ہمارے ایک پختون قوم پرست 'اسکالر' دوست ہیں، باچا خان کے فلسفہ و فکر کے داعی اور ان کی کسی تنظیم کو ہیڈ بھی کرتے ہیں۔۔ ایک ملاقات میں انہوں نے میرے سامنے میرے نظریات کو چیلنج کرتے مندرجہ زیل سوالات اٹھائے۔
1۔ شناخت کا سوال
ان کا اعتراض تھا، کہ میں شناخت کے مسئلے پرکوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ جب کہ قوم پرستوں کا تو مسئلہ ہی 'شناخت' کا ہوتا ہے۔۔ شناخت میرا اس لئے مسئلہ نہیں ہے، کہ شناختیں تاریخی لحاط سے بدلتی رہتی ہیں۔ کیا جو پختون ہیں، جب انسان کا زمین پر ظہورہوا وہ اسی دن سے ہی پختون ہیں؟ اور قیامت تک ' پختون' ہی رہیں گے۔۔؟ نہیں نہ ایسا تھا، نہ ایسا ہوگا۔۔۔ میں چونکہ خود کو ماضی میں نہیں، شعوری طور پر ' آج ' میں زندہ رہتا ہوں، اور آنے والے کل کے تناظر میں چیزوں کو دیکھتا ہوں۔۔۔ ' میں مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، پنجابی ہوں، سیالکوٹی ہوں وغیرہ اولین نہیں ثانوی شناختیں ہیں۔۔ قومیں، قومیتیں، ریاستیں، زبانیں، کلچر، رسوم و رواج۔۔۔ حتی کہ پھل پھول بھی بدلتے رہتے ہیں۔۔ میرے بچپن میں جو پھل اگتے تھے، آج ان میں کئی متروک ہوگے ہیں۔ وہ درخت آج دیکھنے کو نہیں ملتے۔۔ آج جن پھلوں کا گماں تھا۔ کہ مغربی ملکوں کے ہیں، وہ آج یہاں اگ رہے ہین۔۔ جدید تہذیب مقامی شناخت کو مٹا کریا ان کو ثانوی درجے پر رکھ کرہی۔۔ ہم آج دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں۔۔ میں دنیا بھر کے کسی بھی انسان سے آج کمیونی کیٹ کرسکتا ہوں۔ باہمی افکار، مسائل کو ڈسکس کرسکتا ہوں۔ ہاں کسی کے لئے شناختیں ابھی بھی بہت عزیز ہیں۔۔ تو میں ان کا مخالف نہیں ہوں۔۔ ظاہر وہ تب بدلیں گے، جب دنیا بدلے گی۔۔ ہرکوئی شعوری طور ایک سطح کا نہٰیں ہوتا۔۔ شناختیں سیاسی دھندہ بھی ہیں۔ ان سے لڑایا جاتا ہے، نفرتیں ، تعصب پیدا کئ جاتی ہیں۔ 'شناخت سپریم ہے، ہم عظیم ہیں۔۔ ہماری زبان کلچر ، لباس جیسی کوئی دوسرا ہونہیں سکتا۔۔ سب بکواس ہے۔۔۔ اگر آپ کو ابھی سمجھ نہیں آتی۔۔ تو نہ آئے،
2۔ زبان ۔۔ مٹتی نہیں مٹائی جاتی ہے
اسی طرح میں مادری زبان کے معاملے میں بھی کوئی حساسیت نہیں رکھتا۔ زبانیں بھی مٹتی رہی ہیں۔ آج بھی مٹ رہی ہیں۔۔ اور جو نام نہاد زبانیں آج اپنے تہیئں وجود بھی رکھتی ہیں۔۔ انہوں نے بھی مٹ جانا ہے۔۔ آج بھی اصل میں ورکنگ اور عالمی دو تین زبانیں ہی اہم ہیں۔۔۔ باقی تو سب۔۔۔ بس زبانیں ہی ہیں۔۔ عملی، معاشی، سائنسی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اب ان صاحب کا سوال ہے، "زبانیں مٹتی نہیں مٹائی جاتی ہیں"
اس ' phrase' کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے 8، 10 ہزار سال کی انسانی زندگی میں ہزاروں زبانیں بنائیں گئی۔۔ بڑی مقدس زبانیں تھی، دیوتا اور خدا ان زبانوں میں باتیں کرتے تھے۔۔ مٹ مٹا گئیں۔۔! 'مٹائی ' جاتی ہیں، ایک الگ سوال ہے۔۔ اگر کوئی آ کرمٹاتا تھا۔۔ اور وہ مٹ جاتی رہیں۔۔ تو بھی اس سے حقیقت حال میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ کوئی دل کی بیماری سے مر جاتا ہے، کوئی کینسر سے مرجاتا ہے۔۔ خود مٹ گیا، یا کسی نے مٹا دیا۔۔۔ تاریخ اعتبار سے بات ایک ہی ہے۔۔ اگر ان زبانوں اور ان اہل زبانوں میں ہمت ہوتی، نہ مرتی۔۔۔ وہ بنی ہی مرنے کے لئے تھی۔۔ نئی طاقت ور، فریش چیز نے غالب آنا ہے۔۔ اور اس کائنات کے وجود کا سب سے مرکزی قانون۔۔ وہی ڈارون والا ہے۔۔ سروائفل آف دی فٹسٹ، اور نیچرل سیلیکشن۔۔۔
