لیام نیسن کی کہانی
لیام نیسن امریکہ کا امیرترین وکیل تھا،زندگی میں نیام نے کبھی کوئی مقدمہ نہیں ہارا تھا،امریکہ کی معروف لاء فرم میں اس کی زہانت اور شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا،امریکہ کے مختلف بنکوں میں اس کے سینکڑوں اکاونٹس تھے ،جس میں لاکھوں ڈالرزمحفوظ تھے، قیمتی ترین فراری کارلیام نیسن کے زیراستعمال تھی ،وہ شرب کا رسیا تھا،بے تحاشا دولت سمیٹنا اور پارٹی گرلز کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا اس کی زندگی کا روز مرہ کا معمول تھا۔۔۔لیام نیسن کی عمر اب ستر سال کے قریب تھی،امریکہ کی معروف ترین شخصیات میں سے ایک تھا۔ایک روز دفتر میں اچانک لیام کو ہارٹ اٹیک ہوا،اسےایمرجنسی میں اسپتالمنتقل کیا گیا،لیام اب اسپتال میں تھا اور اسے کسی سے ملنے کی اجازت نہ تھی،یہاں تک کہ اس کا اکلوتا دوست جان بھی اس سے نہیں مل سکتا تھا۔لیام نے ڈاکٹروں سے منتیں کی کہ اسے جان سے ملاقات کی اجازت دی جائے ،لیکن جان کو لیام سے ملاقات کی اجازت نہ مل سکی۔۔لیام ہارٹ اٹیک سے بچ گیا ، کچھ روز بعد اسے اسپتال سے فارغ کردیا گیا،اسپتال سے نکلتے ہی لیام نے اپنی تمام جائیداد اونے پونے داموں میں فروخت کردی، قیمتی ترین فراری کو بھی بیچ دیا، سب کچھ کرنے کے بعد وہ امریکہ سے غائب ہوگیا۔لیام کے دوست جان نے اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔کئی سال بیت گئے، لیام مکمل طور پر لاپتہ تھا،وہ چمکتی دمکتی دنیا سے ایسا غائب ہوا کہ اب اسے دوست احباب بھی بھول گئے۔لیام کا دوست بھی اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔۔۔۔ایک روز لیام اپنے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھا دفتری کام نمٹا رہا تھا کہ گھر کے ملازم نے خبردی،جان ایک شخص آپ سے ملنے کے لئے آیا ہے،جان نے ملازم سے جلدی میں کہا،بہت مصروف ہوں،اس وقت کسی سے ملاقات نہیں سکتا،ملازم نے کہا جان ،جو شخص آپ سے ملاقات کےلئے آیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس کا آپ سے ملنا بہت ضروری ہے ،جان نے کہاچلو اسے کمرے میں لے آؤ،تھوڑی دیر کے بعد وہ اجنبی کمرے میں تھا ۔۔۔تیس سال کا یہ جوان دیکھنے میں بہت خوبصورت۔دلکش اور اسمارٹ محسوس ہو رہا تھا،جان اس اجنبی کی دلکش شخصیت کو دیکھ کر حیرت زدہ نظر آیا ۔۔اجنبی نے جب گفتگو شروع کی تو جان کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی،جان نے چیخ کر کہا،لیام یہ تم ہو،لیام تم توستر سال کے بوڑھے تھے،کیسے تیس سال کے خوبرو جوان محسوس ہو رہے ہو،لیام یہ سب کیسے ہوا؟ جان لیام سے مل کر بہت خوش تھا ،اس کے لئے سب سے حیرنگی کی بات یہ تھی کہ وہ لیام کو جوانی کی حالت میں دیکھ رہا تھا،لیام تم خوبروجوان کیسے ہو گئے؟لیام نے ہارٹ اٹیک کے بعد اب اپنی رام کتھا بتانا شروع کردی۔ جان ہارٹ اٹیک کے بعد میں نے اپنی زندگی پر نطرثانی کی ۔۔۔پہلی دفعہ مجھے محسوس ہوا ،بےتحاشا دولت کے باوجود مطمئن کیوں نہیں ہوں،شراب و کباب سے بھی زندگی مطمئن نہیں ،جان مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے ،میں نے سن رکھا تھا کہ بھارت میں ایک جگہ ہے جہاں پر پہاڑوں کا ایک خوبصورت سلسلہ ہے ،ان پہاڑوں میں ایک ایسا نایاب پہاڑ بھی ہے، جہاں پر ایک قبیلہ بستا ہے ،دنیا میں وہ واحد قبیلہ ہے ،جہاں انسانوں نے زندگی کو پہچان لیا ہے ،وہ قبیلہ چھ ہزار سال سے اس پہاڑ پر آباد ہے،اس قبیلے کا ایک فرد بھی آج تک زمین پر نہیں آیا۔پچھلے سو سال سے زمین سے کوئی فرد اس پہاڑ پر اس قبیلے کے کسی فرد سے نہیں مل پایا۔لیام نے جان کو بتایا کہ اس نے بہت ساری رقم ساتھلی،کچھ ضروری سامان ساتھ لیا،اور بھارت روانہ گیا ۔۔۔۔بھارت جاکر ان پہاڑی سلسلوں کا پتہ کیا ،عظیم ترین جدوجہد کے بعد اس پہاڑی سلسلے کی جگہ پر پہنچا،جاتے ہی تحقیق شروع کی کہ وہ قبیلہ کس پہاڑ کی چوٹی پر آباد ہے، وہاں کے بوڑھے بابوں نے بتایا کہ نیلے پہاڑ کی چوٹی پر وہ قبیلہ رہتا ہے ،لیکن سو سال کا عرصہ گزر گیا ،آج تک کوئی انسان اس پہاڑ کی چوٹی تک نہیں پہنچ پایا۔۔لیام نے کہا جان ۔۔۔۔بغیر کچھ سوچے سمجھے میں نے نیلے پہاڑ پر چڑھنا شروع کردیا،کئی مہینوں تک ،خطرناک مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود سفر جاری رکھا،لیکن اس قبیلے کا کوئی نام و نشان نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں مایوس نہیں تھا،تہیہ کر لیا تھا کہ اس قبیلے تک ضرور پہنچوں گا ۔۔۔۔۔۔۔لیام نے کہا اچانک اسے نیلےپہاڑ کی بلندیوں پر ایک شخص نظر آیا،اس اجنبی انسان نے نیلے رنگ کا مختصر لباس زیب تن کررکھا تھا،اس کی آنکھیں روشن تھی،چہرہ حسین و دلکش تھا ،وہ پھولوں کی خوشبو سونگھ رہا تھا،بھاگتا بھاگتا اس کے قریب پہنچا ۔۔۔۔۔لیام نے کہا جان میں نے اسے اپنی کہانی سنائی ۔۔۔۔۔۔۔لیام نے کہا جان میں نے اسپتال سے یہاں تک کی ساری روداد بتائی ۔۔۔۔وہ بولا ۔۔۔۔۔جس قبیلے کی تلاش میں تم یہاں آئے ہو، میں اسی قبیلے کا باشندہ ہوں،خوش نصیب ہو کہ یہاں تک پہچنے میں کامیاب ہوگئے ہو۔،گزشتہ سو سالوں کے دوران زمین کا کوئی انسان یہاں تک نہیں پہنچ پایا ۔جان وہ شخص مجھے پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا ، چوٹی پر پہنچتے ہی میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی،پہاڑ کی چوٹی کی دنیا کا رنگ ڈھنگ ہی نرالا تھا،پہاڑ کی چوٹی پھولوں کا بستر تھی،تاحد نظر لال،گلابی،نیلے،پیلے پھول ہی پھول تھے،خوبصورت اور حسین درختوں کی ایک انسانی دنیا اس پہاڑ کی چوٹی پر آباد تھی۔پھولوں اور درختوں کے بیچ و بیچ رنگا رنگ پھولوں سے سجی جھونپڑیاں تھی ،ان درختوں اور پھولوں کے درمیان قدرت کا حسین شاہکار معصوم پرندے چہچہاتے نظر آرہے تھے ، فطرت کا شاہکاران جھوپڑیوں میں اس انسان آباد تھے ،پہاڑ کی چوٹی پر ایسا حسین منطر ہوگا، کبھی سوچا نہ تھا۔