"عالمِ اسلام کی لائبریریاں"
_________________________
انگلش کا لفظ لا ئبریری لاطینی لفظ’’ لیبر‘‘سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ کسی بھی قوم کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کے لٹریچر اور کتابوں سے لگایا جاتا ہے۔ عہد وسطیٰ کے اسلامی دور میں کتابوں کی کیا اہمیت تھی، علم کے پھیلانے میں مسلمانوں نے کیا کردار ادا کیا، کتب خانوں کو کیا اہمیت حاصل تھی، مسلمان علماء و سائنسدانوں کی کیا قدر و قیمت تھی. مسجد صرف عبادت گاہ نہ تھی بلکہ یہاں علم کی تحصیل کی جاتی تھی جس کیلئے یہاں کتابیں مہیا ہوتی تھیں، مسلمانوں نے عہد رفتہ کی یونانی، سنسکرت اور فارسی لٹریچر کو کس طرح محفوظ کیا، ان کے تراجم کئے اور انہی تراجم سے لگ بھگ ساری دنیا علم کے نور سے منور ہوئی۔ یہ ہر دلعزیز داستان اس مضمون میں بیان کی گئی ہے۔
مسلمانوں نے کاغذ سازی کا فن موجودہ قرغستان میں آٹھویں صدی میں چینیوں سے سیکھا تھا (1)۔ اسلامی دنیا میں کاغذ کی پہلی فیکٹری 751 میں سمرقند میں تعمیر ہوئی۔ اس کے بعد مسلمان کاغذ کی ایجاد کو ہندوستان اور یورپ لے گئے۔ جلد ہی اس ایجاد کے طفیل بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں پبلک لا ئبریریاں قائم ہوئیں جہاں کتابیں کاغذ پر لکھی جانے لگیں۔ اسلامی دنیا میں لا ئبریریوں کے مختلف نام بھی تھے جیسے بیت الحکمۃ، خزانۃ الحکمۃ، دار الحکمۃ، دار العلم، دار لکتب، خزانتۃ لکتب، بیت الکتب اور ایران میں کتاب خانہ وغیرہ
مدارس کے علاوہ پبلک اور پرائیویٹ لا ئبریریاں بھی موجود تھیں۔ لا ئبریری کے مختلف عہدیدار یعنی ناظم، مہتمم، صحاف، ورق، جلد ساز، نقاش، خوشنویس، مقابلہ نویس، مصح (پروف ریڈر) اور کاتب وغیرہ بھی تھے.
پہلی اسلامی لائبریری کی بنیاد اموی خلیفہ معاویہ ابن ابی سفیان (602-680) نے دمشق میں رکھی تھی۔ ان کی ذاتی لا ئبریری کا نام بیت الحکمۃ تھا جس میں آنیوالے ادوار میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس دور میں کتاب کی انڈسٹری کا محور مسجد ہوتی تھی۔ چھوٹی لائبریریاں تمام کی تمام مسجدوں کا حصہ تھیں جن کا مقصد یونانی، پہلوی اور سنسکرت لٹریچر سے عربی میں نقول تیار کرنا تھا۔ عالمی سیاح ابن بطوطہ (1368)کے بقول دمشق میں کتابوں کا بازار جامع مسجد سے قریب تھا جہاں کتابوں کے علاوہ چمڑہ، گتا، گوند، عمدہ کاغذ، قلم، روشنائیاں فروخت ہوتی تھیں۔
اکثر متمول مسلمان اپنی لائبریریاں مساجد کو وقف کر دیتے تھے۔ مسجد امام ابو حنیفہ کی بغداد میں لا ئبریری کافی بڑی تھی۔ مؤرخ واقدی(م822) نے ورثہ میں اتنی کتابیں چھوڑیں جو 600 شیلفوں میں سما سکتی تھیں۔ امام احمد بن حنبل (م855) کی کتابوں کی تعداد اتنی تھی کہ ان کو لے جانے کیلئے بارہ اونٹوں کی ضرورت تھی۔ اسی طرح علامہ زمخشری نے اپنی ذاتی کتابیں مسجد کو دے دی تھیں. ایک شیعہ سکالر جرودی ذیدی اپنی لا ئبریری کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا تھا جس کیلئے چھ سو اونٹوں کی ضرورت پڑی اور اس کی قیمت ایک سو دینار تھی۔ (2)
عہد وسطیٰ کے دور میں اسلامی دنیا کی تین عظیم الشان لائبریریاں بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں قائم ہوئی تھیں۔ دسویں صدی عیسوی میں مزید لائبریریوں کی بصرہ، بغداد، دمشق، اصفہان، نیشاپور ، قاہرہ میں بنیاد رکھی گئی۔
ابن الندیم نے ان کی کچھ تفصیلات "کتاب الفہرست" میں، ابن القفطی نے "تاریخ الحکماء" میں ، ابن ابی اصیبعہ نے "عیون الانباء" میں اور ابنِ جلجل نے "طبقات الاطباءوالحکماء" میں دی ہیں ۔ ان کتابوں میں مختلف قومیتوں، نسلوں کے مسلم سائنسدانوں اور فلاسفروں کے سوانحی حالات اور ان کی کتابوں کا تذکرہ و تفصیلات ملتی ہیں.
