"عالمِ اسلام کی لائبریریاں"
_________________________
انگلش کا لفظ لا ئبریری لاطینی لفظ’’ لیبر‘‘سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ کسی بھی قوم کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کے لٹریچر اور کتابوں سے لگایا جاتا ہے۔ عہد وسطیٰ کے اسلامی دور میں کتابوں کی کیا اہمیت تھی، علم کے پھیلانے میں مسلمانوں نے کیا کردار ادا کیا، کتب خانوں کو کیا اہمیت حاصل تھی، مسلمان علماء و سائنسدانوں کی کیا قدر و قیمت تھی. مسجد صرف عبادت گاہ نہ تھی بلکہ یہاں علم کی تحصیل کی جاتی تھی جس کیلئے یہاں کتابیں مہیا ہوتی تھیں، مسلمانوں نے عہد رفتہ کی یونانی، سنسکرت اور فارسی لٹریچر کو کس طرح محفوظ کیا، ان کے تراجم کئے اور انہی تراجم سے لگ بھگ ساری دنیا علم کے نور سے منور ہوئی۔ یہ ہر دلعزیز داستان اس مضمون میں بیان کی گئی ہے۔
مسلمانوں نے کاغذ سازی کا فن موجودہ قرغستان میں آٹھویں صدی میں چینیوں سے سیکھا تھا (1)۔ اسلامی دنیا میں کاغذ کی پہلی فیکٹری 751 میں سمرقند میں تعمیر ہوئی۔ اس کے بعد مسلمان کاغذ کی ایجاد کو ہندوستان اور یورپ لے گئے۔ جلد ہی اس ایجاد کے طفیل بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں پبلک لا ئبریریاں قائم ہوئیں جہاں کتابیں کاغذ پر لکھی جانے لگیں۔ اسلامی دنیا میں لا ئبریریوں کے مختلف نام بھی تھے جیسے بیت الحکمۃ، خزانۃ الحکمۃ، دار الحکمۃ، دار العلم، دار لکتب، خزانتۃ لکتب، بیت الکتب اور ایران میں کتاب خانہ وغیرہ
مدارس کے علاوہ پبلک اور پرائیویٹ لا ئبریریاں بھی موجود تھیں۔ لا ئبریری کے مختلف عہدیدار یعنی ناظم، مہتمم، صحاف، ورق، جلد ساز، نقاش، خوشنویس، مقابلہ نویس، مصح (پروف ریڈر) اور کاتب وغیرہ بھی تھے.
پہلی اسلامی لائبریری کی بنیاد اموی خلیفہ معاویہ ابن ابی سفیان (602-680) نے دمشق میں رکھی تھی۔ ان کی ذاتی لا ئبریری کا نام بیت الحکمۃ تھا جس میں آنیوالے ادوار میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس دور میں کتاب کی انڈسٹری کا محور مسجد ہوتی تھی۔ چھوٹی لائبریریاں تمام کی تمام مسجدوں کا حصہ تھیں جن کا مقصد یونانی، پہلوی اور سنسکرت لٹریچر سے عربی میں نقول تیار کرنا تھا۔ عالمی سیاح ابن بطوطہ (1368)کے بقول دمشق میں کتابوں کا بازار جامع مسجد سے قریب تھا جہاں کتابوں کے علاوہ چمڑہ، گتا، گوند، عمدہ کاغذ، قلم، روشنائیاں فروخت ہوتی تھیں۔
اکثر متمول مسلمان اپنی لائبریریاں مساجد کو وقف کر دیتے تھے۔ مسجد امام ابو حنیفہ کی بغداد میں لا ئبریری کافی بڑی تھی۔ مؤرخ واقدی(م822) نے ورثہ میں اتنی کتابیں چھوڑیں جو 600 شیلفوں میں سما سکتی تھیں۔ امام احمد بن حنبل (م855) کی کتابوں کی تعداد اتنی تھی کہ ان کو لے جانے کیلئے بارہ اونٹوں کی ضرورت تھی۔ اسی طرح علامہ زمخشری نے اپنی ذاتی کتابیں مسجد کو دے دی تھیں. ایک شیعہ سکالر جرودی ذیدی اپنی لا ئبریری کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا تھا جس کیلئے چھ سو اونٹوں کی ضرورت پڑی اور اس کی قیمت ایک سو دینار تھی۔ (2)
عہد وسطیٰ کے دور میں اسلامی دنیا کی تین عظیم الشان لائبریریاں بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں قائم ہوئی تھیں۔ دسویں صدی عیسوی میں مزید لائبریریوں کی بصرہ، بغداد، دمشق، اصفہان، نیشاپور ، قاہرہ میں بنیاد رکھی گئی۔
ابن الندیم نے ان کی کچھ تفصیلات "کتاب الفہرست" میں، ابن القفطی نے "تاریخ الحکماء" میں ، ابن ابی اصیبعہ نے "عیون الانباء" میں اور ابنِ جلجل نے "طبقات الاطباءوالحکماء" میں دی ہیں ۔ ان کتابوں میں مختلف قومیتوں، نسلوں کے مسلم سائنسدانوں اور فلاسفروں کے سوانحی حالات اور ان کی کتابوں کا تذکرہ و تفصیلات ملتی ہیں.
اسلامی دنیا کی مشہور بڑی لائبریریوں کا احوال پیشِ خدمت ہے :
القرویین لائبریری مراکش:
یہ دنیا کی قدیم ترین لائبریری ہے جس کی بنیاد فیض مراکش میں 859ء میں فاطمہ الفھریہ نامی خاتون نے رکھی تھی. یہ لائبریری نہ صرف قدیم ترین ہے بلکہ آج تک علم کے متلاشی افراد کو فیض یاب کر رہی ہے. جامعہ القرویین قدیم ترین ڈگری دینے والی یونیورسٹی ہے۔ فاطمہ ایک تعلیم یافتہ سکالر اور عبادت گزار خاتون تھی. اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ورثہ میں ملنی والی دولت سے فروغ تعلیم کے ساتھ رفاہی کام کرے گی جس کیلئے اس نے ایک مسجد اور مدرسہ و لائبریری کی بنیاد رکھی۔ اس لائبریری میں دینیات، قانون، گرائمر اور اسٹرانومی پر دستی نسخے موجود تھے جن میں سے کچھ ساتویں صدی کے تھے۔ یہاں پر نویں صدی کا کوفی رسم الخط میں لکھا ایک قرآن، ابن رشد کی مالکی فقہ پر لکھی کتاب کا قلمی نسخہ اور ابن خلدون کا تاریخِ مقدمہ موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے کمپلیکس میں اضافے کئے گئے اور اب یہاں جدید طرز کی ایک مسجد، لائبریری اور یونیورسٹی ہے۔ ابن العربی نے بارھویں صدی میں یہاں تعلیم حاصل کی تھی اس کے علاوہ علمِ بشریات کے بانی ابن خلدون نے بھی یہاں چودھویں صدی میں تعلیم حاصل کی تھی (3)۔
عہد وسطیٰ میں القرویین اور یورپی درسگاہوں کے درمیان علم کی منتقلی کا عمل سر انجام پایا تھا۔ صدیوں گزرنے پر چونکہ اس کی عمارت بہت بوسیدہ ہو چکی تھی اور اس میں موجود قلمی نوادرات دسترس سے باہر تھے لہزا کچھ سال قبل مراکش کی حکومت نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی پروفیسر عزیزہ چاؤنی کو ہائر کیا اور انہیں لائبریری کی عمارت کو مرمت کر کے جدید طرز پر تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ پرانے نادر مسودات کو اب ڈیجیٹائز بھی کیا جا رہا ہے اور بیس فیصد لٹریچر اب الیکٹرونک صورت میں بھی موجود ہے۔ لائبریری میں کلائمیٹ کنٹرول سسٹم بھی لگایا گیا ہے جس کا افتتاح مئی 2016ء میں ہوا تھا.