پھولوں کے بستر سے سجی پہاڑکی چوٹی پر مختصر ملبوسات زیب تن کئے حسین لڑکیاں نغمے گنگنا رہی تھی ،یہ لڑکیاں دلکش رقص کررہی تھی ۔۔۔ ایسی حسین و جمیل لڑکیاں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔جان لیام کی گفتگو سے بہت خوش ہورہا تھا ۔جان نے کہا لیام وہاں اور کیا تھا۔لیام نے کہا جان سب کچھ جاننا ہے تو آج کے تمام کاموں سے تمہیں دستبردار ہونا ہوگا۔جان نے جلدی سے کہادوست لعنت بھیجو سب کاموں پر،آج میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا ۔۔۔۔تو سنو جان ۔۔۔۔لیام نے کہا ۔۔۔۔وہ شخص مجھے اپنے سردار کے پاس لے گیا ۔۔۔۔خوبصورت ۔۔حسین ۔۔۔۔اور مطمئن سردار۔۔۔۔اس کے اردگرد جوان۔۔۔بچے ۔۔بوڑھوں ۔۔۔خواتین ۔۔۔۔۔کا مجمع تھا،یقین نہیں آرہا تھا کہ دنیا میں اس قدر حسین چہرے بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔میں ان کے درمیان ایک بیمار اور بدصورت بوڑھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے قبیلے کے سردار کو کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس جگہ اس لئے آیا ہوں کہ مجھے معلوم کرنا ہے ۔۔۔کہ زندگی کیا ہے ؟زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ قبیلے کے سردار نے مجھے انتہائی مدبرانہ اور تہذیب یافتہ انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔تمہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا ۔۔۔۔تم سب کچھ جاننے کے مستحق ہو ۔۔۔۔بس وعدہ کرو جو کچھ تم کو بتایا اور سکھایا جائے گا وہ سب کچھ تم عملی طور پر کرو گے ۔۔۔۔اور اپنی دنیا میں وآپس جاکر سب کو یہ سب کچھ سکھاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبیلے کے سردار نے کہا ۔۔۔۔۔آج سے جو کچھ ہم قبیلے والے کریں گے ۔۔۔تم بھی وہ کرو گے ۔۔۔۔۔۔تم واحد انسان ہو جو سو سال کے بعد اس جگہ تک پہنچے میں کامیاب ہوئے ہو ۔۔۔۔۔اب میں نے وہ کچھ کرنا شروع کردیا جو قبیلے کے باقی لوگ کرتے تھے ۔۔۔۔ صبح ہوتے ہی قبیلے کے لوگ یوگا کرتے ۔۔۔۔اس طرح وہ ابھرتے ہوئے سورج کا استقبال کرتے ۔۔۔۔ان کا ماننا تھا ۔۔۔۔سورج انہیں طاقت دیتا ہے ۔۔۔نئی امید اور نئی خوشی سے نوازتا ہے ۔۔۔۔وہ ابھرتے ہوئے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ۔۔۔اس طرح ان کے مطابق ان کے اندر کی دنیا کو ایک نیا اعتماد ملتا ۔۔۔۔جان پورا قبیلہ ہر روز کئی گھنٹوں تک یوگا اور مراقبے کی نت نئی مشقیں کرتا ۔۔۔ان کاماننا تھا کہ یوگا اور مراقبہ کرنے سے ان کے اندر لچک پیدا ہوتی ہے اور وہ چست و توانا رہتے ہیں ۔۔۔۔یوگا کرنے سے ان کے دل و دماغ کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی جس سے وہ روحانی تسکین حاصل کرتے ۔۔۔۔۔