بہت پہلے "لائف از بیوٹی فل" دیکھی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں بنی اس فلم کا خیال اس قدر شان دار ہے، کہ میں ہر با ذوق سے کہوں گا، اگر اس نے یہ مووی نہیں دیکھی تو ضرور دیکھے (یو ٹیوب پہ دیکھی جا سکتی ہے)۔
ایک شخص اور اس کا کم سن بیٹا، دیگر افراد کے ساتھ نازی کیمپ میں قید کر دیے جاتے ہیں۔ وہ شخص اپنے بیٹے سے (میری زبان میں) کہتا ہے، یہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، یہ سچ میں نہیں ہے، بل کہ ایک کھیل ہے۔ میں، تم باقی لوگ، سپاہی یہ سب اس کھیل کے کھلاڑی ہیں۔ ہمیں اس کیمپ سے فرار ہونا ہے، لیکن اس طرح کے کسی دوسرے کھلاڑی کو ہمارے منصوبے کی خبر نہ ہو۔ فلم کے آخری مناظر میں، جب باپ بیٹا "کھیل کے مطابق" کیمپ سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تو باپ سرچ لائٹ کی روشنی میں آ جاتا ہے۔ "کھیل کے مطابق" اس پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ بیٹا وہیں کہیں چھپا بیٹھا باپ کا لاشہ گرتے دیکھتا ہے، لیکن جانتا ہے، یہ تو کھیل ہے، اس کا باپ جھوٹ موٹ کا مرا ہے (کیوں کہ اسے باپ نے یہی بتایا ہے)۔ وہ سپاہیوں کے سامنے نہیں آ تا، کیوں کہ وہ اکیلا بھی کیمپ سے فرار ہونے میں کام یاب ہو جاتا ہے، تو اس کی ٹیم فاتح قرار پائے گی۔
نازیوں کی شکست کا زمانہ ہے، تو اسی صبح اتحادی افواج کیمپ میں داخل ہو جاتی ہیں۔ بچہ خوشی سے اتحادی افواج کے ٹینک پر سوار ہو کے نعرہ لگاتا ہے، "ہم جیت گئے، ہم جیت گئے".
ہم تیسری دنیا کے شہری ایک کیمپ میں قید ہیں۔ ہمارے حکمران نازی افواج سے بے رحم نہیں، تو اس کم بھی نہیں ہیں۔ اے پی ایس میں معصوم بچوں کی شہادت ہو، کوہستان میں غیرت کے نام پر مار دیے جانے والیاں، سندھ، پنجاب، بلوچستان میں ونی، کارو کاری کے واقعات، ہزارہ کمیونٹی پر حملے، پنجابیوں کو بسوں سے اتار کا مارنا، فرقہ واریت کے نام پر قتل و منافرت کے مظاہر، کراچی میں بارہ مئی جیسے مظالم، لال مسجد سانحہ، نقیب اللہ اور دیگر کا جعلی پولس مقابلوں میں خون، معصوم بچیوں کا ریپ، عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکا، سانحہ ماڈل ٹاون، مشعل کا خون نا حق، سانحہ ساہی وال، اور اور کیا گنوایا جائے کہ مجرم دندناتے پھرتے ہیں، کمیشن پر کمیشن بٹھائے جاتے ہیں، لیکن نتیجہ ملزموں کی ترقی کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔
انصاف کی کیا کہیے کہ عدالتیں ڈیم بنانے کے نام پر فنڈ اکٹھا کرتی ہیں، جس کا بعد میں کچھ اتا پتا نہیں چلتا۔ کیسا دردناک منظر ہے، اور قوم غلاموں کی طرح چار دن بلبلاتی ہے، اور پھر اگلے کوڑے کی منتظر۔
اب کیا ہے، کہ ہمیں اپنے بچوں کو خوف زدہ نہیں کرنا، کہ ہم قید میں ہیں، ہم غلام ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ اس غلامی پر راضی ہو جائیں۔ انھیں سکھانا ہے، کہ ہم اس ملک میں ہیں تو یہ ایک کھیل کا میدان ہے۔ ہمیں یہاں سے فرار ہونا ہے۔ جو قید سے نا خوش ہیں، وہ یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتے رہیں، چاہے اس کوشش میں ان کی جان چلی جائے۔ کیوں کہ غلامی سے نجات کی کوشش میں موت کو گلے لگانا، حقیقت میں شہادت ہے۔
زندگی بہت خوب صورت ہے، لیکن آزاد شہری کی۔ اگر آپ کے ارد گرد سب یا اکثر اس غلامی پر راضی ہیں، تو پھر ہمارا یہاں ٹھیرنا بنتا نہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں، کہ فرار ہو کے بھی کہیں جائے پناہ نہیں، تو متحد ہو کے اپنے آقاؤں کے سامنے ڈٹ جائیں۔ اتنا کچھ دیکھ کر آپ کو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ستائی، ایک معمولی قامت کے جرثومے کا سن کر گھگیا رہے ہیں؟ اجی گھگیائیے مت، ایک ہو کر اپنی حکومت سے پوچھیے، لاکھوں کروڑوں اربوں کے بجٹ لینے والے نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اور دیگر ادارے متوقع وبائی صورت احوال سے نبٹنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
اگر ملک پر دشمن کی فوج حملہ کرتی تو تمام فنڈز سے کٹوتی کر کے دفاعی بجٹ کی مد میں دیے جاتے اور دینے چاہیے۔ قوم پر وبا حملہ آور ہو رہی ہے، تو ہم نے کس مد سے کٹوتی کر کے صحت کے خانے میں رکھے ہیں؟
قوم کی بھی عجب داستان ہے۔ پڑوسی سے جنگ کی بات ہو تو منہ سے فائر شروع ہو جاتے ہیں، کہ مار دیں گے، مر جائیں گے۔ وبا کا خطرہ ہے، تو گھگیا رہی ہے، لیکن آقا سے پوچھنے کا یارا نہیں، کہ آقا کیا اس دن کے لیے ہتھیار جمع کیے تھے، کہ وائرس حملہ آور ہو، تو محکمہ صحت کے پاس ایک نغمہ ریلیز کرنے کا بجٹ تک نہ ہو، تا کہ گیت سن کے عوام جھوم سکیں، کہ ان کی صحت محفوظ ہاتھوں میں ہے؟
پس نوشت: وبا سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، لیکن وبا کو لے کر کے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے سیاسی، مذہبی، ملحدانہ نظریات پر حملہ اور ہونے سے تو لگتا ہے، ایسے سب فریق جہالت کے گڑھے میں پڑے ہیں، وبا سے بھیانک تو ہمارا یہ رویہ ہے۔ بس اسی کو دیکھ کے اس قید خانے سے بھاگنے کا جی کرتا، ورنہ آقا کے ہنٹر میں کہاں اتنا دم ہے۔