یورپ میں اس وقت برلن، ڈبلن، لیڈن، اسکوریال، لندن، آکسفورڈ اور پیرس کی لائبریریوں میں موجود عربی مسودات بھی پائے جاتے ہیں. یہ مسودات یا تو مسلمان حکمرانوں سے خریدے گئے، یا تحفوں کی صورت میں ملے، یا سرقہ، یا کتابوں کی نقل اور یا پھر جنگوں کے دوران حاصل کئے گئے تھے۔
بیت الحکمۃ بغداد :
آٹھویں صدی کے بیت الحکمۃ بغداد میں لائبریری، دار الترجمہ، رصدگاہ، اور سائنس دانوں کیلئے قیام گاہیں موجود تھیں۔ یحییٰ بن خالد برمکی نے ہندو سکالرز کو یہاں مدعو کرکے سنسکرت کتابوں کے تراجم کروائے۔ ابوسہل اور ابوالفضل بن نو بخت یہاں کے مشہور مترجم مانے جاتے تھے۔ یہاں کی لائبریری میں ہر موضوع اور ہر زبان کی کتابیں رکھی گئی تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے غیر ممالک میں اپنے نمائندے بھجوائے تا کہ وہ نایاب کتب خرید کر یہاں بھجوائیں چنانچہ سنسکرت، فارسی اور قبطی کتابیں بغداد میں لائی گئیں۔
لا ئبریری سے ملحق دارالترجمہ تھا جہاں ترجمہ نگار عربی میں کتابوں کو منتقل کرتے تھے۔خلیفہ المامون (833) کے دورِ حکومت میں قبلِ اسلام کی شاعری، سرکاری مسودات و خطوط اور معاہدوں کو حاصل کیا گیا۔ مثلاََ قرض کا معاہدہ جس پر حضرت محمد کے محترم دادا جناب عبد المطلب بن ہاشم کے دستخط تھے۔ اسی طرح خلیفہ مامون نے سسلی و بازنطین سے بھی کتب منگوائیں بلکہ امن کے معاہدوں میں ایک شق یہ ہوتی تھی کہ مطلوبہ مسودات بغداد بھجوانے جائیں گے. سہل بن ہارون لائبریری کا منتظم اعلیٰ اور بہترین ترجمہ نگار تھا۔ ابن ابی ہریش یہاں کا جلد ساز تھا۔ بیت الحکمۃ میں ممتحن کے علاوہ کاتب، ترجمہ نگار، ہئیت دان اور سائنسدان بھی ہوتے تھے۔ سرکاری کتب خانوں کے علاوہ لوگوں کے ذاتی کتب خانے بھی تھے۔
یحییٰ بن خالد برمکی کی لائبریری:
خلیفہ ہارون الرشید کے چہیتے وزیر یحیےٰ بن خالد برمکی کی ذاتی لائبریری یونانی، قبطی، سنسکرت اور فارسی کتب سے مزین تھی۔ ہر کتاب کے تین نسخے بنائے گئے تھے۔ اس کے مشورہ پر خلیفہ نے بدھ مت کے سکالرز کو بغداد آنیکی دعوت دی جنہوں نے کتاب البدھ لکھی۔ اسی طرح یعقوب ابن اسحق الکندی (866) کی ذاتی لائبریری بھی تھی جس کو بنو موسیٰ براران نے ضبط کروا دیا تھا مگر بعد میں صلح ہونے پر اس کو واپس کردی گئی تھی۔
خلیفہ المتوکل (861) کے ایک دوست فتح ابن خاقان (861) کی لائبریری کا مہتمم (صا حبِ خزانتہ الکتب) علی ابن یحییٰ منجم تھا جو کہ مشہور ہئیت دان تھا. ابن خاقان اپنے دور کا سب سے بڑا کتابوں کا رسیا تھا(4)۔ ابو عثمان ابن جاہیز نے بھی اس لائبریری کیلئے خاص کتابیں قلمبند کی تھیں۔ علی ابن یحییٰ (888) کی ذاتی لائبریری کا نام خزانۃ الکتب تھا۔ یہاں سے بہت ساری کتابیں اس نے ابن خاقان کی لائبریری کو تحفہ میں دی تھیں. جو علماء و سکالرز یہاں مطالعہ و تحقیق کیلئے آتے ان کے اخراجات بھی یحییٰ خود برداشت کرتا تھا۔ مشہور منجم ابو معشر الفلکی خراسان سے حج روانہ ہوا تو اس بے مثال لائبریری سے اکتساب کرنے یہاں آیا.
