تحریر : لیو ٹالسٹائی (روس)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
الیوشہ اپنے خاندان کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا ۔ لوگوں نے اسے گو رشک بلانا شروع کر دیا تھا ۔کیوںکہ ایک دن اس کی ماں نے اسے ڈیکن ( کلیسا کا مہتمم) کی بیوی کے لئے پانی لانے کے لئے بھیجا تو وہ پھسل کر گر گیا اور گھڑا / گو رشک ٹوٹ گیا ۔ اس کی ماں نے اسے پیٹا اور لڑکے اسے گھڑا/گورشک بلا کر اس کا مذاق اڑانے لگے ۔ اس طرح الیوشہ گورشک ——الیوشہ گھڑا اس کا عرفی نام مشہور ہو گیا ۔
الیوشہ دبلا پتلا جھکے ہوۓ کانوں والا لڑکا تھا ۔( اس کے کان پروں کی ماند باہر کی طرف نکلے ہوے تھے ) اور اس کی بڑی سی ناک تھی ۔ دوسرے بچے یہ کہہ کر اس پر طنز کرتے کہ الیوشہ کی ناک ایسے ہے جیسے کسی ٹیلے پر بیٹھا کتا ۔ ان کے گاؤں میں سکول تھا لیکن وہ پڑھنا لکھنا نہ سیکھ سکا ،کیوں کہ اس کے پاس پڑھنے کے لئے وقت ہی نہیں تھا اس کا بڑا بھائی شہر میں ایک تاجر کے پاس بطور گھریلو ملازم کام کرتا تھا ۔اس لئے بہت بچپن ہی سے وہ اپنے باپ کے کام میں ہاتھ بٹانے لگا تھا ۔ چھ سال کی عمر میں ہی وہ اپنی بہن جو اس سے کچھ زیادہ بڑی نہیں تھی کے ساتھ مشترکہ چراگاہوں میں بھیڑ وں اور گایوں کا خیال رکھنے لگا تھا ۔ اور جب وہ زرا اور بڑا ہوا تو اس نے گھوڑوں کا رات دن خیال رکھنا شروع کر دیا ۔ بارہویں سال میں وہ ہل چلانے اور بیل گاڑی چلانے کے قابل ہو گیا تھا ۔وہ کوئی خاص مضبوط نہیں تھا لیکن اس میں کام کرنے کا سلیقہ تھا ۔وہ ہمیشہ خوش رہتا ۔ دوسرے بچے اس کا مذاق اڑاتے لیکن وہ پرسکون رہتا یا ہنس دیتا ۔ اگر اس کا باپ لعن طعن کرتا تو وہ خاموشی سے سنتا ۔ جب لعن طعن ختم ہو جاتی تو وہ مسکراتے ہوے اپنا کام دوبارہ سے شروع کر دیتا ۔
الیوشہ انیس سال کا تھا تو اس کے بھائی کو بطور سپاہی لے گئے تو اس کے باپ نے الیوشہ کو بھائی کی جگہ تاجر کے گھر بھائی والی ملازمت بطور صحن مزدور بھیج دیا ۔ الیوشہ کو اس کے بھائی کے پرانے جوتے ، اس کے باپ کی ٹوپی ،اور ایک کوٹ دیا گیا ۔ وہ گاڑی میں شہر روانہ ہو گیا ۔ الیوشہ اپنے لباس سے مطمئن نہیں تھا ،لیکن تاجر تو اس کے حلیے سے بہت مایوس ہوا ۔
“ میرا خیال تھا کہ سمیعون کی جگہ ویسا ہی کو ئی مرد آۓ گا “ . تاجر نے الیوشہ کا ایک بار پھر معائنہ کرتے ہوے کہا ،لیکن تم تو دودھ کی دکان اٹھا لاۓ ہو ،اس کا کیا فائدہ ہو گا ۔ “
“ یہ ہر وہ کام کر سکتا ہے جو آپ اسے کہیں گے —-حقیقت میں یہ سخت جان نوجوان ہے ۔”
“ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ یہ کیا ہے ،بہرحال میں اسے ایک موقع دوں گا ۔ “
“ اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کبھی مڑ کر جواب نہیں دیتا ،وہ بس کام کا شوقین ہے “
“ تم سے بحث نہیں ہو سکتی ،تم اسے میرے پاس چھوڑ جاؤ ۔”