3۔ گلوبل ازم۔۔۔ لوٹنے کا زریعہ ہے۔۔
محترم کا یہ بھی نقطہ مضخکہ خیز ہے۔۔ موصوف گلوبالئزیشن کی دی ہرچیزاور ہر نعمت سے استفادہ اٹھا رہے ہیں۔۔۔ لیکن گلوبالائزشین کو لوٹنے کا زریعہ بتاتے ہیں۔۔ اگر گلوباالئزیشن نہ ہوتی تو ہم آج کم از کم مادی سطح پر چودہ سو سال پہلے کے حالات میں رہ رہے ہوتے۔۔۔ ان کو تیز رفتار جہازوں میں سفر کرنا، سمارٹ فون استمعال کرنا ، مغربی کی جدید یونیورسٹیون میں پڑھنا۔۔ ان کے دیئے علوم سے استفادہ کرنا ، جدید ماڈل کی گاڑیوں ، کمپوٹروں، طبی سائنس کو استعمال کرنا تو برا نہیں لگتا۔۔۔ 'گلوبالائشین ' لوٹنے کا زریعہ' ہے۔۔ اچھا مزے کی بات ہے، یہ الفاظ کبھی ترقی یافتہ ملک کے لوگ نہیں کہیں گے۔۔ یہ سب پس ماندہ ملکوں کے لوگ اس طرح کے فلسفے جھاڑین گے۔۔ کیونکہ جدید گلوبل دنیا میں دولت پیدا کرنے میں ان کا حصہ صفر بٹا صفر ہے۔
4۔ عام لوگوں کا افلاس۔۔ ان کی اپنی وجہ سے نہیں۔۔ ان کی قوت ارادی کو چھین لیا جاتا ہے۔۔
یہ بھی بڑی عجیب سی بات ہے۔۔ اپنی احساس کمتری ، اور اپنی نالائقیوں اور اپنی نرگسیت کو مالش کرنے کے لئے ایسی باتیں پس ماندہ ملکوں کے ' دانشوروں' کا کھیل ہوتا ہے۔ اپنی انا کو تسکیں دیتے ہیں۔ اپنے افلاس زدہ ہونے کی حقیقی وجوہات کا تجزیہ کرنے اور ان کو سمجھنے کی بجائے۔۔۔ ترقی یافتہ ملکوں کو مجرم ، گناہ گار قرار دے دیتےہیں۔ اپنی غربت اور افلاس کا۔۔۔ یہ وہ قومیں ہیں، جنہوں نے ایک ہزار سال سے سونے والے بیڈ میں کوئی تبدیل نہ کی، زرعی اوزاروں، میں ہزار دو ہزار سال میں کچھ نہ بدلا۔۔ ٹھیلے اور ریڑھے چلتے رہے۔۔ جو بجلی اور انجن کو ایجاد نہ کرسکے۔۔، جو سمندروں اور فضاوں کے فاصلے نہ مٹا سکے۔۔
5۔ یکسانیت۔۔
ان صاحب کا کہنا تھا۔ کہ لبرل دنیا کا جو 'انسان دوستی' کا نعرہ ہے وہ بھی فریب ہے۔۔ ان کو سوشلسٹوں کے اس نعرے 'ساری دنیا کے مزدوروں ایک ہو جاو' پربھی اعتراض تھا۔۔ وہ کسی ایسے نعرے سے الرجک نظرآتے ہیں۔ جو ساری انسانیت کو کسی ایک سطح پرسوچنے دے۔۔۔ چونکہ وہ قوم پرست ہیں۔۔ اس لئے وہ عالمی انسانی یکسانیت کو شکوک و شبہات سے دیکھتے ہیں۔۔ تاکہ اس میں ان کی پیاری ' شناخت' مرتی نظر نہ آئے۔۔
6۔ دھرتی کے وسائل دھرتی کے لوگوں کے ہوتے ہیں۔۔ کسی کو یہ حق حاصل نہین کہ وہ کسی بھی بہانے، جواز سے دھرتی کے وسائل اور اختیار کو کسی بہانے سے لوگوں سے چھین لے۔۔
میں اس سوال کو بھی مختلف طریقے سے دیکھتا ہوں۔۔ 'دھرتی کے وسائل وہاں کے لوگوں کے ہوتے ہیں۔۔ " یہ قبل از صنعتی دور کی باتیں ہیں۔ یہ دنیا سرماے اور ٹیکنالوجی کی ہے۔۔ عربوں کی زمین کے نیچے تیل تو ہزاروں سال سے ہوگا۔۔۔ عرب سوئے رہے۔۔کہ ان کی دھرتی کے پاس اتنی بڑی دولت ہے۔۔ 'کس نے دریافت کی، کس نے نکالی، کس نے صاف کی، کس نے ترسیل کی، کس نے اسے کنزیوم کرنا سکھایا؟ گوروں نے۔۔۔ اب وہ دولت صرف عربوں کی نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔ اس دولت کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ بھوکے ننگے کہیں رہ رہے تھے۔۔ ؟ فرض کیا بلوچستان میں کوئی بہت بڑی قیمتی معدنیات زمیں میں دفن ہیں۔۔ شرطیہ بات ہے، وہ ایک ہزار سال مزید اسی طرح مدفون رہی گی۔۔ اگر ان کو بلوچستان کے مقامی لوگوں تک چھوڑ دیا جائے۔۔
تو جناب کا فلسفہ و نظریات فرسودگی پر مبنی ہیں۔۔ آپ کو پتا نہیں جدید دنیا کی ڈائنامکس کیا ہیں۔
“