اسحق موصلی کی لائبریری:
اسحق ایک باکمال اور مشاق موسیقار، محدث اور عربی گرائمر کا ماہر تھا۔ بغداد میں اس کی لائبریری میں بے مثال کتابیں تھیں۔ ابوالعباس ثعالب نے ایک ہزار رسائل دیکھے جو اسحاق موصلی مطالعہ کر چکا تھا۔
صبو ر بن اردشیر کی لائبریری:
صبور بن اردشیر (991) نے یہ لائبریری بغداد کے محلہ کرخ میں قائم کی جس کا نام دار العلم تھا۔ جرجی زیدان کے بقول یہاں دس ہزار مسودات تھے۔ ہر مصنف کتاب کا ایک نسخہ یہاں عطیہ میں دیتا تھا۔ یہاں قرآن مجید کے ہاتھ سے لکھے ہوئے 100 نسخے موجود تھے۔ بغداد کے نامور اہلِ سخن یہاں جمع ہوتے اور بحث و مباحثہ میں شامل ہوتے۔ حلب (شام) کے نابینا شاعر اور فلاسفر ابولعلیٰ المعری نے بھی اس کتب خانے سے استفادہ کیا، بلکہ جب بھی وہ بغداد آتا زیادہ وقت یہیں گزارتا تھا (5)۔
محمد بن حسین البغدادی لائبریری:
اس لائبریری میں بے مثل مسودات اور نادر مخطوطے تھے۔ ماسوا چند انتہائی فاضل سمجھے جانے والے علما کے اور کسی کو بھی یہاں داخلے کی اجازت نہ تھی۔ ابن ندیم نے 'کتاب الفہرست' میں اس کتب خانے کی تفصیل مہیا کی ہے۔
بغداد کے راہب خانوں اور مدرسوں میں متعدد نفع بخش لائبریریاں تھیں۔ ان میں سے ایک مدرسہ نظامیہ تھا جہاں سلجوق وزیر نظام الملک طوسی (1092) نے اپنی تمام کتب جمع کرا دی تھیں۔ لائبریری کا ناظم علامہ ابو زکریا طبریزی تھا۔ یاد رہے کہ مدرسہ نظامیہ اسلامی دنیا کا پہلا باقائدہ کالج تھا۔
مستنصریہ مدرسہ لائبریری:
بغداد کی اس لائبریری کی بنیاد چھتیسویں عباسی خلیفہ المستنصر باللہ (1242) نے 1227ء میں دجلہ کے بائیں کنارے پر رکھی تھی۔ اس کا افتتاح پوری شان و شوکت سے کیا گیا۔ نامور سکالرز اور فقہاء کو یہاں لیکچرز دینے کیلئے مدعو کیا گیا۔ شاہی کتب خانے سے تمام کتابیں 130 اونٹوں پر لاد کر اس عالی شان لائبریری میں جمع کرائی گئیں۔ ان میں اسی ہزار نادر و نایاب مسودات تھے جن میں سے ایک مشہور تاریخ بغداد و مدینۃ الاسلام از ابو بکر خطیب بغدادی کا قلمی نسخہ بھی تھا۔ اس ضخیم کتاب کی 24 جلدیں ہیں جن میں 7831 سکالرز و علماء کی سوانحِ عمریاں بشمول جملہ مصنفین کے نام اور ان کی لکھی گئی کتابوں کے نام شامل ہیں۔ لائبریری کی عمارت کی دوبارہ مرمت و آرائش1961ء میں کی گئی تھی.
منگولوں کے 1258ء کے حملے میں اگرچہ دیگر لائبریریوں سے کتابیں دجلہ کی نذر کر دی گئیں اور دجلہ کا پانی روشنائی سے سیاہ ہو گیا مگر مستنصریہ لائبریری منگولوں کی یلغار سے محفوظ رہی۔ جب سلطنتِ عثمانیہ نے بغداد پر 1534ء میں قبضہ کر لیا تو شہر کے تمام محلات اور لائبریرز سے کتب استنبول کی امپرئیل لائبریری بھجوا دی گئیں۔ مستنصریہ لائبریری ویران ہوگئی مگر اسی نام کا مدرسہ بہرحال چلتا رہا اور اب وہی مدرسہ مستنصریہ یونیورسٹی میں بدل چکا ہے۔
عراق نیشنل لائبریری:
اس کی بنیاد 1920ء میں رکھی گئی تھی۔ عراق میں 1972ء میں 73 پبلک لائبریریاں تھیں۔ 2003ء کی عراق جنگ میں عراق نیشنل لائبریری کا بڑا حصہ عمدا ََنذر آتش کیاگیا اور اس کے چیدہ چیدہ ذخائر کولوٹ لیا گیا۔ تباہی سے قبل یہاں چار لاکھ کتابیں، 2600 رسائل، 4412 نادر مخطوطے تھے۔ لائبریری کو2007 کے بعد برٹش لائبریری کی مدد سے از سر نو تعمیر اور بحال کر دیا گیا۔
مصر کے کتب خانے:
قاہرہ کی لائبریریاں :
فاطمی خلفاء(909-1171) علماء اور کتابوں کے مربی اور ان کی سرپرستی کرتے تھے۔ خلیفہ العزیز باللہ بذات خود ایک زبردست عالم، شاعر اور کاتب تھا جس نے قاہرہ میں ایک لائبریری 'خزائنہ القصور' کی بنیاد رکھی جس کے اندر 40 کمرے کتابوں سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ یہاں چھ ہزار کتابیں ریاضی اور علم ہیت پر تھیں، اس کے علاوہ فقہ، گرائمر، حدیث، اسٹرانومی اور کیمسٹری پر بھی تھیں۔ تاریخ طبری کی 1200جلدیں ، خلیل احمد نہوی کی کتاب العین کی 30 جلدیں اور 2400 جلدیں قرآن مجید کی تھیں۔ بعض کتابوں کی جلد سنہری جن پر سلور پینٹنگ تھی.
