جاپانی افسانچہ
سیمنٹ کے بیرل میں رکھا خط ( セメント樽の中の手紙 )
( Letter in a Cement-Barrel … 1926 )
ہایاما یوشیکی ( Hayama Yoshiki)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
’میٹسوڈو یوزو‘ بیلچے سے ’ مکسچر‘ میں ’ کنکریٹ ‘ کو یکجان کر رہا تھا ۔ اس کے جسم پرایسا کہیں اور تو نہ تھا لیکن اس کا اوپرلا ہونٹ ، ناک اور بال سیمنٹ کی گرد کی وجہ سے ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے ان پر سرمئی پلستر ہوا ہو ۔ اس نے اپنے نتھنوں میں انگلی گھسائی تاکہ اس کنکریٹ کو صاف کر سکے جس نے اس کے ناک کے بالوں کے ساتھ چمٹ کر انہیں پتھرا دیا تھا ۔
میٹسوڈو کو اپنے نتھنوں کے بارے میں طویل گیارہ گھنٹوں تک پریشان رہنا پڑا تھا ( اپنی شفٹ کے دوران اسے کھانے کے وقفے کے علاوہ تین بجے ایک اور وقفہ ملا تھا لیکن کھانے کے وقفے میں وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے میں مگن رہا اور تین بجے والے وقفے میں وہ ’ مکسچر‘ کو صاف کرنے میں مصروف رہا یوں وہ اپنے نتھنے صاف نہ کر سکا ) ۔ اس سارے عرصے میں اس کی ناک گندی ہی رہی ۔ اور یہ یقیناً پلستر کے ایک ’ سانچے‘ کی طرح سخت ہو چکی تھی ۔
دن ، جب ، اپنے اختتام کے قریب تھا تو سیمنٹ کے بیرل سے ، جسے وہ اپنے تھکے ہوئے ہاتھوں سے ہلا جلا رہا تھا اک شے ابھر کر سامنے آئی ۔ ۔ ۔ یہ ایک چھوٹا سا لکڑی کا ڈبہ تھا ۔
” یہ کیا ہے؟ “ ، میٹسوڈو نے ایک لمحے کے لئے سوچا ، لیکن ابھی اس کا کام ختم نہیں ہوا تھا ۔ اس نے ’ تغاری‘ کو منہ تک بھرا اور اسے ’ مکسچر‘ میں جا انڈیلا اور سیمنٹ کے بیرل کے پاس مزید کام کرنے کے لئے واپس آیا ۔
” اس طرح کا ڈبہ سیمنٹ کے بیرل میں کیا کر رہا ہے ؟ “ ، میٹسوڈو نے ڈبہ اٹھایا اور اسے اپنے تھیلے میں ڈال لیا ۔ یہ زیادہ وزنی نہ تھا ۔ ” ایسا نہیں لگتا کہ اس میں پیسے ہوں ۔ “ ، اس نے سوچا اور دوسرا بیرل کھولا ۔ میٹسوڈو کے پاس مزید سوچنے کا وقت نہیں تھا ؛ اسے اور تغاریاں بھرنا تھیں ۔
بالآخر کنکریٹ کا مکسچر خالی ہی گھومنے لگا ، جس کا مطلب تھا کہ اس دن کا کام ختم ہوا ۔
میٹسوڈو نے مکسچر کے ساتھ لگے ربڑ کے پانی والے پائپ کو پکڑا ۔ اس نے پہلے چہرے اور پھر ہاتھوں کو دھویا ، گلے میں کھانے کا ڈبہ لٹکایا اور گھر کی طرف چل پڑا ۔ اسے کچھ کھانے اور پینے کی شدید خواہش ہو رہی تھی ۔’ پاور پلانٹ ‘ ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے اس کا کام تقریباً ختم ہو گیا ہو ۔ جنوبی مشرق میں برف سے ڈھکا ’ ماﺅنٹ اینا ‘ تاریکی میں چمک رہا تھا ۔ میٹسوڈو کا پسینے سے بھرا جسم اندر ہڈیوں تک یخ تھا ۔ ’ کِسو‘ دریا کا پانی اس کے پیروں تلے آواز پیدا کرنے کے علاوہ جھاگ بھی بنا رہا تھا ۔
” اے مسیحا ، میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری بوڑھی عورت ایک اور بچے کو جنم دے ۔ ۔ ۔ “ ، میٹسوڈو نے جب اپنے کثیر الاتعداد بچوں کے بارے میں سوچا ( اگلا اسی سرد موسم میں پیدا ہونے والا تھا ) ، اس کی بیوی انہیں پیدا کئے جا رہی تھی ، وہ یہ سوچ کر مکمل طور پر مایوسی میں ڈوب گیا ۔
” دن میں دو وقت کا کھانا ، کرایہ ، کپڑے ۔ ۔ ۔ میں تو اپنے بجٹ کو نظر انداز کئے بِنا شراب کا ایک گھونٹ بھی نہیں پی سکتا ! “
اچانک اسے اپنے تھیلے میں رکھے لکڑی کے ڈبے کا خیال آیا ۔ اس نے اسے نکالا اور اپنی پتلون کے ساتھ رگڑ کر اس پر جمی سیمنٹ کی گرد کو صاف کیا ۔
ڈبے پر کچھ نہیں لکھا تھا لیکن وہ اچھی طرح سے بند تھا ۔
