’’آپ پاکستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے حالات وواقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے‘ ہمیں وزارت خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔‘‘
جنوری 1948ء میں یہ بات وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے محمد اسد سے کی اور وہ وزارت خارجہ میں مشرق وسطیٰ کے شعبے کے انچارج بنا دیے گئے۔ ان کے دائرہ کار میں ایران اور شمالی افریقہ بھی شامل تھا۔ اسد لکھتے ہیں کہ دفتر میں بیٹھتے ہی انہوں نے خلیج فارس کا بڑا سا نقشہ منگوایا اور اسے دیوار پر لگوا دیا
’’اسی وقت میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خان کے لیے ایک مفصل اور واضح میمورنڈم تیار کرنے میں مصروف ہوگیا جس میں مروجہ سرکاری پالیسیوں پر بے لاگ تنقیدی تبصرہ کیا گیا تھا، میری یہ تحریر خفیہ دستاویزات کے زمرے میں آتی تھی ۔ میں نے یہ میمورنڈم خود ٹائپ کیا‘‘۔
جب یہ میمورنڈم سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے محمد اسد کو بلایا اور کہا کہ آپ نے وزیر خارجہ ہی کو نہیں وزیر اعظم کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے ۔ اسد نے جواب دیا کہ آپ میرے خلاف محکمانہ کارروائی کر لیجیے لیکن میمورنڈم وزیرخارجہ کو ضرور بھیجئے۔ اکرام اللہ نے دستخط کرتے ہوئے کہا کہ جو ہوگا اس کے آپ خود ذمہ دارہوں گے۔ اس کے بعد محمد اسد لکھتے ہیں
"' دو دنوں کے بعد پتہ چلا کہ ظفراللہ خان نے میری تنقید کا برا نہیں منایا بلکہ جیسا انہوں نے مجھے بعد میں خود بتایا کہ انہوں نے میری معروضات سے اتفاق کیا اور میرے میمورنڈم کو وزیر اعظم کے پاس بھجوا دیا اور میں نے اس کی نقلیں تیار کر کے ان پر" ضروری مطالعہ کے لیے" لکھ کر وزارت خارجہ کے تمام شعبوں کے سربراہوں کو ارسال کر دیں"
وزیراعظم لیاقت علی خان نے بالآخر محمد اسد کو میمورنڈم کی تجاویز پر تبادلہ خیال کے لیے بلوایا۔ گفتگو کے دوران محمد اسد نے تفصیل سے بتایا کہ معاہدۂ بغداد پاکستان کے لیے بے کار ہے۔ خلیج فارس میں قدم جمانے کی تجویز پر وزیراعظم کا ردعمل یہ تھا کہ اس کام کے لیے مضبوط کرنسی کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان کو بے پناہ معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ محمد اسد نے اس کا حل یہ تجویز کیا کہ پاکستان کو امریکہ کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور امریکہ اس ضمن میں فوجی کے بجائے سیاسی ذرائع بروئے کار لائے۔
لیاقت علی خان نے محمد اسد کو لیگ آف مسلم نیشنز کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے کہا۔ یہ اسد کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کی کمزوریوں اور خطے میں پاکستان کی اہمیت پر بسیط دلائل دیے۔ محمد اسد کا کہنا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہونے کی بناپر پاکستان کو اس سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے۔
وزارت خارجہ میں تعیناتی کے دوران وزیراعظم نے محمداسد کو عرب ممالک کے دورے پر بھیجا اور پاکستان کا پہلا پاسپورٹ لیاقت علی خان کے حکم پر اسد ہی کے لیے بنا۔ امیر فیصل جو بعد میں بادشاہ بنے، اسد کے ذاتی دوست تھے۔ شاہ عبدالعزیز جنہوں نے اسد کو بیٹا بنایا ہوا تھا علیل تھے ۔ یہ بادشاہ سے اسد کی آخری ملاقات تھی۔ سعودی عرب سے اسد مصر گئے اور وزیر خارجہ سے ملے۔ عربی وہ عربوں کی طرح بولتے تھے۔ وہاں سے دمشق آئے‘ دمشق سے بغداد‘ وہاں سے ترکی۔ گویا مسلم دنیا میں پاکستانی خارجہ پالیسی کی پہلی اینٹ محمداسد نے اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ تیونس کی جنگ آزادی کے رہنما حبیب بورقیبہ سے بھی، جوبعد میں اپنے ملک کے صدر بنے محمد اسد کے ذاتی تعلقات تھے۔
دسمبر 1951ء میں اسد کو اقوام متحدہ میں تعینات کیا گیا ۔ وہاں ان کے افسر اعلیٰ پطرس بخاری تھے۔ پطرس کے بارے میں جوکچھ محمد اسد نے لکھا ہے وہ تاریخ پاکستان کے طلبا کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ محمد اسد لکھتے ہیں :
