فرائیڈ نے دنیا کو بتایا کہ جب سماجی اقدارانفرادی جبلتوں کو دبا دیتی ہیں تو انسانی نفسیات میں بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اس نے یہ نتائج ہزاروں نفسیاتی مریضوں اور پاگلوں کے تجزئیے کے بعد اخذ کئے تھے۔ مغربی تہذیب نے یہ غلطی کی کہ ان نتائج کو نارمل انسانوں پر منطبق کر دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ جبلتوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے تاکہ نارمل لوگوں پر مشتمل معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
ان کے دانشور یہ نہ سمجھ سکے کہ اگر جبلتوں کو ایک خاص حد تک سماجی اور اخلاقی حدود میں رکھا جائے تو وہ توانائی کا ایک ایسا سرچشمہ بن جاتی ہیں جن سے تخلیقیت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اور اگر اخلاقی اقدار کی گرفت کمزور پڑ جائے تو یہی جبلتیں تباہی اور انتشار کا منبع بن جاتی ہیں۔ عقل ایک جامد اور برفیلی صلاحیت ہے۔ اسے جب تک جبلت کی گرمی بہم نہ پہنچائی جائے، یہ اپنے ہی واہموں سے خوفزدہ ایک کنج تنہائی میں پڑی رہتی ہے۔ تاہم اگرجبلتوں کو بے مہار چھوڑ دیا جائے تو یہ عقل پر سوار ہو جاتی ہیں اور اپنی خودغرضانہ خواہشوں کے صحرا میں اسے دوڑا دوڑا کر بے دم کر دیتی ہیں۔
جب مرد کی مرد سے اورعورت کی عورت سے شادی کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہو بلکہ اسے ناپسند کرنے والوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جائے تو اس تہذیب میں جبلت کی عقل پر مکمل فتح میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ کامل زوال کس وقت اور کس شکل میں دروازے پر دستک دے گا۔
ایک تاریخی سی سا (Sea Saw) ہے جس کے ایک سرے پہ فرد سوار ہے اور دوسرے پر سماج۔ فرد مغربی تہذیب کی شکل میں اپنی آزادی کی آخری حد دیکھ چکا، اب سماج کے غلبے کی باری ہے۔ اب تو کاتب تقدیر نے فقط یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کونسا معاشرہ اس عمل کا نمائندہ بننے کا اہل ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ لبرل ازم اپنی موجودہ شکل میں ایک زوال پذیر تہذیب کا نوحہ ہے۔ اسے نوائے جرس سمجھنے والے تاریخی عمل کی تفہیم میں ناکام رہے ہیں۔