19 اپریل 2021 کا دن وہ تاریخی دن تھا،جب ایک “ایلین” نے ایک سیارے پر ہوائی سیر کی۔
یہ لائینیں آپ پڑھ کر کنفیوذ ہورہے ہونگے کہ ابھی تک ایلین تو دریافت نہیں ہوئے، لیکن پھر یہ کن “ایلین” کی بات ہورہی ہے جو کسی سیارے کی سیر بھی کر آئے اور کہیں چرچا بھی نہیں ہوا۔
لیکن اب ایسی بات بھی نہیں۔ آئیے میں آپکو بتاتا ہوں
19 اپریل کے دن، دنیا کے سب سے پہلے اس ہیلی کاپٹر نے ہمارے پڑوسی سرخ سیارے، مریخ کی ہواؤں کی سیر کی، جسکو مکمل طور پر زمین پر بنایا گیا تھا اور اس سرخ سیارے (یعنی مریخ) کے حساب سے یہ ایک ایلین جسم تھا۔ اس ہیلی کاپٹر کا نام انجیونٹی Ingenuity تھا جسکو ہم اردو میں قوت اختراع (تخلیقی قوت) کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ ہیلی کاپٹر، واقعی میں ایک تاریخی تخلیق ہی مانی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کے پیچھے جو خیال تھا وہ آج سے قریبا ساڑھے پانچ سو سال پہلے عظیم اطالوی مجسمہ ساز، پینٹر، انجینیر، پولی میتھ اور صنعتکار، لیونارڈو ڈاونچی کے ذہن رسا میں آیا تھا۔
انجیونٹی ہیلی کاپٹر، مریخی سطح پرکامیابی سے اترنے والے روور، پریزر ونس Perseverance کے ساتھ مقید تھا۔ اس روور کو خلاء میں 30 جولائی 2020کو کیپ کیناورل، فلوریڈا، امریکہ سے چھوڑا گیا تھا ، پھر 203 دنوں اور 384 ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بعد یہ روور مریخی سطح پر 18 فروری 2021 کو اترا تھا۔ اس تاریخ ساز ہیلی کاپٹر نے تین کامیاب پروازوں کے بعد اپنی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ مکمل کیا۔19 اپریل 2021 کو پہلی پرواز کے لیے، Ingenuity نے ٹیک آف کیا، زمین سے تقریباً 10 فٹ (3 میٹر) اوپر ہوا میں معلق ہوا ، پھر ہوا میں وہ کچھ دیر کے لیے منڈلاتا رہا، ایک موڑ مکمل کیا، اور پھر لینڈ کیا۔
ناسا کا کہنا ہے کہ مریخ کی سطح کو چھونے سے پہلے، 4 پاؤنڈ کا Ingenuity rotorcraft دس فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا اور 30 سیکنڈ تک ایک مستحکم حالت میں ہوا میں منڈلاتا رہا۔ خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ مریخی کرہ ہوائی میں نسبتاً کم ہوا کے مالیکیولز ہیں جن کے ساتھ Ingenuity کے دو 4 فٹ چوڑے روٹر بلیڈ پرواز کو حاصل کرنے کے لیے اپنا عمل یعنی ہوا کے اچھال کے سبب پرواز کر سکتے ہیں۔
یہ انسانی تاریخ کا ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا۔ مریخ کے انتہائی پتلے کرہ ہوائی کے ماحول میں پہلی بار مشین کی طاقت سے چلنے والی، کنٹرول شدہ پرواز، اور درحقیقت، زمین سے باہر کسی بھی دنیا میں اس طرح کی پہلی پرواز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد، ہیلی کاپٹر نے بتدریج زیادہ فاصلے اور زیادہ اونچائی کی اضافی تجرباتی پروازیں کامیابی سے انجام دیں۔یعنی ایک زمینی ایلین طیارے نے ایک اجنبی سیارے کی ہواؤں پر حکمرانی قائم کی۔
ناسا کے شمسی توانائی سے چلنے والے تاریخی ہیلی کاپٹر کی مریخ کے ’جیزیرو کریٹرJezero Crater, ـشہاب ثاقب سے بننے والا ایک گڑھا ‘ کی بنجر ڈھلوانوں پر پرواز کے ساتھ، لیونارڈو ڈاونچی اور ایگور سکورسکی Igor Sikorsky بھی رائٹ برادران کے ساتھ ،اس حیران کن حد تک بیرونی دنیا سےکنٹرولڈ فلائٹ کو فعال کرنے کے لیے کریڈٹ کے مستحق ہوگئے۔ لیونارڈو ڈاونچی نے جو بنیادی خیال اپنی ٹیکنیکل ڈرائنگز میں پیش کیا تھا، اسکو ایک ہیلی کاپٹر کا بالکل ابتدائی ڈیزائن کہا جاتا ہے اور اس عملی ڈیزائن کو پریکٹیکلی طور پر مجسم مشین کی صورت میں ایک سابقہ روسی نژاد امریکی انجینیر سیکورسکی نے دنیا کے سامنےاولین پیش کیا۔
ڈاونچی نے روٹر سے چلنے والے ہوائی جہاز کی ابتدائی ڈرائنگ میں سے ایک بنائی تھی اور سکورسکی نے امریکہ کا پہلا تجارتی طور پر قابل عمل ہیلی کاپٹر بنایا۔انجیونٹی کے روٹر بلیڈز بنانے کا مرکزی خیال مطلب اسطرح لیونارڈو کے بنائے ہوئ اسکیچز سے اخذ کیا گیا تھا۔
