لیو ٹالسٹائی کا مذہب
دنیا کی بے شمار بڑی ہستیوں کی طرح عالمی شہرت یافتہ روسی ادیب لیوٹالسٹائی نے بھی اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی شخصیت سے واقف ہونے پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔ جنگ اور امن جیسے عظیم ناول کے مصنف ٹالسٹائی کے حوالے سے جو انکشاف سامنے آیا ہے اس کے مطابق سب سے پہلے اسلام سے ان کا تعارف مشہور عالم عبداللہ سہروردی کی کتاب منتخب احادیث سے ہوا۔ اس کا ان پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے اپنی آخری عمر میں اس کتاب کی روشنی میں ایک کتابچہ ترتیب دیا تھا۔ وہ کتابچہ 1909 میں شائع ہوا۔ ایک روسی مصنفہ فالاریہ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ لیو ٹالسٹائی آخری عمر میں مسلمان ہوگئے تھے۔ فاریہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک عرب سے شادی کی اور اس کے ساتھ اس نے سعودی عرب میں گیارہ سال گزارے۔ سعودی عرب میں رہنے کے دوران ہی اس نے قرآن کریم کا روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ فالاریہ کی تحریر کے مطابق لیو ٹالسٹائی نے اپنی موت سے پہلے وصیت کی تھی کہ انہیں ایک مسلمان کی طرح دفن کیا جائے، اسی وجہ سے ان کی قبر پر صلیب نہیں لگائی گئی تھی۔ لیو ٹالسٹائی کے اسلام قبول کرنے کی خبر کو روسی حکومت نے چھپایا کیوں کہ اسے خطرہ تھا کہ کہیں یہ خبر پوری دنیا میں نہ پھیل جائے اور ان کے چاہنے والے اسلام کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری کتابیں بار بار چھاپی گئیں سوائے اس کتابچے کے۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد 2005 میں پہلی بار یہ کتابچہ ترکی زبان میں ترجمے کی شکل میں شائع ہوا۔ ’یلینا وکیلوفا‘ ایک روسی عیسائی خاتون تھیں جو ٹالسٹائی کی ستائش گو تھیں۔ انہوں نے ترک مسلمان جنرل ابراہیم آغا سے شادی کی تھی۔ اس وقت روسی قانون ماں باپ کو یہ حق دیتا تھا کہ اگر شوہر اور بیوی الگ الگ مذہب کے ہوں تو وہ اپنی اولاد کو کسی بھی مذہب میں رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ یلینا وکیلوفا کو ٹالسٹائی کی اسلام سے دل چسپی کا پتا چلا تو انہیں ایک خط لکھا: محترم معلم ٹالسٹائی میرے پاس معافی کے الفاظ نہیں ہیں کہ میرے پچھلے خط سے آپ کو پریشانی (ہوئی)۔ میں خود آپ کے خط سے پریشان سی ہوگئی ہوں۔ اس وقت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہوں جس کا سامنا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں۔ اس وقت میری عمر 50 برس ہے اور میں تین بچوں کی ماں اور ایک مسلمان ترک کی بیوی ہوں۔ ہم نے مذہبی بنیاد پر نہیں بل کہ قانون کے تحت شادی کی اور ہمارے بچوں کے نام بطور عیسائی رجسٹرڈ ہیں۔ میری بیٹی کی عمر 13برس ہے جب کہ ایک بیٹے کی عمر 23برس ہے اور وہ سینٹ پیٹرز برگ کے ایک انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پڑھ رہا ہے۔ دوسرے بیٹے کی عمر 32برس ہے: وہ ماسکو کے ایک ملٹری کالج میں طالب علم ہے۔ میری اولاد اسلام قبول کرنے کے لیے مجھ سے اجازت مانگ رہی ہے۔ یہاں کے حالات ٹھیک نہیںہیں۔ اجنبیوں کو ویسے ہی پسند نہیں کیا جاتا۔ میری اولاد کی ضد پورے خاندان کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ میرے بچے تاتاری عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں جو اس وقت جہالت کے گڑھے میں پڑے ہیں۔ میں اپنے اس غم کو اکیلے ہی سہہ رہی ہوں… ٹالسٹائی نے اس خط کا جواب یوں دیا: یلینا تمہاری اولاد تاتاری عوام کی مشکلوں کو دور کرنے (کے کام میں حصہ لینا چاہتی ہے) میرے لیے یہ بات خاصی حیران کن ہے۔ جہاں تک ان کی دل چسپی مسلمان ہونے میں ہے وہ آزاد ہیں۔ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن تمہاری اولاد کو اس سلسلے میں سوچنا چاہیے کہ کیا ان کا ایمان مضبوط ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ مسلمان ہونے کے بعد انہیں ہر جگہ یہ بات بتانی چاہیے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ انہیں اسلام کے بارے میں اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہیے۔ وہ عیسائیت پر اسلام کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اگر سب کے سامنے اسلام اور عیسائیت کو رکھا جائے اور انتخاب کی پوری آزادی ہو تو ہر سمجھ دار انسان اسلام ہی کو اختیار کرے گا۔ ہر شخص اس بات کا مکمل شعور رکھتا ہے کہ زندگی کی بنیاد کیا ہے، لیکن یہ شعور اسے دین ہی دیتا ہے کہ زندگی کو کس ڈھنگ سے گزارا جائے۔ دینی فکر کی ترقی صاف اور آسان راستے کے انتخاب میں ہے۔ اس خط میں ٹالسٹائی دوسرے مذہبوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ آخر میں سیدنا محمد ﷺ کی تعلیم کا ذکرکرتے ہیں اور اسلام کو دوسرے مذاہب سے بہتر گردانتے ہیں۔ ٹالسٹائی کے ایک ڈاکٹر دوست ’’ڈی۔ بی۔ ماکو فنیسکی‘‘ نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں ٹالسٹائی کے ساتھ گزارے ہوئے چھ برسوں کا احوال ہے۔ اس میں ٹالسٹائی کے بدلتے ہوئے خیالات اور دوستوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا خلاصہ ہے۔ یہ کتاب چار جلدوں میں 1979 میں ماسکو میں چھپی۔ اس کتاب کی تیسری جلد ٹالسٹائی اور ان کے دوستوں کے درمیان ہوئی بات چیت ہی پر مبنی ہے۔ تیسری جلد کے صفحے 356 پر ابراہیم آغا کے خاندان کے دکھ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ٹالسٹائی کے ڈاکٹر دوست لکھتے ہیں کہ ٹالسٹائی کو یلینا کا ایک خط ملا تھا جس سے وہ کچھ پریشان ہوگئے تھے۔ اس خط کے بارے میں ایک روسی مصنفہ ’’صوفیا اندری یافنا‘‘ کا خیال ہے کہ ممکن ہے یلینا کے دونوں بیٹے ایک سے زیادہ شادی کرنے کے لیے مسلمان ہونا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں ٹالسٹائی نے کہا کہ ’’اس میں کیا حرج ہے؟‘‘ ہمارے سماج میں بھی ایک سے زیادہ شادیاں کی جاتی ہیں… روسی ماں کے خط میں غور و فکر کا بہت کا مواد ہے۔ میں یہ جان چکا ہوں کہ محمد ﷺ عیسائیت سے بلند ہیں۔ وہ انسان کو اللہ کا درجہ نہیں دیتے… اس کلمے میں کوئی کسر نہیں۔ صوفیہ نے سوال کیا کون سا دین افضل ہے: عیسائیت یا اسلام؟ ٹالسٹائی کا جواب تھا: اسلام ہر لحاظ سے افضل ہے۔ اس کے بعد ایک لمبی خاموشی رہی۔ پھر بولے: جب ہم دونوں مذہبوں کا موازنہ کرتے ہیں تو اسلام کو بلند اور ترقی یافتہ دین پاتے ہیں۔ اسلام نے میری بہت مدد کی ہے۔
ماخذ ہندی سہ ماہی کتاب ’’شیش‘‘ اپریل جون 2007، جودھ پور: حوالہ، دنیا زاد، ترتیب آصف فرخی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“