اس طرح الیوشا تاجر کے گھر رہنے لگا ۔ تاجر کا مختصر سا خاندان تھا ۔جس میں گھر کے مالک کی بیوی ،اس کی ماں ، صرف ابتدائی تعلیم یافتہ ،شادی شدہ بڑا بیٹا ،اپنے باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا اور ایک اور بیٹا جو پڑھا لکھا تھا ۔ گرائمر سکول سے فارغ ہونے کے بعد یونیورسٹی گیا ،لیکن بعد میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ۔ آج کل گھر پر ہی رہتا تھا ،اور ایک بیٹی جو سکول میں پڑھتی تھی ۔
وہاں ابتدا میں آلیوشا خوش نہیں تھا ۔ کیونکہ وہ خالص دیہاتی روح تھا ۔ناقص لباس میں اور شہری آداب سے نابلد اور ہر ایک کو “تم “ سے مخاطب کرتا ،لیکن وہ سب جلد ہی اس کے عادی ہو گئے ۔ وہ اپنے بھائی سے زیادہ محنت کرتا ۔ وہ حقیقتا” مسکین اور مڑ کر جواب نہ دینے والا تھا ۔ وہ اس سے ہر قسم کا کام کرواتے اور وہ خوشدلی سے اور جلدی سے سرانجام دیتا ۔ ایک کام سے دوسرے کام میں بغیر وقفہ لئے جت جاتا ۔اپنے گھر کی طرح یہاں بھی ہر قسم کا کام اس کے کا کاندھواں پر آن پڑا ۔ مالک کی بیوی ،اس کے ماں ،اس کی بیٹی اور اس کا بیٹا ,نگران ،خانساماں سب اسے ادھر ادھر بھگاتے رہتے ۔ اور اسے بتاتے رہتے کہ یہ کرو ،وہ کرو ۔ وہاں اس کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیتا “ لڑکے بھاگ کر یہ لے آؤ یا پھر الیوشا یہ کرلو ، تمہیں یاد ہے تم نے یہ کرنا ہے ، یا ادھر دیکھو ،الیوشا بھول نہ جانا ،اور الیوشا بھاگتا ، اور مکمل کرتا ،اور دیکھتا اور کبھی نہ بھولتا اور سب کچھ کر لیتا اور تمام وقت مسکراتا رہتا ۔
اس کے بھائی والے جوتے جلد ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ۔ اس کے مالک نے اسے سوراخوں بھرے جوتے پہننے سے منع کر دیا جن میں سے اس کے ننگے پنجے باہر نکلے رہتے تھے ۔ اور اس کے لئے بازار سے نئے جوتے منگوانے کا حکم دیا ۔ جوتے بلکل نئے تھے اور الیوشا بہت خوش تھا ۔لیکن اس کی ٹانگیں وہی پرانی ہی تھیں اور شام کے قریب تمام دن کی بھاگ دوڑ سے شدید درد کرتیں اور اسے ان پر غصہ آتا ۔ الیوشا کو ڈر تھا کہ اس کا باپ جب تنخواہ لینے آۓ گا تو اگر مالک نے جوتے کی رقم کاٹی تو وہ ناراض ہو گا ۔ سردیوں میں الیوشا پو پھٹنے سے پہلے جاگ پڑتا ،لکڑیاں کاٹتا ،صحن دھوتا ۔گھوڑے اور گاۓ کو چارہ ڈالتا اور پانی پلاتا ۔اس کے بعد چولہا جلاتا ۔ مالک کے بوٹ صاف کرتا اور اس کے کپڑوں کو برش کرتا ۔ سماوار باہر نکالتا اور ان کو صاف کرتا ۔پھر یا تو نگران اسےسامان باہر نکلوانے میں مدد کے لئے بلا تا یا خانساماں اسے آٹا گوندھنے اور دیگچے رگڑنے کے لئے بلا لیتی ۔پھر اسے شہر بھیجا جاتا ،بعض اوقات کسی شخص کو کوئی پیغام دینے کے لئے ،اور بعض اوقات مالک کی بیٹی کو گرائمر سکول میں کچھ پہنچانے کے لئے ۔ بعض اوقات بزرگ خاتون کے لئے لیمپ کا تیل لینے کے لئے ۔