چھ ہزار سال سے وہ قبیلہ یوگا کرتا آرہا تھا ۔۔۔چھ ہزار سال سے یہ سب کچھ ان کی زندگی کا معمول تھا ۔۔یوگا کرنے کے بعد پھولوں سے بنی جھونپڑیوں میں وہ کتابیں پڑھتے ۔۔۔۔۔۔کتابیں لکھتے ۔۔۔۔۔اور اپنے آباؤ اجداد کی تصنیف کردہ کتابوں پر بحث و مباحثہ کرتے ۔۔۔ان جھونپڑیوں میں کتابیں ہی کتابیں تھی ۔۔۔۔اس طرح وہ نئی نئی باتیں اور تخلیقی خیالات ایک دوسرے سے شئیر کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ لکھنے ۔۔پڑھنے اور بحث و مباحثہ کرنے سے ان کے اندر دانائی پیدا ہوتی ہے، جس سے وہ اپنے آپ کو دریافت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔حیران کن بات یہ تھی کہ پورا قبیلہ کسی خدا اور مذہب سے ناواقف تھا ۔۔۔۔۔۔قبیلے کا قبیلہ ہی روحانی کیفیت میں مست تھا ۔۔۔۔۔۔مذہب نام کی کوئی چیز ۔۔۔کوئی خیال۔۔۔ان کے آس پاس یا اندر باہر نہیں تھا ۔۔۔۔الہامی خیالات ونظریات ان کی ثقافت کا حصہ نہیں تھے ۔۔۔ کسی عقیدے سے ان کا واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی اس طرح کی باتیں وہاں سننے کو ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں موسیقی اور رقص کی محفلیں ہر روز سجتی تھی ۔۔۔۔پھولوں سے مہکتی پہاڑ کی چوٹی پر جب موسیقی کی محفل برپا ہوتی تو سماں ہی کچھ اور ہوتا ۔۔۔عجیب سی روحانی کیفیت طاری ہوجاتی ۔۔۔۔موسیقی اور رقص کی محفلیں وہاں چھ ہزار سال سے مسلسل ہو رہا تھی ۔۔۔حسین خواتین ۔۔۔۔۔۔۔معصوم بچے ۔۔۔۔۔دلکش بوڑھے سب کے سب ہی موسیقی اور رقص کے عادی تھی ۔۔۔۔۔۔جب رات ہوتی تو وہ آسمان کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے ، چمکتے چاند اور ستاروں کو خوش آمدید کہتے ۔۔ چاند اور ستاروں سے انہیں بہت محبت تھی ۔۔۔۔رات کی تاریکی کا وہ پرتپاک استقبال کرتے ،بلکل اسی طرح جس طرح ابھرتے سورج کو خوش آمدید کہتے ۔۔۔۔۔ہر وقت مسکرانا اور قہقہے بکھیرنا ان کی زندگی کا معمول تھا ۔۔۔۔۔۔وہ مسکراتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔صبح جب اٹھتے تو سب سے پہلا کام ان کا مسکراہٹیں بکھیرنا تھا ۔۔۔ان کا ماننا تھا کہ جب انسان نیند سے اٹھے تو سب سے پہلے کچھ لمحوں بھرپور قہقہے بکھیرے ۔۔اس طرح انسان کی شخصیت سارا دن مثبت رہتی ہے اور پراعتماد دیکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔اور وہ نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔۔۔سونے سے دس منٹ پہلے وہ اپنا احتساب کرتے تھے ۔۔۔ان کا معمول تھا نیند سے تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے آپ سے باتیں کرتے اور تمام دن کے بارے میں سوچتے کہ آج انہوں نے کیا کیا ۔۔۔کیا کھویا اور کیا پایا ۔۔۔۔۔کھانے میں وہ صرف سبزیاں اور فروٹ کھاتے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ انسان جو کھاتا ہے وہی نظر آتا ۔۔۔۔