یہاں دو گلوب تھے ایک چاندی کا اور دوسرا یونانی جو کہ ہیئت دان بطلیموس کے بنائے ہوئے تھے۔ اس کی وفات پر لائبریری الحاکم بامراللہ کے کتب خانے 'دار الحکمہ' میں ضم کر دی گئی۔ دار الحکمہ کے افتتاح کے موقع پر نامور فقیہ اور اطباء موجود تھے۔ وزیٹرز کو مطالعہ کے علاوہ کتابیں نقل کرنے کی اجازت تھی جس کیلئے قلم، روشنائی، کاغذ خلیفہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں طبیب، فقیہ، ہیت دان منطقی کل وقتی ملازم تھے۔ ایک دفعہ ان علماء کو مباحثہ میں شرکت پر خلیفہ نے بڑی رقوم عطیہ میں دی تھیں۔ لائبریری کے اخراجات کیلئے مکانات اور دکانیں وقف تھیں جو آمدن کا وسیلہ تھیں۔ اندازاََ یہاں ایک لاکھ کتابیں تھیں۔
الازہر مدرسہ لائبریری:
الازہر مدرسہ لائبریری کی بنیاد 970ء میں رکھی گئی تھی جس میں دو لاکھ مخطوطے تھے۔ مصر کے متعدد مدرسے اور کتب خانے تباہ ہوگئے ما سوا اس کے۔ خلیفہ مستنصر باللہ (1021-36) کے دور حکومت میں ترک سپاہیوں نے غارت گری کی اور ہزاروں مسودات دریائے نیل کی نذر کر دئے یا خاکستر کر ڈالے ۔ جو کتابیں بچ گئیں ان کا کھلی جگہ پر ڈھیر لگا دیا گیا اس مقام کا نام طلال الکتب (کتابوں کا ڈھیر) پڑ گیا۔ فاطمی خلفاء کی لائبریریوں میں سے سینکڑوں مخطوطے محفوظ رہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی (1193) نے تمام کتابیں اپنے مشیر خاص قاضی فاضل کے مدرسہ قاف کو تحفہ میں دے دیں (7) ۔
الازہر یونیورسٹی کی لائیبریری :
الازہر یونیورسٹی کی بنیاد 1961ء میں رکھی گئی مگر اس کی جدید لائبریری کی بنیاد 1005ء میں رکھی گئی تھی یعنی آکسفورڈ کی بوڈلین لائبریری سے چھ سو سال قبل، اور ویٹکن لائبریری سے 440 سال قبل۔ یہاں 595,668 قلمی نسخے جو آٹھویں صدی تک پرانے ہیں موجود ہیں، نیز 9062 پبلشڈ کتابیں ہیں۔
محمودیہ لائبریری:
قاہرہ کی اس لائبریری میں کئی قسم کے نوادرات تھے۔ اگرچہ یہاں صرف چار ہزار قلمی نسخے تھے مگر ان میں سے متعدد ایسے تھے جن کی کتابت مصنفین نے اپنے دست مبارک سے کی ہوئی تھی۔ کئی نامور عالم اور فاضل اس کے ڈائریکٹر تھے جن میں سے ایک شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی (م 1449) تھے۔ یہ کتب خانہ مدرسہ محمودیہ کا حصہ تھا جس کی بنیاد جمال الدین محمود نے رکھی تھی جو سلطان ملک الظاہر سیف الدین برقوق (م 1399) کا مشیر خاص تھا۔
نیشنل لائبریری مصر:
دارلکتب المصریہ میں 3 ملین طبع شدہ کتابیں ہیں، اسی ہزار قلمی نسخے، بہت سارے سکے اور Papyrus پر مسودے، اس کو 1870ء میں قائم کیا گیا، اور 2002ء میں اسکندریہ لائبریری میں ضم کردیا گیا۔(8) ۔
ایران کے کتب خانے:
عضد الدولہ لائبریری:
فنا خسرو، لقب عضدالدولہ (م983) بووید سلطنت کاجلیل القدر امیر تھا۔ بغداد میں اس کے نام کا خطبہ دیا جاتا تھا۔ اس نے اپنے دور حکومت میں متعدد سائنسی منصوبوں کی سرپرستی کی۔ اصفہان میں ایک رصدگاہ تعمیر کروائی جہاں ماہر ہئیت دان عبد الرحمن صوفی نے تحقیقی کام کیا تھا۔ عضد الدولہ ہسپتال تعمیر کروایا۔ شیراز میں ایک شاندار لائبریری تعمیر کروائی جہاں اسلام کے آغاز سے لکھی کتابیں محفوظ تھیں۔ لائبریری شاہی محل کے اندر واقع تھی۔ اس میں اونچے اونچے کتابوں کے شلیف تھے جن کی لکڑی کو سنہری رنگ میں رنگا گیا تھا۔ علم کی ہر شاخ کیلئے الگ کمرہ تھا۔ لائبریری کی نگہداشت ایک خازن اور ناظم کرتا تھا۔ صرف سکالرز کو یہاں آنے کی اجازت تھی۔
ابوالفضل ابن العمید لائبریری:
ابن العمید بووید حکمراں رکن الدولہ(م976) کا وزیر اور مسلمہ سکالر بھی تھا اس لئے اس کا لقب جاحظ ثانی تھا۔ اس کا کتب خانہ بھی شیراز میں واقع تھا جس کا ڈائریکٹر فلاسفر اور مؤرخ ابن مسکاویہ (932-1030) تھا۔ ابن مسکاویہ کئی وزراء سلطنت کا مشیر اور لائبریرین رہ چکا تھا۔(9) ۔
عضد الدولہ کا ایک وزیر ابوالقاسم اسماعیل (صا حب ابن العباد) تھا جس کی شاندار ذاتی لائبریری تھی۔ وہ نہ صرف کتابیں جمع کرنے کا شوقین تھا بلکہ اس کی محفل میں شاعر، ادیب اور مباحثہ کرنیوالے جمع رہتے تھے۔ عنفوان شباب میں وہ ابن العمید کاجلیس تھا اسلئے اس کو صا حب کہتے تھے۔ ابن العمید (م970) کی وفات کے بعد اس کو وزیر سلطنت کے عہدے پر متمکن کر دیا گیا۔ جب سمانید حکمراں نوح ابن منصور (954) نے اس کو وزرات کا منصب پیش کیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری لائبریری اتنی بڑی ہے کہ اس کو 400 اونٹوں پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔
طوس کی لائبریری:
طوس ایران کا قدیم ترین شہر ہے جہاں سلجوقی وزیر نظام الملک، نصیرا لدین طوسی اور فردوسی جیسے یگانہ روزگار پیدا ہوئے۔ طوس لائبریری کو ابو علی حسن ابن علی طوسی نظام الملک (1092) نے قائم کیا تھا جو مدرسہ نظامیہ بغداد کا بانی تھا۔
مرکزی لائبریری آستانہ قدس رضوی مشہد:
یہ حضرت امام رضاؒ (818) کے مزار کے ساتھ ملحق تھی۔ اس کی بنیاد 974 میں رکھی گئی تھی۔ یہاں قرآن، حدیث، فلاسفی، منطق اور فقہ پر مسودات کے شہ پارے محفوظ ہیں۔ فہرست کتب خانہ آستانہ قدس رضوی متعدد جلدوں میں ہے۔ یہاں 1.1ملین کتابیں ، ہزاروں قلمی نسخے، اور اسلامی تاریخ کے قدیم شہ پارے ہیں۔ علی ابن سیم جور نے 974 میں بہت ہی پرانا قرآن روضہ امام رضاؒ کو عطیہ کیا تھا. مرکزی لائبریری کی اب 35 مزید شاخیں ہیں۔ یہ اسلامی علوم کی تحقیق کا عالمگیر نامور ادارہ ہے.