“ کدھر دفع ہو گئے ہو ، بد بخت ؟ کبھی ایک کبھی دوسرا اسے کہتا ۔ “ تم کیوں جاؤ؟ “ الیوشہ بھاگے گا اور لے آۓ گا ۔ الیوشکہ ! ادھر ۔ادھر الیوشکہ ! اور الیوشہ بھاگتا آتا ۔ اسی طرح وہ بھاگتے بھاگتے ناشتہ کرتا اور شازونادر ہی سب کے ساتھ مل کر ڈنر کرتا ۔ خانساماں قسمیں اٹھاتی کہ وہ تمام چیزیں جو ضرورت تھیں نہیں لے کر آیا ، لیکن پھر اسے اس پر ترس آ جاتا اور کوئی نہ کوئی گرما گرم چیز اس کے کھانے کے لئے رکھ دیتی ۔ تہواروں اور تعطیلات کے دوران تو بہت زیادہ مصروفیت ہوتی ۔ الیوشا ان دنوں میں خاص طور پر خوش رہتا کیوں کہ ان خاص دنوں میں اسے بخشیش ملتی ،بہت زیادہ تو نہیں ،لیکن یہ اس کی اپنی ذاتی رقم ہوتی تھی جسے وہ اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا تھا ۔ اپنی تنخواہ کے بارے میں اس نے کبھی سوچا نہیں تھا ،اس کا باپ آتا اور تاجر سے رقم لے جاتا ،ساتھ ہی اسے جوتے اتنی جلدی پھٹے پرانے دکھائی دینے پر سرزنش کرتا جاتا ۔ جب اس کے پاس دو روبل جمع ہو گئے تو اس نے خانساماں کی نصیحت پر عمدہ بنائی والی جیکٹ خرید لی اور جب اس نے پہنی تو خوشی سے ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔
الیوشا بہت کم بولتا اور جب کبھی بات کرتا تو وہ مختصر اور ٹکڑوں میں ہوتی ۔ اور جب اسے کچھ کرنے کا حکم دیا جاتا یا پوچھا جاتا کہ وہ یہ کام کر سکتا ہے تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیتا ،” میں یہ کر سکتا ہوں ،۔” اور فورا” اس کام کو کرنے میں جت جاتا اور کر کے چھوڑتا ۔
جہاں تک عبادت کی بات تھی تو اسے کچھ معلوم نہیں تھا ۔جو کچھ اس کی ماں نے اسے سکھایا تھا وہ بھول چکا تھا ،لیکن پھر بھی وہ صبح اور شام میں عبادت کرتا ، وہ اس وقت ہاتھوں سے کراس بنا لیتا ۔ الیوشا کی زندگی اسی ڈگر پر سال ڈیڑھ سال چلتی رہی ۔ اور پھر دوسرے سال کے دوسرے حصے میں کچھ ایسا ہوا جو اس کی زندگی کا یادگار واقعہ بن گیا ۔ یہ واقعہ اس کی یہ حیران کن دریافت تھی کہ انسانوں کے درمیان تعلقات میں جو باہمی ضروریات سے بنتے ہیں ،کچھ دوسرے خاص تعلقات بھی ہوتے ہیں ،ایسے نہیں جو ایک شخص سے دوسرے کے بوٹ پاش کرواتے ہیں ،یا خریداری گھر لاتے ہیں ،یا گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلکہ اس قسم کے تعلقات جن میں آدمی ، اگرچہ دوسرے کو اس کی ہر گز ضرورت نہیں ہوتی ، محسوس کرتا ہے کہ وہ دوسرے کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کر دے ۔اس کے ساتھ عمدہ سلوک رکھے اور اس نے دریافت کیا کہ وہ الیوشا ایسا ہی مرد/ آدمی ہے ، اسے یہ سب کچھ خانساماں اسٹینیا سے معلوم ہوا ۔ اسٹینیا ایک یتیم اور الیوشا کی طرح محنتی بچی تھی ۔اسے الیوشا کی حالت پر افسوس ہونے لگا ۔ الیوشا کو پہلی دفعہ پتہ چلا کہ اس کی خدمات سے ہٹ کر وہ خود بھی کسی کے لئے اہم ہو سکتا ہے ۔جب اس کی ماں اسے بتاتی کہ وہ اس کے لئے دُکھی ہے تو اس نے کبھی اس بات کو اہمیت نہیں دی تھی ۔وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب ایسے ہی ہوتا ہے ۔