میں نے لبرل ازم، قوم پرستی، زبان و شناخت کے بارے جو کچھ لکھا تھا، اس کا ایک ردعمل تو اس گروہ سے آیا ہے، جو خود کو 'سرٹیفائڈ مفکرو فلاسفر' سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک میں جاہل آدمی ہوں، کتاب کی میں نے کبھی شکل نہیں دیکھی، لہذا ٹھٹھا اڑاتے 'او دیکھو کتنی سطحی باتیں ہیں" ہا ہا ۔۔ جن صاحب کے سوالات، کا جواب تھا، انہوں نے آدھی درجن کتابوں اور رپورٹوں کے ریفرنس دے دیئے۔ میری کہی گئی کسی بات کا براہ راست کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ یہ وہ قبیلہ ہے، جو ابھی تک ایک سو سال پہلے کی لیفٹسٹ مارکسسٹ نظریات سے متاثر ہیں۔ ' نوآبادیات ' نیو کالونیل ازم ' استحصال، استعمار، قوموں ، ملکوں کے وسائل پر قبضے، لوٹ مار، قومی آزادی کی تحریکیں، اور پھر قومیتوں کی آزادی و حقوق۔۔ کا شور شرابا
اصل میں نیشنل ازم یا نشنلسٹ افکار۔۔ خارجی جبر، غلامی، استحصال کا ردعمل ہوتا ہے۔ اب میرے جو خیالات ہیں، ان کا تعلق جدید دنیا کے تناظر میں زمانی اور تاریخی عمل سے ہے، اس کے جواب میں پاکستان میں قومیتوں ، چھوٹے صوبوں، پر مرکز ، پنجاب، فوج کے جبر کے مسائل کو اٹھایا جاتا ہے، وہ میری قوم پرستی کی مخالفت کو پنجاب/فوج کی حمائت سمجھتے ہیں۔ جیسے میں بلوچستان، سندھ، پختون خواہ پر جو سیاسی اور معاشی جبر ہے، اس کا حامی ہوں۔۔
جب کہ میرا عمل ، میری تحریریں، میرے افکار، میری وابستگیاں ہمیشہ پاکستانی ریاست، جنرلوں کے قومیتوں پر جبر، قبضے، سیاسی ظلم، طاقت ور مرکز، نظریہ پاکستان کے حوالے سے اپنائی گئی پالیسیوں کا جب سے ہوش سنبھالا ، شدید مخالف رہا ہوں۔ ساری زندگی لکھا ہی اس جبر کے خلاف ہے، اور کھلم کھلا ہمیشہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے لے کر، بلوچستان ، سندھ ، پختون عوام کے قوم پرستانہ سیاسی، معاشی آزادیوں اور حقوق کو سپورٹ کیا ہے۔۔ اسلام کے نام پر اور وطن کے نام پر، حب الوطنی کے نام پرکئے ظلموں کے خلاف رہا ہوں۔ میں تو مجیب الرحمان کے 6 نکات کا حامی تھا، بلوچستان قلات کو زبردستی فوجی طاقت سے پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی کئی دفعہ کہانی لکھ چکا ہوں۔ مارشلاوں اور فوجی آپریشنوں کا شدید مخالف۔ منظورپشتین کی تحریک کی حمائت میں پوسٹیں لگاتا ہوں۔ میں تو معروف و مشہورہی انٹی اسٹیبلشمنٹ ہوں۔
میرا لبرلزازم ہرگز نہیں روکتا، کہ میں پاکستان کے تمام پس ماندہ رہ جانے والے علاقوں اوران کے قومی حقوق کی حمائت نہ کروں۔ لیکن ان لوگوں کی چونکہ سیاسی دکانداری ہے، نیشنل ازم ان کا پیشہ ہے۔ نہ میری این جی او، نہ سیاسی پلیٹ فارم۔۔۔ ہے، یہ نیشنلسٹ جب بھی اقتدار میں آئے، سرداری، وذیرے، خوانیں کے نظام کو پختہ کیا ہے۔ نیشنل ازم بنیادی طور پر رجعت پسند نظریہ بن جاتا ہے۔ آپ اتنا خود کو پروٹیکٹ اور گلورفائی کرتے ہیں۔ کہ آپ ارتقا و ترقی کا رستہ روک دیتے ہیں۔ ان کے نشینل ازم کا مطلب ہے، بلوچ سردار بلوچوں کو لوٹیں، سندھی وڈیرہ سندھ کو لوٹے، اور خوانین پختون عوام کا استحصال کریں۔۔ یہ وہی نیشنل ازم ہے، جو پاکستان بنانے والوں کا تھا، کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مسلمان جاگیردار، سرمایہ دار اور مسلمان جنرل لوٹیں۔ ہندو نہیں۔
چنانچہ میرا لبرل ازم زیادہ انسان دوست، زیادہ انصاف پسند، برابری کا قائل اور سارے پاکستان کی یکساں ترقی اور آزادی کا قائل ہے۔ میں قومیت اور زبان کے نام پر پاکستان کے عوام کو تقسیم در تقسیم اور باہمی نفرت پھیلانے کا زریعہ نہیں سمجھتا۔
“