مصنف : لیو ٹالسٹائی (روس)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
ایک دن کچھ بچوں کو پہاڑی نالے سے مکئی کے دانے کی شکل کی ایک چیز ملی ۔ جس کے نچلے حصے کے درمیان میں ایک جھری تھی لیکن وہ مرغی کے انڈے جتنی بڑی تھی ۔ان کے پاس سے گزرنے والے ایک سیاح نے جب اسے دیکھا تو اس نے ایک پیسے میں اسے بچوں سے خرید لیا ۔ اور شہر جا کر اسے بادشاہ کے ہاس بطور عجوبہ بیچ دیا ۔
بادشاہ نے اپنے تمام داناؤں کو اکٹھا کیا اور انہیں حکم دیا کہ اس چیز کی اصلیت معلوم کریں ۔ داناؤں نے خوب سوچ بچار کی لیکن کوئی سر پیر سمجھ نہ آیا ۔ یہاں تک کے ایک دن وہ چیز کھڑکی میں پڑی تھی کہ ایک مرغی اڑ کر اندر آئی اور اسے چونچ مار کر اس میں سوراخ کر دیا ۔تب سب کو معلوم ہوا کہ وہ مکئی کا دانہ ہے ۔تب دانا بادشاہ کے پاس گئے اور اسے بتایا ،” یہ مکئی کا دانہ ہے “
اس انکشاف پر بادشاہ بہت حیران ہوا اور اس نے ان عالموں کو حکم دیا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ کب اور کہاں ایسی مکئی اگائی جاتی تھی ۔ علماء دوبارہ سوچ بچار کرنے لگے اپنی کتابیں کنھگالیں لیکن اس بابت کچھ معلوم نہ کر سکے ۔ اس طرح وہ واپس بادشاہ کے پاس آئے اور کہا ، “ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ہماری کتب میں اس کے بارے میں کچھ درج نہیں ہے ۔آپ کو کسانوں سے پوچھنا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کسی نے اس بارے میں اپنے باپ سے کچھ سنا ہو کہ کب اور کہاں ایسے دانے اگتے تھے ۔
تب بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ کوئی بہت بوڑھا کسان اس کے پاس حاضر کیا جاۓ ۔ اس کے ملازمین ایسا کسان ڈھونڈ کر بادشاہ کے پاس لے آۓ ۔ بوڑھا اور جھکا ہوا ،منہ فق اور بغیر دانتوں کے ، وہ بڑی مشکل سے دو بیساکھیوں کے سہارے ڈگمگاتا ہوا بادشاہ کے حضور پیش ہوا ۔
بادشاہ نے اسے دانہ دکھایا ،لیکن وہ بمشکل دیکھ سکتا تھا ،تاہم اس نے اسے پکڑ لیا ،اپنے ہاتھوں سے اسے محسوس کیا ۔ بادشاہ نے یہ کہتے ہوۓاس سے سوال پوچھا ، “ اے بزرگ ،کیا تم ہمیں بتا سکتے ہو کہ اس جیسا دانہ کہاں اگتا تھا ؟ ۔ کیا تم نے کبھی ایسی مکئی خریدی یا اپنے کھیتوں میں اگائی ۔ ؟ “ بوڑھا اتنا بہرا تھا کہ وہ بمشکل سن سکتا تھا جو بادشاہ نے کہا بڑی مشکل سے اسے بادشاہ کی بات سمجھ آئی ۔
“نہیں” ، آخر کار اس نے جواب دیا ،” میں نے کبھی بھی اپنے کھیتو ں میں ایسی مکئی کاشت نہیں کی اور نہ ہی ایسی فصل کاٹی ۔ نہ ہی میں نے کبھی خریدی ۔ جب ہم مکئی خریدتے تھے تو دانے آج کے دانوں جتنے چھوٹے ہی ہوتے تھے ۔لیکن آپ میرے۔ باپ سے پوچھ سکتے ہیں ۔ہو سکتا ہے اس نے سنا ہو کہ ایسے دانے کہاں اگتے تھے ۔ “
تب بادشاہ نے اس کے باپ کو بلوا بھیجا ۔ اسے ڈھونڈ کر بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا ۔ وہ ایک بیساکھی کے سہارے چلتا ہوا آیا ۔ بادشاہ نے اسے وہ دانہ دکھایا اور بوڑھا کسان جو ابھی تک دیکھنے کے قابل تھا ، نے اچھی طرح اس کا معائنہ کیا ۔ بادشاہ نے پوچھا :
“ کیا تم نہیں بتا سکتے کہ ایسی مکئی کہاں اگا کرتی تھی ۔ ؟ کیا تم نے کبھی ایسی مکئی خریدی تھی یا کبھی اپنے کھیتوں میں کاشت کی تھی ؟ “
اگرچہ بوڑھے شخص کو بھی کچھ کچھ سماعت کا مسلئہ تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے بیٹے سے بہتر سن لیتا تھا ۔