اسلامی دنیا کی مشہور بڑی لائبریریوں کا احوال پیشِ خدمت ہے :
القرویین لائبریری مراکش:
یہ دنیا کی قدیم ترین لائبریری ہے جس کی بنیاد فیض مراکش میں 859ء میں فاطمہ الفھریہ نامی خاتون نے رکھی تھی. یہ لائبریری نہ صرف قدیم ترین ہے بلکہ آج تک علم کے متلاشی افراد کو فیض یاب کر رہی ہے. جامعہ القرویین قدیم ترین ڈگری دینے والی یونیورسٹی ہے۔ فاطمہ ایک تعلیم یافتہ سکالر اور عبادت گزار خاتون تھی. اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ورثہ میں ملنی والی دولت سے فروغ تعلیم کے ساتھ رفاہی کام کرے گی جس کیلئے اس نے ایک مسجد اور مدرسہ و لائبریری کی بنیاد رکھی۔ اس لائبریری میں دینیات، قانون، گرائمر اور اسٹرانومی پر دستی نسخے موجود تھے جن میں سے کچھ ساتویں صدی کے تھے۔ یہاں پر نویں صدی کا کوفی رسم الخط میں لکھا ایک قرآن، ابن رشد کی مالکی فقہ پر لکھی کتاب کا قلمی نسخہ اور ابن خلدون کا تاریخِ مقدمہ موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے کمپلیکس میں اضافے کئے گئے اور اب یہاں جدید طرز کی ایک مسجد، لائبریری اور یونیورسٹی ہے۔ ابن العربی نے بارھویں صدی میں یہاں تعلیم حاصل کی تھی اس کے علاوہ علمِ بشریات کے بانی ابن خلدون نے بھی یہاں چودھویں صدی میں تعلیم حاصل کی تھی (3)۔
عہد وسطیٰ میں القرویین اور یورپی درسگاہوں کے درمیان علم کی منتقلی کا عمل سر انجام پایا تھا۔ صدیوں گزرنے پر چونکہ اس کی عمارت بہت بوسیدہ ہو چکی تھی اور اس میں موجود قلمی نوادرات دسترس سے باہر تھے لہزا کچھ سال قبل مراکش کی حکومت نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی پروفیسر عزیزہ چاؤنی کو ہائر کیا اور انہیں لائبریری کی عمارت کو مرمت کر کے جدید طرز پر تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ پرانے نادر مسودات کو اب ڈیجیٹائز بھی کیا جا رہا ہے اور بیس فیصد لٹریچر اب الیکٹرونک صورت میں بھی موجود ہے۔ لائبریری میں کلائمیٹ کنٹرول سسٹم بھی لگایا گیا ہے جس کا افتتاح مئی 2016ء میں ہوا تھا.