” ایسا لگتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اسے کھولے ۔ “
میٹسوڈو نے اسے ایک چٹان پر پٹکا لیکن وہ نہ کھلا ۔ آخر غصے اور مایوسی کے عالم میں اس نے ڈبے کو اپنے پیر تلے رکھا اور زور لگایا ۔ ڈبہ ٹوٹ گیا ۔
ڈبے سے میٹسوڈو کو کپڑوں کے چیتھڑوں میں لپٹا ہوا ایک بوسیدہ کاغذ کا ٹکڑا ملا ۔ اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی ؛
” میں’ این ۔ ۔ ۔ سیمنٹ ورکس ‘ میں سیمنٹ کے تھیلے سینے والی ایک عورت ہوں ۔ میرا محبوب ایک ’ کرشرر‘ میں کام کرتا تھا ۔ سات اکتوبر کی صبح جب وہ ایک بڑے پتھر کو مشین میں ڈال رہا تھا تو وہ خود بھی مشین میں لڑھک کر پھنس گیا ۔
اس کے ساتھیوں نے اسے بچانے کی کوشش کی لیکن وہ مشین میں پڑے پتھروں کے نیچے دب چکا تھا ۔ اس کا جسم اور پتھر زیرہ زیرہ ہو کر اس پٹے پر آ گرے جو مشین کے ساتھ منسلک تھا ۔ پسے ہوئے پتھر لال تھے ۔ پٹے نے یہ سب چکی میں ڈال دیا ۔ جہاں اس سب میں دھات کے باریک ٹکڑے شامل کئے گئے اور ایک دل چیر دینے والی چیخ کے ساتھ سب کچھ باریک پاﺅڈر میں بدل گیا ۔ اور پھر اسے اس وقت تک آگ میں پکایا گیا جب تک وہ سیمنٹ نہ بن گیا ۔
اس کی ہڈیاں ، اس کا گوشت ، اس کی روح ؛ سب اس عمل میں پِس گئے اور وہ سیمنٹ بن چکا ہے ۔ اس کا جو کچھ باقی بچا وہ اس کی وردی کے کچھ چیتھڑے تھے ۔ میں نے وہ تھیلا سیا ہے جس میں وہ موجود ہے ۔
میرا محبوب سیمنٹ بن چکا ہے ۔ اگلے روز میں نے اس خط کے ساتھ لکڑی کا ڈبہ بیرل میں رکھا ۔
کیا تم ایک محنت کش ہو ؟ اور اگر ہو تو مجھ پر ترس کھانا اور مجھ سے رابطہ کرنا ۔
مہربانی کرنا اور مجھے یہ ضرور بتانا کہ اس بیرل کا سیمنٹ کس مقصد کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
اس بیرل کے سیمنٹ کے اندر میرا محبوب بھی سمویا ہوا ہے ۔ اس کو کون استعمال کرے گا ؟ کیا تم پلستر کرنے والے ایک گاریگر ہو؟ کیا تم ایک معمار ہو؟
میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرا محبوب کسی تھیئٹر کی راہداری کا حصہ بنے یا پھر کسی بڑی جاگیر کی بیرونی دیوار کا حصہ ہو۔ ہم اِس سے تو اُسے بچا سکتے ہیں ، کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟
اگر تم ایک محنت کش ہو ، تو مہربانی کرنا اور اس سیمنٹ کو ایسے کسی منصوبے میں استعمال نہ ہونے دینا ۔
میں معذرت خواہ ہوں ۔ یہ اہم نہیں ہے کہ میرے محبوب کا مدفن کہاں ہو گا ۔ اسے اپنی اِچھا کے مطابق برتو ۔ وہ ایک کامل انسان تھا ، اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ اچھے مقصد کے لئے ہی برتا جائے گا ۔
وہ ایک رحم دل ، باوقار اور شریف شہری تھا ۔ وہ ابھی نوجوان تھا ؛ وہ تو ابھی چھبیس برس کا ہی ہوا تھا ۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ جوابی طور پر مجھ سے کتنی محبت کرتا تھا لیکن میں نے اس کے لئے ٹاٹ کا تھیلا سیا ہے بجائے اس کے کہ میں اس کے دفنانے کے لئے کفن سیتی ! تابوت میں لٹائے جانے کی بجائے اسے بھٹی میں جھونکا گیا ۔
جیسے بھی ہو میں اسے تعظیم دینا چاہوں گی ۔ میرے لئے یہ بات معانی نہیں رکھتی کہ اس کا مدفن کہاں اور کتنی دور ہے ۔
اگر تم ایک محنت کش ہو ، تو مجھے اس خط کا جواب ضرور لکھنا ۔ اس کے بدلے میں تمہیں اس کی وردی کے بچے کچھے ٹکڑے دے رہی ہوں ۔ ڈبے میں جن چیتھڑوں میں یہ خط لپٹا ہے وہ اس کی وردی کے ہی ہیں۔ ان میں چٹانی گرد کے علاوہ اس کا پسینہ بھی شامل ہے اور میں نے بہت مضبوطی سے ان کو یکجا رکھا ہے ۔