طرابلس کی لائبریری:
شیعہ خاندان بنو عمار کے دور حکومت میں طرابلس علم کا گہوارہ تھا۔ بلکہ شہر علم و ادب کا مینارہ نور تھا۔ حسن بن عمار نے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ کتب خانہ تھا جہاں کئی علما و فضلا نے جنم لیا ۔ طرابلس کو دارالعلم کہا جاتا تھا جہاں 180 کاتب ملازم تھے جن میں سے 30 شب و روز کتابیں نقل کرتے تھے۔ اندازاََ یہاں 130,000 مسودات تھے جن میں پچاس ہزار قرآن اور بیس ہزار تفاسیر تھیں۔ صلیبیوں کے شہر فتح کرنے پر کتب خانے پامال کر دئے گئے۔
حلب Aleppo میں بنو ہمدان کے حکمران سیف الدولہ نے شہر میں کتب خانہ تعمیر کروایا۔ اس کا مشیر سائنسدان ابو نصر محمد ابن فارابی (872-950) تھا اور مدیر لائبریرین محمد ابن ہاشم تھا۔
سمر قند اور بخارا کی لائبریری:
سمر قند (ازبکستان) کو کتابوں کی تاریخ، ان کی تشہیر اور تحفظ میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں پیپر مِل ۷۵۱ میں بنی ہوئی تھی۔ کاغذ کی فراوانی سے کتابیں لکھنا نہ صرف آسان ہوگیا بلکہ علم کی اشاعت دور دور تک ہو گئی۔ خواجہ نصیر الدین طوسی کی خواہش پر ہلاکو خان نے آذر بائیجان میں رصدگاہ تعمیر کروائی جس کے ساتھ پرشکوہ لائبریری بھی تھی جس میں مسلم اور چینی سکالرز شانہ بہ شانہ تحقیق میں مصروف رہتے تھے۔ سقوط بغداد (1258ء) کے بعد سینکڑوں کتابیں بغداد سے اٹھا کر یہاں لائی گئیں تھیں۔ سمر قند اور بخارا سمانید سلطنت (819-999) کے کلچرل سینٹرز تھے۔ امام بخاری (870) بخارا کے ہی رہنے والے تھے۔ سمانید حکمران نوح ابن منصور (r976-997) نے بخارا میں عالی شان کتب خانہ تعمیر کروایا تھا۔ ابن سینا (1037) نے اس کتب خانے کی کتابوں سے اکتساب فیض کیا تھا جس کا احوال ابنِ خلکان (1282) کی وفیات الاعیان میں دیا ہے.
احسان مسعود کے بقول بخارا میں ایک پبلک لائبریری تھی جہاں سکالرز کسی وقت بھی جاسکتے اور لائبریرین سے کہہ سکتے کہ ہمیں فلاں کتاب درکار ہے اور پھر وہاں بڑے کشادہ ہال میں بیٹھ کر نوٹس لکھ سکتے تھے (12)
غزنی کی لا ئبریری:
سلطان محمود غزنوی (r998-1030) کی لائبریری دنیا کی بہترین لائبریریوں میں سے ایک تھی۔ سلطان محمود نے غزنی کو ہندوستان سے لوٹ مار کر کے متمول شہر بنا دیا تھا۔ باوجودیکہ وہ انتہائی جنگجو حکمران تھا مگر اس کے ساتھ وہ علما و فضلا کا قدر دان اور ان کی سرپرستی کرتا تھا۔ البیرونی، الفارابی، فردوسی جیسے علم کے پروانے اس کے دربار کے جگمگاتے ہوئے ستارے تھے۔ سینٹرل ایشیا کے جگادری شاعر اسدی، عنصری، عادری، پھر دو مشہور مؤرخ عتبی اور بیہقی اس کے دربار میں شب و روز اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔ غزنی میں ایک لائبریری، میوزیم اور جامعہ وقف کی رقم سے چلتے تھے۔ سلطان نے جب رے پر قبضہ کیا تو صاحب ابن العباد کی تمام کتابیں غزنی بھجوا دیں جو 400 اونٹوں پر لادی گئیں تھیں۔ مجدالدولہ کی کتابیں 50 اونٹوں پر غزنی بھیجی گئیں تھیں۔
اسلامی سپین کی لائبریریاں:
سپین میں قرطبہ اسلامی سلطنت کے ماتھے کا جھومر تھا۔ شہر 24 میل لمبا اور 10 میل چوڑا تھا۔ یہاں 380 مساجد، 800 مدرسے، اور 70 پبلک لائبریریاں تھیں۔ یہ یورپ کا کلچرل اور انٹلیکچوئیل سینٹر تھا۔ اس کا ایک نام کتابوں کے عاشقوں کا شہر تھا ۔ قرطبہ کی سوسائٹی میں جن افراد کے ذاتی کتب خانے تھے ان کو اہم شخصیت مانا جاتا تھا۔ بک شیلف صندل کے ہوتے تھے جن کے باہر کتابوں کی فہرست چسپاں ہوتی تھی۔ قرطبہ مسجد کی لا ئبریری سب سے بڑی تھی جس میں چار ہزار طلباء تحصیل علم کرتے تھے۔ دارلکتابت میں جلد سازوں کے علاوہ کاتب شب و روز کتابت میں مصروف رہتے تھے۔ شہر میں کتابوں کی خاص مارکیٹ تھی۔ خلیفہ الحکم ثانی (r961-976) کی بے نظیر لائبریری تھی۔ وہ ایک تسلیم شدہ عالم و فاضل تھا جس نے 27 مفت مدرسے بنائے، جامعہ قرطبہ میں چئیرز قائم کیں۔ اس کے گماشتے کتابوں کی تلاش میں مصر، شام، عراق کے کتاب بازاروں کو کھنگالتے رہتے تھے۔ اس کے شاہی محل میں جو ذاتی لائبریری تھی ان کی متعدد مکتب کا وہ مطالعہ کر چکا تھا کیونکہ ان کے حاشیوں میں نوٹس لکھے ہوتے تھے۔ ایران میں لکھی کتابیں اس کے نام سے منسوب کی جاتی تھیں۔ لائبریری ملازمین جن میں کئی خواتین تھیں کتابوں کو نقل کرتی تھیں جبکہ جلد ساز ان کی جلدیں بناتے اور کیلی گرافرز ان کے سرورق کے ڈیزائن بناتے۔
ابو الفرج اصفہانی کو خلیفہ کے حکم پر ایک ہزار دینار بھیجے گئے تا وہ اپنی تصنیف کتاب الاغانی سب سے پہلے سپین بھیج دے۔
الحکم کی لائبریری کی شہرت کی بناء پر اس کے مشیروں میں مقابلہ رہتا تھا کہ وہ باصلاحیت لائبریرینز اور سکالرز کو مدعو کریں ۔اس شاندار لائبریری کی مہتمم قرطبہ کی خاتون لبنیٰ (984) تھی جس میں چار لاکھ کتابیں اور اس کی فہرست 44 جلدوں پر مشتمل تھی ۔ لبنیٰ کے ذمہ کتابوں کے نقول تیار کرنا، تراجم کروانا اور نئی کتب لکھوانا تھا۔ بعض مؤرخین کے مطابق قرطبہ میں 170 عورتیں ہمہ وقت کتابت کا کام کرتی تھیں جس سے اس روشن خیال خلیفہ کے دور میں عورتوں کا معاشرتی مقام ظاہر ہوتا ہے۔ جب الحکم پر علما کرام نے پریشر ڈالا کہ وائن (شراب کی ایک قسم) کو ممنوع قرار دیا جائے تو اس کے خازن نے یاد دہانی کرائی کہ وائن پر گناہ ٹیکس سے قرطبہ لائبریری کی نئی عمارت کی تعمیر کا خرچ ادا ہو رہا ہے۔