“ نہیں ،” اس نے کہا ، “ میں نے اپنے کھیتوں میں نہ تو کبھی کاشت کی اور نہ ہی ایسی فصل کبھی کاٹی ۔
جہاں تک خریدنے کی بات ہے تو میں نے کبھی خریدی بھی نہیں ،کہ میرے وقتوں میں رقم کا ابھی استعمال شروع نہیں ہوا تھا ۔ہر کوئی اپنی فصل خود اگاتا تھا اور جب کوئی ضرورت مند ہوتا تو ہم آپس میں بانٹ لیتے تھے ۔مجھے نہیں معلوم ایسی مکئی کہاں کاشت ہوتی تھی ۔ ہمارا دانہ بھی بڑا ہوتا تھا اور آج کے مقابلے میں زیادہ پیداوار ہوتی تھی ۔ لیکن میں نے اس طرح کا دانہ کبھی نہیں دیکھا ،تاہم میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ اس کے وقت دانے بڑے ہوتے تھے اور آٹا بھی زیادہ ہوتا تھا ،بہتر ہو گا اگر آپ اس سے پوچھ لیں ۔ “
اب بادشاہ نے اس بوڑھے کے باپ کو بلوایا ۔ اور وہ اسے ڈھونڈ لائے ۔ بادشاہ نے اسے وہ دانہ دکھایا اور بوڑھے دادا نے اسے دیکھا پھر اپنے ہاتھ پر اسے الٹا پلٹا کر دیکھا ۔” عرصہ دراز گزر گیا اتنا نفیس دانہ دیکھے ہوے ۔” اس نے اس کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اسے چکھا اور کہا ،”
“ یہ بلکل وہی ہے “ ،
“ مجھے بتاؤ دادا کب اور کہاں یہ مکئی پیدا کی جاتی تھی ۔ ؟ کیا کبھی تم نے ایسی مکئی خریدی تھی یا اپنی کھیتوں میں بوئی تھی ؟ ۔ “ بادشاہ نے پوچھا ۔
بوڑھے شخص نے جواب دیا ، “ اس قسم کی مکئی میرے وقت میں ہر جگہ پیدا کی جاتی تھی ۔ میں نے اپنی جوانی اسی مکئی پر گزاری تھی اور دوسروں کو بھی کھلائی تھی ۔ یہ وہ دانہ ہے جو ہم بیجتے، کاٹتے اور گاہتے( thresh ) ۔تھے
بادشاہ نے پوچھا ، “ دادا مجھے بتاؤ کیا آپ نے کبھی یہ خریدی بھی ۔؟ یا ساری کی ساری آپ خود ہی پیدا کرتے تھے ۔ “
بوڑھا مسکرایا ، “ میرے زمانے میں ،” اس نے جواب دیا ،” کوئی روٹی خریدنے اور بیچنے کے گناہ کا کبھی سوچتا بھی نہیں تھا اور ہمیں پیسوں کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔ہر شخص کے پاس اس کی ضرورت کے لئے کافی غلہ ہوتا تھا ۔”
“ اچھا ،اب مجھے بتاؤ ،دادا ، “ بادشاہ نے پوچھا ،” تمہارا کھیت کہاں تھا ؟ تم ایسی مکئی کہاں اگاتے تھے ؟ “
دادا نے جواب دیا ، “ میرا کھیت خدا کی زمین تھی ۔ میں جہاں کہیں ہل چلاتا وہی میرا کھیت ہوتا ۔ زمین مفت تھی ۔اسے کوئی بھی شخص اپنی ملکیت نہیں کہ سکتا تھا ۔ محنت وہ واحد چیز تھی جسے انسان اپنی کہہ سکتا تھا ۔ “
“ میرے دو مزید سوالات کا جواب دیں ۔” بادشاہ بولا ۔ “ پہلا یہ کہ اس وقت زمین ایسا دانہ کیوں پیدا کرتی تھی ۔؟ اور اب کیوں بند کر دیا ہے ۔ ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے ۔کہ تمہارا پوتا کیوں دو بیساکھیوں کا سہارا لیتا ہے ،تمہارا بیٹا ایک اور تم کسی بھی بیساکھی کا سہارا نہیں لیتے ۔ ؟ تمہاری آ نکھیں روشن ہیں ،تمہارے دانت مضبوط ہیں اور تمہاری گفتگو واضح اور کانوں کو خوشگوار محسوس ہوتی ہے ۔ یہ سب کیا ہے ۔ ؟ “ اور بوڑھے نے جواب دیا :
“ یہ اس لئے کہ انسانوں نے اپنی محنت کے سہارے زندہ رہنا چھوڑ دیا ہے اور دوسروں کی محنت پر انحصار کرنے لگے ہیں ۔ ۔پرانے زمانوں میں انسان خدا کے قوانین کے مطابق زندگی گزارتے تھے ،ان کے پاس جو بھی تھا ان کا اپنا تھا اور دوسروں کی پیداوار کی حرص نہیں رکھتے تھے ۔
English title
A Grain as Big as a Hen’s Egg
Written in 1886
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...