جان سیکس وہاں کا عام رواج تھا ۔۔۔۔سیکس کو وہ زندگی کا ضروری حصہ سمجھتے ۔۔۔۔ان کا ماننا تھا کہ سیکس کے بغیر تخلیقی رویئے انسان میں پیدا ہی نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔دانائی اور زہانت سیکس کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔وہاں پر شادی کا رواج نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔لڑکے اور لڑکیاں ۔۔۔بوڑھے اور جوان ۔۔۔۔۔سیکس اور عشق کے معاملے میں آزاد تھے ۔۔۔کسی قسم کی بندش نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔علم و فکر کی ترقی کے لئے فطری روحانیت اہم فیکٹر تھا ۔۔۔۔ہر شخص وہاں ہر روز نئے خیالات پر بات کرتا ۔۔۔۔۔نئے اور تخلیقی نظریات دینے والوں کو وہاں ایوارڈز سے نوازا جاتا ۔۔۔۔۔ وہ فطرت ہی کو سب کچھ جانتے تھے ۔۔۔۔۔۔فطرت سے خوبصورت اور دلکش تعلق ان کی زندگی کا مقصد تھا ۔۔۔۔فطرت کے ساتھ وہ ایک ہو چکے تھے ۔۔۔۔وہ فطرت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔۔۔فطرت سے انمول رشتہ رکھنا ہی ان کی زندگی کا مقصد حیات تھا ۔۔۔وہ فطرت محسوس ہوتے تھے ۔۔۔۔۔ جب میں وآپس آنے لگا ۔۔۔۔۔تو اس قبیلے کی حسین خاتون نے مجھے پھولوں سے سجا ۔۔ایک گلدستہ پیش کیا ۔۔۔۔۔اس حسینہ نے کہا ۔۔۔۔جب کوئی یہاں سے وآپس زمین کی دنیا میں جاتا ہے تو اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ۔۔۔تم اس تحفے کے مستحق ہو ۔۔۔۔۔۔تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو ۔۔۔۔بس یاد رکھنا جو لوگ خواب دیکھتے ہیں وہ دراصل سوئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔اور دنیا کی خوبصورتی سے غافل ہیں ۔۔۔اور جو جاگ رہے ہیں اور خواب نہیں دیکھتے وہ فطرت کی دلکشی اور خوبصورتی کے مستحق ہیں ۔۔۔تم جاگ رہے ہو اور ہمیشہ جاگتے رہنا ۔۔۔۔ جب میں وآپس آنے لگا تو قبیلے کے سردار نے کہا ۔۔۔۔تم سو سال کے بعد یہاں آئے ہو ۔۔۔تم اس جگہ پر آنے کے حقدار تھے ۔۔۔۔دانائی اور زہانت فطرت سے محبت کے سبب ہی انسان میں آتی ہیں ۔۔۔دانائی کا مطلب ہے اندر کی دنیا کو جاننا۔۔۔۔زہین وہ ہوتا ہے جو فطرت کی خوبصورتیوں اور دلکشیوں سے خود کو بھی محظوظ ہو اور دوسروں کو بھی فطرت کے لطف سے روشناس کرائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیام نے کہا جان وہاں سے وآپسی کے بعد سب سے پہلے میں تمہارے پاس آیا ہون ۔۔۔۔جان ستر سال کا بدصورت بوڑھا وہان سے ایک خوبصورت جوان بن کر وآپس لوٹا ہے ۔۔۔لیام اور جان کی گفتگو ابھی جاری تھی ۔۔۔۔اسی دوران جان کی بیوی اور تین بچے شور شرابے کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے ۔۔۔لیام نے جان سے اجازت چاہی ۔۔۔۔اور جان کے گھر سے خاموشی کے ساتھ فطرت کی طرف وآپس لوٹ گیا ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