جیسے وہ خود اپنے لئے دُکھی ہوتا تھا ۔ لیکن اب اچانک اسے سمجھ آئی کہ اسٹینیا اس سے علیحدہ ہے ، وہ اس کے لئیے افسردہ ہوتی ہے ،اس کے لئے برتن میں کچھ مکھن والا دلیہ چھوڑ دیتی ،جسے جب وہ کھانے لگتا تو وہ اپنی ٹھوڑی اس کے بازو پر ٹکا دیتی ،آستینیں کہنی تک مڑی ہوتیں اور اسے دیکھتی رہتی ۔ وہ اس پر نگاہ ڈالتا اور وہ ہنسنے لگتی تو وہ بھی ہنسنے لگتا ۔
یہ سب کچھ اس کے لئے اتنا نیا اور عجیب تھا کہ پہلے پہل تو وہ ڈر گیا ۔اسے ایسا لگا کہ اس سے اس کے روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ پڑ رہی ہے ۔ لیکن وہ خوش بھی تھا اور جب اس نے اپنے پاجامے دیکھے جنہیں اسٹینیا نے رفو کر دیا تھا تو اس نے مسکراتے ہوے اپنا سر ہلایا ۔اکثر اوقات کام کے دوران یا چلتے پھرتے وہ اسٹینیا کے بارے میں سوچتا اور کہتا ، “ او اسٹینیا ! اور وہ جتنا ممکن ہوتا اس کی مد کرتی اور وہ اس کی مدد کرتا ۔ اسٹینیا نے اسے اپنی ساری ماضی کی زندگی کے بارے میں بتا دیا تھا کہ کیسے وہ اپنے والدین سے محروم ہوئی ۔ کیسے اس کی آنٹی نے اسے اپنی نگرانی میں لیتے ہوے شہر بھیج دیا ۔ کیسے تاجر کے بیٹے نے اس سے بیوقوفانہ حرکات کرنے کی بابت گفتگو کی آور کیسے اس نے اسے اپنی جگہ پر رکھا ۔ وہ گفتگو کرنا پسند کرتی تھی اور وہ اسے سننا پسند کرتا تھا ۔اس نے سن رکھا تھا کہ شہروں میں عموما” کسان مزدور ،خانساماں سے شادی کر لیتے تھے ۔ایک دفعہ اسٹینیا نے اس سے پوچھا بھی کہ کیا اس کے گھر والے اس کی شادی جلدی کر دیں گے ۔ اسنے بتایا کہ اسے نہیں معلوم ،اور یہ بھی کہ وہ کسی دیہاتی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔
“ تو کیا تمہاری نظر کسی لڑکی پر ہے ؟ اس نے ہو چھا ۔
آہ ،میں تم سے شادی کرنا چاہوں گا ۔ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟
“ زرا دیکھو تو ، یہ وہی الیو شکا گھڑا ہے ،محض گھڑا ، کیسے اپنی پسند کا اظہار کر رہا ہے” ,اسٹینیا نے ہاتھ میں پکڑے تو لئے سے اسے ضرب لگاتے ہوے کہا ، “ بھلا میں کیوں تم سے شادی نہیں کروں گی ؟“
بدھ کے بعد کے دنوں میں جب بوڑھا کسان اپنی رقم وصول کرنے آیا ۔ تاجر کی بیوی سن چکی تھی کہ الیکسی اسٹینیا سے شادی کا منصوبہ بنا رہا ہے ،اور اسے یہ بلکل پسند نہیں آیا تھا ۔” وہ حمل سے ہو جاۓ گی ،تو ایک بچے کے ساتھ تو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں رہے گی ۔ “ یہ بات اس نے اپنے خاوند سے کہی ۔
مالک نے الیکسی کے والد کو رقم دیی تو کسان نے پوچھا ، “ لڑکا کیسا کام کر رہا ہے ؟ ،میں نے بتایا تھا وہ بہت مسکین سا ہے “ ۔
“ مسکین ہے یا نہیں لیکن اس نے بہت ہی بے وقوفانہ فیصلہ کر لیا ہے ، اس کا خانساماں سے شادی کرنے کا ارادہ ہے ۔ لیکن میں شادی شدہ لوگوں کو ملازمت نہیں دینے والا۔ یہ ہمارے لئے موزوں نہیں ہے ۔ “