یورپ میں اس وقت برلن، ڈبلن، لیڈن، اسکوریال، لندن، آکسفورڈ اور پیرس کی لائبریریوں میں موجود عربی مسودات بھی پائے جاتے ہیں. یہ مسودات یا تو مسلمان حکمرانوں سے خریدے گئے، یا تحفوں کی صورت میں ملے، یا سرقہ، یا کتابوں کی نقل اور یا پھر جنگوں کے دوران حاصل کئے گئے تھے۔
بیت الحکمۃ بغداد :
آٹھویں صدی کے بیت الحکمۃ بغداد میں لائبریری، دار الترجمہ، رصدگاہ، اور سائنس دانوں کیلئے قیام گاہیں موجود تھیں۔ یحییٰ بن خالد برمکی نے ہندو سکالرز کو یہاں مدعو کرکے سنسکرت کتابوں کے تراجم کروائے۔ ابوسہل اور ابوالفضل بن نو بخت یہاں کے مشہور مترجم مانے جاتے تھے۔ یہاں کی لائبریری میں ہر موضوع اور ہر زبان کی کتابیں رکھی گئی تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے غیر ممالک میں اپنے نمائندے بھجوائے تا کہ وہ نایاب کتب خرید کر یہاں بھجوائیں چنانچہ سنسکرت، فارسی اور قبطی کتابیں بغداد میں لائی گئیں۔
لا ئبریری سے ملحق دارالترجمہ تھا جہاں ترجمہ نگار عربی میں کتابوں کو منتقل کرتے تھے۔خلیفہ المامون (833) کے دورِ حکومت میں قبلِ اسلام کی شاعری، سرکاری مسودات و خطوط اور معاہدوں کو حاصل کیا گیا۔ مثلاََ قرض کا معاہدہ جس پر حضرت محمد کے محترم دادا جناب عبد المطلب بن ہاشم کے دستخط تھے۔ اسی طرح خلیفہ مامون نے سسلی و بازنطین سے بھی کتب منگوائیں بلکہ امن کے معاہدوں میں ایک شق یہ ہوتی تھی کہ مطلوبہ مسودات بغداد بھجوانے جائیں گے. سہل بن ہارون لائبریری کا منتظم اعلیٰ اور بہترین ترجمہ نگار تھا۔ ابن ابی ہریش یہاں کا جلد ساز تھا۔ بیت الحکمۃ میں ممتحن کے علاوہ کاتب، ترجمہ نگار، ہئیت دان اور سائنسدان بھی ہوتے تھے۔ سرکاری کتب خانوں کے علاوہ لوگوں کے ذاتی کتب خانے بھی تھے۔
یحییٰ بن خالد برمکی کی لائبریری:
خلیفہ ہارون الرشید کے چہیتے وزیر یحیےٰ بن خالد برمکی کی ذاتی لائبریری یونانی، قبطی، سنسکرت اور فارسی کتب سے مزین تھی۔ ہر کتاب کے تین نسخے بنائے گئے تھے۔ اس کے مشورہ پر خلیفہ نے بدھ مت کے سکالرز کو بغداد آنیکی دعوت دی جنہوں نے کتاب البدھ لکھی۔ اسی طرح یعقوب ابن اسحق الکندی (866) کی ذاتی لائبریری بھی تھی جس کو بنو موسیٰ براران نے ضبط کروا دیا تھا مگر بعد میں صلح ہونے پر اس کو واپس کردی گئی تھی۔
خلیفہ المتوکل (861) کے ایک دوست فتح ابن خاقان (861) کی لائبریری کا مہتمم (صا حبِ خزانتہ الکتب) علی ابن یحییٰ منجم تھا جو کہ مشہور ہئیت دان تھا. ابن خاقان اپنے دور کا سب سے بڑا کتابوں کا رسیا تھا(4)۔ ابو عثمان ابن جاہیز نے بھی اس لائبریری کیلئے خاص کتابیں قلمبند کی تھیں۔ علی ابن یحییٰ (888) کی ذاتی لائبریری کا نام خزانۃ الکتب تھا۔ یہاں سے بہت ساری کتابیں اس نے ابن خاقان کی لائبریری کو تحفہ میں دی تھیں. جو علماء و سکالرز یہاں مطالعہ و تحقیق کیلئے آتے ان کے اخراجات بھی یحییٰ خود برداشت کرتا تھا۔ مشہور منجم ابو معشر الفلکی خراسان سے حج روانہ ہوا تو اس بے مثال لائبریری سے اکتساب کرنے یہاں آیا.