میں اس تکلیف کے لئے معافی چاہتی ہوں ، لیکن بِنتی کرتی ہوں کہ مجھے یہ ضرور بتانا کہ تم نے یہ بیرل کس روز استعمال کیا ، جہاں استعمال ہوا اس کا درست پتہ ، یہ بھی کہ یہ کس مقصد کے لئے برتا گیا ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی کہ تمہارا نام کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور مہربانی کرکے اپنی حفاظت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ الوداع ''
خط پڑھ کر میٹسوڈو کو اندازہ ہوا کہ بچوں نے اس کے گرد کتنا شور برپا کر رکھا تھا ۔ جیسے ہی اس نے خط میں لکھے پتے اور نام پر نظر ڈالی ، اس نے شراب کا ایک بڑا گھونٹ حلق میں انڈیلا ۔
” عرصہ ہی ہو گیا ہے کہ میں نے خود کو اتنا بہتر محسوس کیا ہو ، اورمجھے بہت عرصے بعد نشہ چڑھا ہے ! “ ، وہ بُڑبُڑایا ، ” مجھے کوری شراب کا ایک اور گھونٹ پینے کی ضرورت ہے تاکہ میں اس سارے معاملے کو ہضم کر سکوں ۔ “
” کیا اب ہمیں تمہارے اس ہنگامے کو سہنا ہو گا جو تم نشے میں دھت ہو کر برپا کرنے والے ہو؟ اس کی بیوی نے پوچھتے ہوئے اسے کہا ۔ ” اور کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ تو بچوں کا ہی خیال کر لو ؟ “
۔ ۔ ۔ اور میٹسوڈو اپنی بیوی کے پیٹ کو دیکھنے لگا جو اس کے ساتویں بچے کی وجہ سے پھولا ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ مکسچر‘ = Mixture ، ریت ، سیمنٹ اور بجری جیسے اجزاء کو یکجان کرنے والی مشین
’ کنکریٹ ‘ = Concrete ، ریت ، بجری اور سیمنٹ کا ملغوبہ
’پاور پلانٹ‘ = Power Plant
’بیرل ‘ = Barrel
’ ماﺅنٹ اینا ‘ = Mount Ena ، جاپان کی چُوبو علاقے میں ’ کیسو ‘ پہاڑوں کی ایک چوٹی
’ کِسو‘ دریا = Kiso River ، جاپان کا ایک دریا جو لگ بھگ دو سو تیس کلو میٹر لمبا ہے اور آئل بے میں جا گرتا ہے ۔
’بجٹ‘ = Budget
’ کرشرر‘ = Crusher ، ایک ایسا مشینی پلانٹ جس میں پتھروں کو توڑا اور چُورا کیا جاتا ہے ۔ لائم سٹون ( چونے کا پتھر ) پیس کر سیمنٹ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہایاما یوشی کی ( Hayama Yoshiki) جاپان کا وہ مصنف ہے جو وہاں کی ’ پرولتاری ادبی تحریک ‘ ( یہ تحریک 1920 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور 1930 کی دہائی کے شروع کے سالوں تک جاری رہی ۔ بعد ازاں جاپانی سرکار نے اس تحریک کو ریاستی جبر کے ساتھ کچل دیا تھا ) کے ساتھ شامل رہا ۔ ناول’ Men Who Live on the Sea ‘ اس کی پہچان ہے ۔ یہ بحری جہاز بنانے والی صنعت میں کام کرنے والے محنت کش کرداروں پر مبنی ، ان کی حالت زار کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ اس کہ کہانیوں میں ’ طوائف ‘ ( 淫売婦 , Imbaifu ) بھی اہم گردانی جاتی ہے جو اس نے 1925 ء میں لکھی ۔ یہ کہانی جاپانی پرولتاری ادبی تحریک کی اولین عمدہ تحریروں میں شمار ہوتی ہے ۔ اس کے کام پر دوستوفسکی اور میکسم گورکی جیسے روسی ادیبوں کا اثر نظر آتا ہے ۔ اس کا سارا کام چھ جلدوں میں 1975/76 ء میں مربوط کیا گیا ۔
پرولتاری تحریک سے جڑے رہنے کے باعث اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیل میں گزارا ۔ اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور محنت کش کیا ، پھر کچھ عرصہ ’ بلو کالر‘ نوکریاں کیں ، ایک ’ ناگویا ‘ اخبار سے بھی منسلک رہا ۔ عمر کے آخری حصے میں وہ مارکسی خیالات سے ہٹ کر جاپانی سامراجی بادشاہت کا حامی ہو گیا تھا ۔
12 مارچ 1894 ء کو پیدا ہونے والا یہ ادیب 51 برس کی عمر میں 18 اکتوبر 1945 ء کو فوت ہوا ۔