ہر بڑے شہر طلیطلہ، اشبیلیہ، غرناطہ میں وسیع کتب خانے تھے۔ جرجی زیدان کا کہنا ہے کہ غرناطہ میں 137 مدرسے اور 70 لائبریریاں تھیں۔ مؤرخ ابو العباس احمد المقری (1632) کا کہنا تھا کہ اہل اندلس لائبریریوں میں دنیا پر سبقت لے گئے ہیں۔ شہر میں کئی صاحب ثروت ایسے تھے جو اگرچہ نا خواندہ ہوتے تھے مگر گھروں میں کتب خانے ہونے پر وہ فخر و انبساط محسوس کرتے تھے۔ڈچ عربک سکالر ڈوذی (1883) Rheinart Dozy کا کہنا ہے کہ اندلس میں ہر شخص پڑہنا لکھنا جانتا تھا جبکہ یورپ میں صرف پادری اور اشراف پڑہنا لکھنا جانتے تھے جبکہ باقی لوگ جاہل مطلق تھے ۔ (15)
امریکی مؤرخ رچرڈ ایرڈوز Erdose لکھتا ہے: “اندلوسیا سکالرز ، لائبریریز اور کتابوں کے عاشقوں اور جمع کرنیوالوں کی سرزمین تھی۔ قرطبہ میں بجائے خوبصورت داشتاؤں اور ہیرے جواہرات کے کتابیں مطلوب ہوتی تھیں۔ شہر کی شہرت اس عظیم لائبریری کی وجہ سے تھی جس کو الحکم دوم نے قائم کیا تھا۔ یہاں چار لاکھ کتابیں تھیں۔ہر کتاب کے پہلے صفحہ پر مصنف کا نام، تاریخ، مقام پیدائش اور اس کے اجداد کے علاوہ اس کی دیگر کتابوں کا ذکر ہوتا تھا۔ کتابوں کی فہرست 48 جلدوں میں تھی جس کی لگاتار ترمیم کی جاتی، نئے اضافے کئے جاتے ، کل کتابوں کے نام لکھے جاتے، اور ہدایت ہوتی کہ فلاں کتاب لائبریری میں کہاں پرموجود ہے”۔
Andalusia was, above all, famous as a land of scholars, libraries, book lovers and collectors…in Cordoba books were more eagerly sought than beautiful concubines or jewels…the city’s glory was the Great Library established by al-Hakam II…ultimately it contained four hundred thousand volumes…on the opening page of each book was written the name, date, place of birth and ancestry of the author, together with titles of his works, Forty eight volumes of catalogue incessantly amended, listed and described all titles and contained instructions on where a particular work could befound”( 16)
قرطبہ کا جج (قاضی) ابوالمعترف ابن فطیس عبد الرحمن کتابیں جمع کرنے میں سب پر سبقت لے گیا تھا۔ اس کی ملازمت میں چھ کاتب تھے۔ وہ کسی کو کتاب عاریتاََ نہیں دیتا تھا بلکہ اس کی نقل کروا کر تحفہ میں دے دیتا تھا۔ اس کی لائبریری میں اتنی بیش قیمت کتابیں تھیں کہ ان کے نیلام میں چالیس ہزار دینار موصول ہو ئے تھے۔ کئی خواتین سکالرز بھی تھیں جیسے پرنس احمد کی دختر جو غضب کی شاعر اور شعلہ نوا مقرر تھی۔شاہی کتب خانے میں ملازم کئی عورتوں نے شادیاں تک نہیں کیں اور محض کتابوں کی تلاش اور جمع کرنے میں مجرد زندگی گزار دی۔
اسلامی سپین کی لائبریریوں کا یورپ کی نشاة ثانیہ اورسائنس پر کیا اثر ہؤا؟ اس کا جواب Thomas Bokenkotter یوں دیتا ہے:
” قریب ایک سو سال کے عرصہ (1150-1250) ارسطو کی تمام کتابوں کے تراجم کئے جانے پر ان کو مغرب میں متعارف کیا گیا جن کے ساتھ ان کی شرحیں تھیں۔ یہ بذات خود ایک بہت بڑی لائبریری تھی۔ ان علوم کا جذب کرنا اور ان پر قدرت حاصل کرنا اس چیز نے عیسائیت کے ذہین ترین دماغوں کو مصروف رکھا اور اس کے ساتھ مغرب کی روحانی اور دانشی حیات کو قطعی طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ (ارسطو) پر ابن سینا اور ابن رشد کی یکتائے فن شرحیں جنہوں نے فلاسفر کی فکر کو غیر مذہبی اور غیر روحانی ہونا ثابت کیا، اس امر نے مغرب کے خرد مندوں کیلئے سنجیدہ بحران پیدا کر دیا۔ اس سارے کام کو عیسائی مذہب کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بہت دشوار کام تھا اس وجہ سے بے مثال دانشی سرگرمی کے دور کا آغاز ہوا جو تیرھویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچا خاص طور پر پیرس اور آکسفورڈ میں”۔ (17)
اسکوریال کی لائبریری:
اسلامی کتابوں کے بیش قیمت قلمی نسخے سب سے زیادہ یہاں پائے جاتے ہیں جو میڈرڈ سے 45 کیلومیٹر اسکوریال پیلس میں واقع ہے۔ اس کا سنگ بنیاد کنگ فلپس دوم نے بطور محل اور راہب خانے کے 1563ء میں رکھا تھا ۔ دوسری منزل پر ایسی کتابیں ہیںجن کو کیتھولک مذہبی عدالت Inquisition نے ممنوع قرار دے دیا تھا۔ انکوئے زیشن میں ستر ہزار اسلامی کتابیں نذر آتش کی گئیں تھیں۔ جو بچ گئیں ان میں سے 1800 عربی کے قلمی نسخے یہاں موجود ہیں جو مسلمانوں کے سپین سے انخلاء پر حاصل کئے گئے تھے۔
ہندوستان کی لائبریریاں:
مغلیہ دور سے قبل سلاطین ہند (1206-1526) ہندوستان کے فرماں روا رہے تھے۔ رضیہ سلطان (r1236-40) خاندانِ غلاماں میں سے تھی جو دہلی سلطنت کی حکمران بنی. وہ ہندوستان کی پہلی خاتون سلطان تھی۔ رضیہ ارباب علم و فضل کی سرپرستی کرتی تھی اس نے شمالی ہندوستان میں مدرسے اور کتب خانے قائم کئے۔ رضیہ کو عالم نواز کا لقب مولانا منہاج سراج جزجانی نے دیا تھا جو 23 جلدوں پر مشمول طبقات ناصری (1260) کے مصنف تھے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی میں تمام سلاطین اور امراء کی اپنی نجی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جہاں وہ دن کا کچھ حصہ گزارتے تھے۔ ایسے کتب خانے محل کے اندر یا پھر مسجد سے ملحق ہوتے تھے۔ (18).