اسحق موصلی کی لائبریری:
اسحق ایک باکمال اور مشاق موسیقار، محدث اور عربی گرائمر کا ماہر تھا۔ بغداد میں اس کی لائبریری میں بے مثال کتابیں تھیں۔ ابوالعباس ثعالب نے ایک ہزار رسائل دیکھے جو اسحاق موصلی مطالعہ کر چکا تھا۔
صبو ر بن اردشیر کی لائبریری:
صبور بن اردشیر (991) نے یہ لائبریری بغداد کے محلہ کرخ میں قائم کی جس کا نام دار العلم تھا۔ جرجی زیدان کے بقول یہاں دس ہزار مسودات تھے۔ ہر مصنف کتاب کا ایک نسخہ یہاں عطیہ میں دیتا تھا۔ یہاں قرآن مجید کے ہاتھ سے لکھے ہوئے 100 نسخے موجود تھے۔ بغداد کے نامور اہلِ سخن یہاں جمع ہوتے اور بحث و مباحثہ میں شامل ہوتے۔ حلب (شام) کے نابینا شاعر اور فلاسفر ابولعلیٰ المعری نے بھی اس کتب خانے سے استفادہ کیا، بلکہ جب بھی وہ بغداد آتا زیادہ وقت یہیں گزارتا تھا (5)۔
محمد بن حسین البغدادی لائبریری:
اس لائبریری میں بے مثل مسودات اور نادر مخطوطے تھے۔ ماسوا چند انتہائی فاضل سمجھے جانے والے علما کے اور کسی کو بھی یہاں داخلے کی اجازت نہ تھی۔ ابن ندیم نے 'کتاب الفہرست' میں اس کتب خانے کی تفصیل مہیا کی ہے۔
بغداد کے راہب خانوں اور مدرسوں میں متعدد نفع بخش لائبریریاں تھیں۔ ان میں سے ایک مدرسہ نظامیہ تھا جہاں سلجوق وزیر نظام الملک طوسی (1092) نے اپنی تمام کتب جمع کرا دی تھیں۔ لائبریری کا ناظم علامہ ابو زکریا طبریزی تھا۔ یاد رہے کہ مدرسہ نظامیہ اسلامی دنیا کا پہلا باقائدہ کالج تھا۔
مستنصریہ مدرسہ لائبریری:
بغداد کی اس لائبریری کی بنیاد چھتیسویں عباسی خلیفہ المستنصر باللہ (1242) نے 1227ء میں دجلہ کے بائیں کنارے پر رکھی تھی۔ اس کا افتتاح پوری شان و شوکت سے کیا گیا۔ نامور سکالرز اور فقہاء کو یہاں لیکچرز دینے کیلئے مدعو کیا گیا۔ شاہی کتب خانے سے تمام کتابیں 130 اونٹوں پر لاد کر اس عالی شان لائبریری میں جمع کرائی گئیں۔ ان میں اسی ہزار نادر و نایاب مسودات تھے جن میں سے ایک مشہور تاریخ بغداد و مدینۃ الاسلام از ابو بکر خطیب بغدادی کا قلمی نسخہ بھی تھا۔ اس ضخیم کتاب کی 24 جلدیں ہیں جن میں 7831 سکالرز و علماء کی سوانحِ عمریاں بشمول جملہ مصنفین کے نام اور ان کی لکھی گئی کتابوں کے نام شامل ہیں۔ لائبریری کی عمارت کی دوبارہ مرمت و آرائش1961ء میں کی گئی تھی.
