہ ایجاد خود بہتر ہو رہی ہے۔ اونچے سکائی سکریپر میں اپنے چیلنج ہیں۔ ان کو بہت کم وزن کی مضبوط رسیوں کے خاص ڈیزائن اور کمپیوٹر کنٹرولر سے حل کیا جاتا ہے۔ ایک ہی شافٹ کے ساتھ دو لفٹوں کا ڈیزائن بھی استعمال کیا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے اوپر آزادانہ کام کرتا ہے۔
ایمپائر سٹیٹ بلنڈنگ میں حال میں پچاس کروڑ ڈالر کا پراجیکٹ اس بلنڈنگ کی توانائی کی کھپت کم کرنے کے لئے کیا گیا۔ اس میں نئی لفٹیں بھی تھیں جس میں ری جنریٹو بریک تھی۔ اس کا کام توانائی کی ایفی شنسی کو بہتر بنانا تھا۔ لیکن اپنی اس قدر گنجان آبادی اور اونچے قد کے باعث ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ پہلے ہی بہت ماحول دوست عمارت ہے۔
سامنے ہوتے ہوئے بھی اپنی اہمیت کا اعلان نہ کرنے والی، سالانہ اربوں سفر کروانے والی، بلندوبالا عمارتوں کی تعمیر ممکن کرنے والی، شہروں کے نقشے بدلنے والی یہ ایجاد سوچنے والی ایک پہیلی کا جواب ہے۔