سلطان علاءالدین خلجی (d1296) نے دہلی میں شاہی لائبریری قائم کی اور ممتاز صوفی سکالر امیر خسرو کو اس کا لائبریرین مقرر کیا ۔ لائبریری کے ناظم کا عہدہ حکومت کا اہم آفیسر سمجھا جاتا اور اس کی عزت و شہرت ہوتی تھی۔
نظام الدین اولیاء (1325) نے اپنی درگاہ میں لائبریری قائم کر رکھی تھی جس کیلئے عطیات عوام سے ملتے تھے ۔ یہاں کثیر تعداد میں مسودات تھے۔
مغلیہ دور کی لائبریریاں:
تقریباً تمام مغل حکمران کتابوں کے رسیا تھے اور ذاتی لائبریریوں کیلئے نادر نسخے جمع کر کے رکھتے تھے۔ مغلیہ دور میں پہلا کتب خانہ ظہیرالدین بابر (d1531) نے قائم کیا تھا. اس کی لائبریری دہلی کے شاہی محل میں واقع تھی جس کو بعد میں آنیوالے حکمرانوں نے بھی توسیع دی۔ ہندوستان پر حملے کے وقت وہ اپنے ہمراہ کئی نادر کتابیں بھی ساتھ لایا جن میں بعض پینٹنگز کی کتابیں تھیں۔ بابر کا اصل وطن مالوف ازبکستان علماء اور دانشوروں کا منبع و مرجع تھا۔ سمرقند، فرخانہ، خراسان اور ہیرات علم و ہنر کے مراکز تھے جہاں علما دور دور سے علم کی پیاس بجھانے آتے تھے۔ اس کے شاہی دربار میں بہت سے سکالرز تھے۔ بابر کو خود بھی کیلی گرافی کا بہت شوق تھا۔
مغل حکمرانوں کے کتب خانوں میں فارسی ادب اور سائنسی کتابیں بہت پائی جاتی تھیں۔
بابر کا ولی عہد نصیر الدین ہمایوں (1556) بھی عمدہ کتابیں جمع کرنے کا شوقین تھا۔ پرانے قلعے دہلی میں شیر منڈل عمارت تھی جس کی دوسری منزل پر اس کا کتب خانہ قائم تھا. یہ عمارت بطور رصد گاہ بھی استعمال میں رہی۔
جلال الدین اکبر (1605) نے دادا کی لائبریری کو مزید منظم کیا۔ ایرانی ماں کی طرف سے اس کو ادب اور فنون لطیفہ سے بے حد لگاؤ ملا تھا۔ اس نے لائبریریوں کا ایک الگ سے محکمہ قائم کیا جو کتابوں کو حاصل کر کے ان کو جدید خطوط پر محفوظ کرتا تھا۔ فتح پور سیکری میں اس نے خواتین کی تعلیم کیلئے کتب خانہ قائم کیا اور ایک بڑی لائبریری آگرہ قلعہ کے کشادہ ہال میں قائم کی ۔ اکبر کی لائبریری میں 24,000 مسودات تھے ۔ فتح پور سیکری میں دیوان خانہ میں ترجمہ کا دفتر بنایا گیا جس کا نام مکتب خانہ تھا۔ ہر مصنف پر لازم تھا کہ وہ اپنی تصنیف کی ایک کاپی شاہی کتب خانے کو ارسال کرے۔ کئی کتابیں اس نے مہموں کے دوران حاصل کیں مثلاً گجرات کی فتح پر اعتماد خاں گجراتی کی تمام کتابیں دہلی بھیج دی گئیں جن میں سے کچھ اس کے نو رتنوں کو عطا کی گئیں. جیسے عبدالقادر بدایونی کو امام غزالیؒ کی مشکوة الانوار عطا کی گئی تھی۔ جب نو رتن شیخ ابو الفیض فیضی کی وفات ہوئی تو اس کے پاس 4,600 کتابیں تھیں. یہ کتابیں اسٹرالوجی، اسٹرانومی، میتھ، تفسیر، حدیث اور فقہ پر تھیں۔ یورپین پادریوں Jesuits نے بھی جلال الدین اکبر کو یورپین کتب لا کر دی تھیں. (19).
اکبر کے دربار میں متعدد ارباب علم وفضل، قابل آرٹسٹ اور اس کے خاص نو رتن جمع تھے۔ متعدد کتابوں کے تراجم کئے گئے۔ ترکش، سنسکرت اور عربی سے مذہبی کتب فارسی میں ترجمہ کی گئیں۔ چوبیس ہزار کتابوں کی فہرست تیار کی گئی جس کیلئے اس نے کتابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ خواتین کیلئے لائبریری کا الگ قیام عمل میں لایا گیا۔(20).
مرزا نورالدین جہانگیر (1627) نے ریاضی، سائنس اور لسانیات میں تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ وہ خود بھی قلمکار تھا. اس نے اپنی خود نوشت سوانح تزک جہانگیری (جہانگیر نامہ) قلمبند کی تھی۔ اجداد سے ملنے والی لائبریری کو اس نے توسیع دی اور اس کیلئے آرٹ ورک خریدا۔ نئے مدرسے اور کتب خانے تعمیر کروائے۔ اس نے قانون بنایا کہ اگر کوئی متمول شخص ورثاء کے بغیر وفات پاجائے تو اس کی دولت راہب خانوں اور مدرسوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اس کی لائبریری میں 60,000 کتابیں تھیں جس کا ناظم مکتوب خاں تھا۔
شہاب الدین خرم شاہجہاں (1666) کے دور حکومت کو مغل فنِ تعمیرات اور علم و آگہی کا دور کہا جاتا ہے۔ اپنے باپ کی طرح شاہ جہاں بھی ارباب فن و کمال کا سرپرست تھا۔ اس کے دربار میں کیلی گرافرز کی بڑی تعداد جمع رہتی تھی۔ اس کی لائبریری میں مختلف علوم پر کتابیں تھیں جیسے ریاضی، جغرافیہ، طب، علم نجوم، منطق، تاریخ اور زراعت۔
لاہور، دہلی، جون پور، احمدآباد علم و فیض کے مراکز تھے۔ دانشوروں کے اپنے ذاتی کتب خانے بھی تھے. مثلاً ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کی لائبریری میں نادر الوجود مسودات موجود تھے۔
محی الدین اورنگ زیب عالمگیر (d1707) علماء اور دانشوروں کی محفل میں رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ صغر سنی سے ہی کتابوں کا شوقین تھا۔ شرعی مقدمات کیلئے اورنگ زیب نے ۵۰ ممتاز علماء دین کا بورڈ تشکیل دیا تا کہ وہ حنفی فقہ کے مطابق فتاویٰ کا مجموعہ تیار کریں۔ اس بورڈ کے مدیر اعلیٰ ملا نظام تھے۔ اس مقصد کیلئے تمام ریفرنس بکس شاہی کتب خانہ سے فراہم کی گئی تھیں. کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد کتاب فتاویٰ عالمگیری تیار ہوئی جو عرب ممالک میں فتاویٰ ہندیہ بھی کہلاتی ہے۔ بعض کتب مولانا حبیب الرحمن شیروانی (شعبہ حبیب گنج ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دستیاب ہیں۔ وہ بذات خود اچھا قلمکار اور خوش نویس تھا۔ اس وقت سیالکوٹ کاغذ سازی کا گڑھ بن چکا تھا اور یہاں پر شوکت لائبریری قائم تھی۔
مغلیہ دور حکومت میں بہت سی خاتون شعراء و مصنفین بھی تھیں جو کتابوں کی شوقین تھیں جیسے ماہم اننگ (1562)، گل بدن بیگم (1603)، ممتازمحل (1631)، سلیم سلطانہ بیگم (1612)، نور جہاں بیگم (1645) وغیرہ.