اس کے باوجود کہ ، نشاۃ ثانیہ (رینی ساں Renaissance ) کے اس آئیکن، لیونارڈو ڈاونچی جو اپنے اس ہیلی کاپٹر کے ابتدائی ڈیزائن کے لیے واضح طور پر کریڈٹ کے مستحق ہیں، نشاۃ ثانیہ کے اس آدمی نے اپنے ہیلی کاپٹر کے ڈیزائن سمیت اپنی بہت سی ڈرائنگ چھوڑی ہیں۔جس سے اس کمال کے شخص کی زہانت اور تخلیقی ذہن کا پتہ چلتا ہے اور انسان ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے۔ لیونارڈو سے پہلے ہیلی کاپٹر جیسی کوئی مصنوعی اڑنے والی چیز کا وجود نہیں تھا، اور نہ ہی کوئی انسان بالکل پرندوں کی مانند ہوا میں پرواز کرنے کا سوچ سکتا تھا۔
ایک ہیلی کاپٹر کی جو خصوصیت اسکو دوسرے طیاروں سے ممتاز بناتی ہے وہ فضا میں عمودی پرواز، ہوا میں منڈلائے رہنا اور ڈائیو لگانا، آگے پیچھے بیک وقت منڈلاتے حرکت میں رہنا اور دیگر مخصوص صلاحیتیں بھی ہیں۔ ہیلی کاپٹر جیسی پرواز کے مماثل قدرت میں صرف دو ہی چیزیں اڑ سکتی ہیں ، ایک ان میں ہمنگ برڈ Humming Bird اور دوسری ڈریگن مکھی (اردو نام بھنبری) Dragon fly ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ کسی پرندے یا کیڑے کی فلائٹ میں ہیلی کاپٹر جیسی خصوصیات نہیں پائی جاتیں۔
ایک ممتاز سائنسی مصنف ، ہنری لیش مین Leishman اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ڈاونچی کا “ایئرل سکرو” یا “ایئر گائروسکوپ” ڈیوائس کا خاکہ سنہ 1489 عیسوی کا ہے جو انکے بہت سارے انجیرئنگ اور سائنٹفک خاکوں والی ایک کتاب میں شائع ہوا تھا اور یہ آرشمیدس کے واٹر اسکرو کی واضح وضاحت تھی، جو کسی سمندری کشتی و جہاز سے پانی نکالنے کے لیے کام آتی تھی۔ لیش مین نوٹ کرتے ہیں ک ڈا ونچی کا مجوزہ آلہ، لوہے کے تار سے بنی ہوئی ایک ہیلیکل سطح پر مشتمل تھا، جس میں کتان (لیلن) کی سطحیں “نشاستہ کے ساتھ ہوا بند” بنی تھیں۔جو کسی چیز کو اڑان بھرنے اور ہوا میں معلق رہنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے تھے۔
لیکن ڈاونچی نے اصل میں اپنی یہ مشین کبھی نہیں بنائی، سوائے شاید کچھ چھوٹے ماڈلز کے، لیش مین اپنی کتاب میں اسکو نوٹ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، وہ لکھتے ہیں کہ ڈاونچی کا خیال اپنے وقت سے واضح طور پر بہت آگے کی چیز تھا۔جیسے لیونارڈو، مستقبل میں انجیونٹی جیسی چیز کا سوچ رہے ہوں۔
لیکن ایگور سیگورسکی کے ہیلی کاپٹر کے بنانے سے قبل، لیونارڈو ڈاونچی کے اس آئیڈیا کو عملی اور تجارتی طور پر قابل عمل بنانے میں مزید چار صدیاں لگ گئیں۔اور 3 جون 1910 کے دن اس روسی انجنینر نے دنیا کے سامنے پہلے ہیلی کاپٹر کی پرواز مکمل کی۔
انجیونٹی کی کامیاب پرواز کےبعد،اب ایک خیال اور انسان کے ذہن میں امنڈتا ہے کہ
کیا انسان مریخ پر کبھی روٹر سے چلنے والے جہاز میں اڑ سکے گا؟
اس کا مکمل اور مفصل جواب تو ظاہر ہے اسی وقت مل سکتا ہے، جب انسانی سرخ سیارے پر اپنی کالونی بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ لیکن طویل وہاں مدتی رہائش میں، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ انسان زمین جیسے حالات جیسے والے راکٹ پروپلشن کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اس ہوائی سفر میں آگے بڑھیں گے جو مریخی سطح کے ارد گرد چند کلومیٹر یا اس سے زیادہ کے مختصر فاصلوں کو قابل پہنچ بنائے گا۔ تاہم سرخ سیارے پر چھوٹے روبوٹک ہیلی کاپٹروں کی آمد مریخ سائنس کے لیے باعثِ فخر ثابت ہو سکتی ہے۔اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اسطرح کے ہیلی کاپٹروں کی اگلی نسل ہی وہاں رہنے والے انسانوں کی ابتدائی ٹرانسپورٹ میں کام آئے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...