منگولوں کے 1258ء کے حملے میں اگرچہ دیگر لائبریریوں سے کتابیں دجلہ کی نذر کر دی گئیں اور دجلہ کا پانی روشنائی سے سیاہ ہو گیا مگر مستنصریہ لائبریری منگولوں کی یلغار سے محفوظ رہی۔ جب سلطنتِ عثمانیہ نے بغداد پر 1534ء میں قبضہ کر لیا تو شہر کے تمام محلات اور لائبریرز سے کتب استنبول کی امپرئیل لائبریری بھجوا دی گئیں۔ مستنصریہ لائبریری ویران ہوگئی مگر اسی نام کا مدرسہ بہرحال چلتا رہا اور اب وہی مدرسہ مستنصریہ یونیورسٹی میں بدل چکا ہے۔
عراق نیشنل لائبریری:
اس کی بنیاد 1920ء میں رکھی گئی تھی۔ عراق میں 1972ء میں 73 پبلک لائبریریاں تھیں۔ 2003ء کی عراق جنگ میں عراق نیشنل لائبریری کا بڑا حصہ عمدا ََنذر آتش کیاگیا اور اس کے چیدہ چیدہ ذخائر کولوٹ لیا گیا۔ تباہی سے قبل یہاں چار لاکھ کتابیں، 2600 رسائل، 4412 نادر مخطوطے تھے۔ لائبریری کو2007 کے بعد برٹش لائبریری کی مدد سے از سر نو تعمیر اور بحال کر دیا گیا۔
مصر کے کتب خانے:
قاہرہ کی لائبریریاں :
فاطمی خلفاء(909-1171) علماء اور کتابوں کے مربی اور ان کی سرپرستی کرتے تھے۔ خلیفہ العزیز باللہ بذات خود ایک زبردست عالم، شاعر اور کاتب تھا جس نے قاہرہ میں ایک لائبریری 'خزائنہ القصور' کی بنیاد رکھی جس کے اندر 40 کمرے کتابوں سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ یہاں چھ ہزار کتابیں ریاضی اور علم ہیت پر تھیں، اس کے علاوہ فقہ، گرائمر، حدیث، اسٹرانومی اور کیمسٹری پر بھی تھیں۔ تاریخ طبری کی 1200جلدیں ، خلیل احمد نہوی کی کتاب العین کی 30 جلدیں اور 2400 جلدیں قرآن مجید کی تھیں۔ بعض کتابوں کی جلد سنہری جن پر سلور پینٹنگ تھی.
یہاں دو گلوب تھے ایک چاندی کا اور دوسرا یونانی جو کہ ہیئت دان بطلیموس کے بنائے ہوئے تھے۔ اس کی وفات پر لائبریری الحاکم بامراللہ کے کتب خانے 'دار الحکمہ' میں ضم کر دی گئی۔ دار الحکمہ کے افتتاح کے موقع پر نامور فقیہ اور اطباء موجود تھے۔ وزیٹرز کو مطالعہ کے علاوہ کتابیں نقل کرنے کی اجازت تھی جس کیلئے قلم، روشنائی، کاغذ خلیفہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں طبیب، فقیہ، ہیت دان منطقی کل وقتی ملازم تھے۔ ایک دفعہ ان علماء کو مباحثہ میں شرکت پر خلیفہ نے بڑی رقوم عطیہ میں دی تھیں۔ لائبریری کے اخراجات کیلئے مکانات اور دکانیں وقف تھیں جو آمدن کا وسیلہ تھیں۔ اندازاََ یہاں ایک لاکھ کتابیں تھیں۔
الازہر مدرسہ لائبریری:
الازہر مدرسہ لائبریری کی بنیاد 970ء میں رکھی گئی تھی جس میں دو لاکھ مخطوطے تھے۔ مصر کے متعدد مدرسے اور کتب خانے تباہ ہوگئے ما سوا اس کے۔ خلیفہ مستنصر باللہ (1021-36) کے دور حکومت میں ترک سپاہیوں نے غارت گری کی اور ہزاروں مسودات دریائے نیل کی نذر کر دئے یا خاکستر کر ڈالے ۔ جو کتابیں بچ گئیں ان کا کھلی جگہ پر ڈھیر لگا دیا گیا اس مقام کا نام طلال الکتب (کتابوں کا ڈھیر) پڑ گیا۔ فاطمی خلفاء کی لائبریریوں میں سے سینکڑوں مخطوطے محفوظ رہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی (1193) نے تمام کتابیں اپنے مشیر خاص قاضی فاضل کے مدرسہ قاف کو تحفہ میں دے دیں (7) ۔
الازہر یونیورسٹی کی لائیبریری :
الازہر یونیورسٹی کی بنیاد 1961ء میں رکھی گئی مگر اس کی جدید لائبریری کی بنیاد 1005ء میں رکھی گئی تھی یعنی آکسفورڈ کی بوڈلین لائبریری سے چھ سو سال قبل، اور ویٹکن لائبریری سے 440 سال قبل۔ یہاں 595