لباس کی پارسائی
—————
عورت اور لیتا
———————-
جب سے انسان موجودہ شکل میں ظاہر ہوا ہے عورت اور مرد ایک ساتھ اس کائنات کے ارتقا میں حصہ لیتے رہے ہیں مرد اور عورت نے مل کر آسمانی آفتوں کامقابلہ کیا ہے چاہے وہ بارشوں کی صورت میں یا آسمانی بجلی کی شکل میں ہو ، چاہے آگ کی ایجاد ہو شکار کے لیے بنایا گیا ہتھیار ہو یا کھتی باڈی ہو–آج انسان ارتقا کی جس منزل پہ پہنچا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کے ذہن اور جسمانی طاقت کا استعمال ہوا ہے—
ہم سارا سفر طے کر کے موجودہ دور پہ آتے ہیں
اج بھی آپ کو دنیا بھر میں مرداور عورت قدم کے ساتھ قدم ملائے کائنات۔ کے ارتقا میں حصہ لیتے نظر آرہے ہیں چاہے وہ سائنس ہو آرٹ ہو موسیقی ہو یا سیاست ہو—
جب مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کا مطالبہ کیا تھا تو اس کے ساتھ جہاں لاکھوں مرد آس تحریک میں حصہ لے رہے تھے وہاں عورتیں بھی اس میں شامل تھیں –ہر سال 14اگست کو پاکستانی اخبارات جو اضافی ضمیمہ نکالتے ہیں ان میں ایک تصویر اکثر لگائی جاتی ہے جس میں ایک عورت کو لاہور کے سیکڑریٹ پہ پاکستانی پرچم لگاتے دیکھا جاتا ہے — پاکستان میں ہر سیاسی جماعت میں خواتین کا شعبہ ہے تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں۔ جلسوں اور جلوسوں۔ میں خواتین شامل ہوتی رہی ہے حتاکہ نہ چاہتے ہوئے بھی جماعت اسلامی کو اپنی جماعت میں خواتین۔ کا شعبہ بنانا پڑ ا ہے پاکستان کے سیاسی منظر میں جس جماعت میں سب سے زیادہ خواتین نے حصہ لیا ہےوہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے اس کے بعد ایم کیو ایم اور اب تحریک انصاف ہے عمران خان کے دھرنے میں خواتین نے بھر پور حصہ لیا اور اسی جوش ولولے کے ساتھ نعرے مارے اور بھنگڑے ڈالے جس طرح مردوں نے بھنگڑے ڈالے تھے — مگر یہ بات انتہائی افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ خود کو لبرل اور سیکولر کہنے والی ایم کیو ایم نے اس دھرنے میں شامل خواتین کو ہیرا منڈی کی خواتین کہنا شروع کیا جس کو بعد میں مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمان نے اپنا لیا
لاہور کے تحریک انصاف کے جلسے میں خواتین کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیا گیا ہے مذہبی درندے پھر اپنے زبانوں کو خنجر بنائے میدان میں میں آگئے ہیں — سب سے پہلے تو انصار عباسی نے اپنے کالم میں عورتوں کی آزادی کے خلاف اپنا بغص نکالا اور اس شرمناک واقعہ کی ذمہ داری جلسے میں شامل ہونے والی خواتین۔ اور ان کے پہنے مغربی لباس پہ ڈالی ہے اور خواتین کو سیاسی جلسوں جلوسوں میں شرکت نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ان کو گھروں میں رہنے کی ترغیب دی ہے آن کے اس بغض کو رانا ثنا اللہ نے اپنی مونچھوں پہ بیٹھا اور ان خواتین کو مغرب زدہ اور ان کے لباس کو فحش قرار دیا جس کی وجہ سے مرد ان کے ساتھ بدتمیزی کرنے پہ مجبور ہوئے – یعنی مرد لڑکا پیدا نہیں کرسکتا قصور عورت کی کوکھ کا ہے لہذا اس پہ تین حرف کی لعنت بھیجو اور نئی کوکھ تلاش کرو — سات سال کی بچی کو دیکھ کر مردانگی جاگ گئی ہے تو بیچارہ کیا کرے اب وہ مجبور ہے اپنی مردانگی کی تسکین کرنے بعد اس کو قتل کر کے کسی گندے نالے میں پھینک دے — اگر کوئی قبر سے کسی عورت کو نکال کر اپنی مردانگی کو کم کر رہا ہے تو اس میں بچارے مرد کا کیا قصور ہے قدرت نے مرد میں مردانگی بھر ہی اتنی دی ہے کہ اس کو اسے کم کرنے کے لیے قبروں سے عورتوں کو نکالنا پڑ رہا ہے
کچھ بھی ہو جائے قصور عورت کا ہی ہے کسی نے ان درند صفت مردوں کو نہیں کہا اگر تمہاری مردانگی اتنا ہی تمہیں۔ مجبور کر رہی ہے تو گھر میں ہی رہتے وہاں ہیں نہ تمہاری مائیں بہنیں کر لیتے وہاں اپنا شوق پورا — کوئی جلسے کی انتظامیہ کو نہیں پکڑ رہا ہے کہ اس کے ذمہ داری تم پہ ہے مگر سب عورت اور اس کے مغربی لباس کو مورود الزام ٹھہرا رہے ہیں یعنی وہی پینٹ شرٹ اگر مرد پہنے تو وہ ہینڈ سم ہے اور اگر عورت پہنے تو وہ بے حیا ہے
عورت کے بارے اگر ان کی گندے ذہنیت کسی نے دیکھنی ہو تو فیس بک پہ چلنے والا ایک چینل کا وہ کلپ دیکھ لے جس میں میزبان اوریا مقبول جان سے عمران خان کے جلسےمیں ہونے ولے شرمناک سلوک کے بارے سوال کرتا ہے تو اوریا مقبول جان کہتے عورت کامقام گھر بیٹھنا ہے باہر کے سارے کام مرد کے ہیں عورت کا کام گھر بیٹھ کر بچے کو دودھ پلانا ہے باہر مرد جاتا ہے جیسے کتا باہر پھرتا رہتا ہے مگر کتیا بیٹھ کر بچوں کو دودھ پلاتی رہتی ہے — کیا اس سے بڑ کر کسی نے عورت کے بارے اتنی گندی زدہ نیت دیکھی ہی
—————-
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154178542968390
“