گل بدن بیگم مغل شہزادی تھی جو فارسی اور ترکی دونوں زبانوں میں شعر کہتی تھی۔
زیب النساء کی لائبریری :
مغل شہزادیاں کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کی بے حد شوقین تھیں۔ اورنگ زیب کی بڑی بیٹی زیب النساء (1638-1702) کو باقاعدہ طور پر مذہبی امور و عقائد کے متعلق تعلیم دی گئی تھی۔ وہ عالمہ اور ادبی شخصیت تھی. نغمے لکھنے اور گانے کے علاوہ اس نے کئی خوبصورت باغات بھی تعمیر کروائے۔ اس کے دربار میں ایک ادبی اکیڈیمی تھی جس کا نام بیت العلوم تھا ۔ یہاں سکالرز نئی کتابیں لکھنے اور تحقیق پر مامور تھے۔ کتابیں اس کے نام سے منسوب کی جاتی تھیں۔ اس کی شاعری کے مجموعہ 'دیوان مخفی' میں421 غزلیں تھیں۔ اس کی مزید تالیفات میں مونس الروح، زیب المنشات، زیب التفاسیر شامل ہیں.
عبد الرحیم خان خاناں لا ئبریری:
مغلیہ دور حکومت میں اشرافیہ، اعیان ریاست اور ممتاز افراد کی اپنی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں۔ دہلی میں عبد الرحیم خان خاناں (1627) کی پرورش شہنشاہ جلال الدین اکبر کے گھرانے میں ہوئی تھی۔ وہ پانچ زبانوں پرقدرت رکھتا تھا بشمول پرتگیزی کے۔ اس نے ‘بابر نامہ’ کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ اس کی مہتمم بالشان لا ئبریری تھی جس سے کئی نامور ادیبوں اور دانشوروں نے اکتساب فیض کیا تھا۔ اس کی لائبریری سے ملنے والی کتابیں رضا لائبریری رامپور، خدا بخش لائبریری پٹنہ اور ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہیں۔
شہنشاہ جہانگیرکا بیٹا شہزادہ خسرو (1622) کتابوں کا رسیا تھا۔
شاہجہاں کا بیٹا دارا شکوہ (1659) بھی اعلیٰ مصور اور آرٹس کا دلدادہ تھا. اس کی مصوری کے شاہ پارے انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہیں.
دارا شکوہ کی قدیم لائبریری کی عمارت اس وقت گرو گوبند سنگھ اندرا یونیورسٹی کشمیری گیٹ دہلی میں واقع ہے۔ وہ ایک عالم فاضل اورماہر ترجمہ نگار تھا۔ اس نے وید کے 50 اپنشد کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا جس کا نام اس نے سر اکبر رکھا ۔ مجمع البحرین اس کی شاہکار کتاب ہے جس میں اس نے ویدانتا فلاسفی اور صوفی ازم میں مشترک باتوں کو اکٹھا کیا تھا۔
لکھنؤ، دریا باد، مرشد آباد، بلگرام کے ارباب علم و سخن کے یہاں بڑے بڑے کتب خانے تھے۔ عوام مساجد کو کتابیں عطیہ میں دیتے تھے جس سے مساجد پبلک لائبریریاں بن گئیں تھیں۔
ٹیپو سلطان کی لائبریری:
میسور کے ٹیپو سلطان (1752-1799) کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں میں قابلیت پہچان لیتا تھا۔ اس نے لبرل ایجوکیشن کیلئے درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ ایک بڑی لائبریری تھی جہاں کتابیں بیجاپور، گولکنڈہ، چیتور، ساوانور، اور کاڈاپا سے لائی گئیں تھیں۔ تمام کتابوں کی جلد چمڑے کی تھی۔ ملٹری آفیسرز کیلئے ٹریننگ کالج کی اپنی نفیس لائبریری تھی۔ سرنگا پٹم کے کالج جمیع الامور میں مذہب، سیاست اور دیگر امور پر کتابیں موجود تھیں۔ ٹیپو سلطان کی ذاتی لائبریری میں دو ہزار سے زائد کتابیں تھیں۔ 29 دسمبر 1786 کو اس کو یورپ سے ایک کتاب ملی جس میں تھرما میٹر کے متعلق معلومات لکھی گئی تھیں۔ اس نے حکم دیا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ کر کے اس کو پیش کیا جائے۔ ہر کتاب کے مطالعہ کے بعد وہ اس پر ”سلطنت خداداد” اور اپنے نام 'ٹیپو سلطان' کی مہر لگواتا تھا۔ اس کے کتابوں کے مجموعہ میں ایک نادر قرآن تھا جس کی کتابت اورنگ زیب عالمگیر نے خود کی تھی جسے بعد میں برٹش رائل لائبریری ونڈسر کاسل میں بھیج دیا گیا۔ برطانوی فوج کے خلاف لڑائی میں جب سلطان کو 1799 میں شکست ہوئی تو دو ہزار نسخے جن میں سے بعض کتب کی جلدوں پر بیش قیمت ہیرے جڑے تھے، برطانوی راج کے ہاتھ لگ گئے۔ 1838ء میں تمام عدیم المثال کتابیں لندن میوزیم میں بھجوا دی گئیں۔
رضا لائبریری رامپور:
یہ لائبریری ہندی اسلامی ثقافت و تہذیب کا مخزن ہے جسکی بنیاد اٹھارویں صدی کے آخر میں رکھی گئی تھی۔ ریاست کے حکم