’’ہوائی اڈے سے شہر آتے ہوئے مجھے بتایا گیا کہ میرے عہدے کے لحاظ سے ہوٹل پَیرے میں کمرے کا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن میرے بڑے افسر نے اس بناپر اسے منسوخ کردیا کہ یہ بہت مہنگا ہے۔ چنانچہ مجھے دوسرے درجے کے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا۔ احمد شاہ بخاری (پطرس ) کے ساتھ مستقبل میں میرے تعلقات کس نہج پر آگے بڑھیں گے یہ اس کی جانب پہلاقدم تھا۔ اگلے روز جہاں میری ان سے ملاقات ہوئی وہ نیویارک کے مشرقی حصے میں واقع ایک مہنگا ترین ہوٹل تھا۔ اس کے متعدد پرتعیش کمروں پر مشتمل ایک الگ حصے میں وہ سکونت پذیر تھے۔ ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن مجھے جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ ہم کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکیں گے۔ وہ بلاکے ذہین شخص تھے، ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا اور بظاہر ان کی پرورش اچھے ماحول میں ہوئی تھی لیکن ان اوصاف کے ساتھ ساتھ وہ بڑے مغرور اور خود بین شخصیت کے مالک تھے۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ کسی بھی موضوع پر اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کو اپنی ’’ہیئت اقتدار‘‘
کے ماتحت سمجھتے تھے اس پررعب جمانا اور اپنی بالادستی کا احساس دلاتے رہنا بخاری صاحب کی نفسیاتی کمزوری تھی لیکن ایسی مغلوبیت میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔ میں نے جب سے سرکاری ملازمت اختیار کی تھی‘ ہمیشہ اپنے تصورات کی پاسداری کی تھی اور بلاخوف وخطر ان کا برملا اظہار کرتا تھا۔ لیاقت علی خان کو میرا یہی انداز تکلم پسند آگیا تھا۔ وہ معمولی آدمی نہیں تھے لیکن میری یہی غیرمنافقانہ طرز گفتگو بخاری سے میرے تعلقات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی …نتیجتاً میرے ان کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے اور مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم ایک ہی ٹیم کے رکن ہیں ۔ (خودنوشت ۔ مرتب : اکرام چغتائی مطبوعہ 2009ء صفحہ149)
بخاری صاحب محمد اسد سے جان چھڑانے میں آخرکار کامیاب ہوگئے ۔ جن علاقوں میں خودمختار حکومتیں نہیں تھیں ان کے لیے ایک الگ کمیشن تشکیل دیا گیا۔ محمد اسد کی خدمات اس کمیشن کو سونپ دی گئیں۔ بخاری صاحب کی نظر میں یہ ایک غیراہم کام تھا۔ یہ الگ بات کہ محمد اسد کو اس کمیشن کا سربراہ چن لیا گیا اور انہوں نے شمالی افریقہ کے مسلمان علاقوں کے لیے وہاں بھرپور کام کیا۔
اب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا مکتوب ملاحظہ کیجیے۔ آپ پنجاب یونیورسٹی میں ظفرعلی خان چیئر کے سربراہ ہیں اور قاہرہ یونیورسٹی میں اردو چیئر پر بھی فائز رہے ہیں۔
’’آج صبح سویرے محمد اسد اور قائداعظم کے بارے میں آپ کا کالم پڑھا۔ ہم لوگ عظمتوں کو فراموش کرنے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ اسد بھی ایک ایسی ہی عظمت تھے جنہیں بہت آسانی سے بھلادیا گیا۔ صرف یہی نہیں‘ انہیں ان کا جائز مقام بھی نہیں دیا گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے قانونی شہری تھے۔ انہوں نے اس پاک سرزمین کے قیام اور اس کی نظریاتی اساس کے لیے ناقابل فراموش کردار اداکیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ اسلامی تعمیر نوکے ادارے تک محدود نہیں تھا بلکہ تقسیم کے موقع پر مہاجرین کی آبادکاری اور پاک عرب تعلقات کی استواری سے کشمیر کے جنگی محاذوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کی اسلامی خدمات میں ان کا ترجمہ قرآن اور ترجمہ بخاری جیسے کام شامل ہیں۔ یہاں میں ان کے ساتھ ہونے والی ایک ناانصافی کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے بانی چیئرمین تھے لیکن اس بات کا اعتراف تو کجا کہیں ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ خود شعبہ اسلامیات اس حقیقت سے بے خبر ہے اور تمام مطلبوعات میں علامہ علائوالدین صدیقی مرحوم کو شعبے کا بانی چیئرمین ظاہر کیا جاتا ہے۔ محمد اسد نے قیام پاکستان کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے مشہور اسلامک کلوکیم کے لیے ان تھک محنت کی۔ دنیا بھر سے علوم اسلامی کے ماہرین اور علما محض ان کے ذاتی روابط اور کوششوں سے اس کلوکیم میں شرکت کے لیے آئے لیکن جب پھل پک کر تیار ہوگیا تو انہیں کلوکیم سے الگ کردیا گیا یا الگ ہونے پر مجبور کردیا گیا اور جب کلوکیم کے مقالات پر مشتمل کتاب چھپ کر سامنے آئی تو اس میں ان کا نام تک شامل نہیں کیا گیا۔ کتاب چلچراغ میں ان تمام واقعات کی دستاویزی شہادتیں موجود ہیں۔ والسلام زاہد منیر عامر۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_05_01_archive.html
“