“ وہ بے وقوف ، مکمل بےوقوف ۔ دیکھو تو بھلا وہ کیسی باتیں سوچ رہا ہے “ باپ نے کہا ۔ “ آپ اس کا اعتبار نہ کریں میں اسے صاف،صاف سمجھا دوں گا کہ اسے یہ ارادہ ترک کرنا ہو گا ۔ “
باورچی خانے میں جا کر باپ میز پر بیٹھ کر بیٹے کا انتظار کرنے لگا ۔ الیوشا کام کے لئے باہر گیا ہوا تھا ۔ جب وہ واپس آیا تو ہانپ رہا تھا ۔
“ میرا خیال تھا کہ تم سمجھدار لڑکے ہو ۔لیکن یہ کیا ہے جو تم سوچ رہے ہو ؟ “ باپ نے پوچھا ۔
“ میں کچھ بھی نہیں سوچ رہا ۔ “
“ تمہارا کیا مطلب ہے کہ تم کچھ نہیں سوچ رہے ؟ ۔ تم نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ جب صحیح وقت آۓ گا تو میں تمہاری شادی خود صحیح شخص سے کروا دوں گا، کسی شہری پھوہڑ سے نہیں ۔ “باپ کچھ دیر تک بولتا رہا ،الیوشا وہاں کھڑا آہیں بھرتا رہا ۔ جب اس کے باپ نے بولنا بند کیا ،الیوشا مسکرایا ،” تو مجھے ساری بات ختم کرنی ہو گی ۔”
“ یہی ٹھیک ہے ۔”
جب اس کا باپ چلا گیا اور وہ اسٹینیا کے ساتھ اکیلا رہ گیا تو اس نے اسٹینیا سے کہا ، ( جب باپ بیٹے کی گفتگو ہو رہی تھی تو وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ساری گفتگو سن رہی تھی ۔)
“ ہمارا پروگرام درست نہیں تھا ، کیا تم نے اسے سنا ؟ وہ سخت ناراض ہے ۔ وہ اس کی اجازت نہیں دے گا ۔ “
اسٹینیا نے کچھ نہیں کہا لیکن رونے لگی اور اپنا چہرہ اپنے ایپرن میں چھپا لیا ۔
الیوشہ نے اپنی زبان سے زوردار آواز نکالی ۔
“ اس کے خلاف جانے کا کوئی فائدہ نہیں ،بلکل واضح ہے کہ ہمیں سارا پلان ترک کرنا ہو گا ۔”
اس شام جب تاجر کی بیوی نے اسے شٹر بند کرنے کا حکم دیا ،تو اسٹینیا نے اس سے پوچھا ، “ تو کیا تم اپنے باپ کی بات مانتے ہوے اپنے احمقانہ خیالات ترک کر دو گے ؟ “
“ عقل کرو , میں انہیں چھوڑ چکا ہوں ۔ “ الیوشا نے جواب دیا اور ہنسنے لگا ، پھر فورا” رونے لگا ۔
اس دن سے الیوشا نے اسٹینیا سے شادی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا ،اور پہلے کی طرح رہنے لگا ۔
ایک دن نگران نے اسے چھت سے برف ہٹانے کے لئے بھیجا ۔وہ چھت پر چڑھا اسے صاف کرنے کے بعد اس نے گٹروں سے جمی ہوئی برف ہٹانا شروع کی ہی تھی کہ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ بیلچہ پکڑے ہوے چھت سے نیچے گر گیا ، بد قسمتی سے برف پر گرنے کی بجاۓ وہ صحن میں داخل ہونے والے لوہے کے گیٹ کے لوہے پر گرا ۔ اسٹینیا دوڑتی ہوئی آئی ، مالک کی بیٹی بھی ۔ “ کیا تمہیں چوٹ آئی ،الیوشا؟
“ میرا خیال ہے تم دوبارہ یہ کہہ سکتی ہو ۔لیکن پریشان نہ ہو ۔ “ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن نہ اٹھ سکا ،مسکرانے لگا ۔ وہ اسے چوکیدار کے کمرے میں لے گئے ۔ ڈاکٹر کا مددگارآیا ۔اس نے الیوشا کا معائنہ کیا اور پوچھا ،کہاں درد ہو رہا ہے ؟
“ سارے بدن میں درد ہے ،لیکن زیادہ شدید نہیں ۔ مالک بہت پریشان ہو گا ،انہں میرے والد کو اطلاع بھیج دینی چاہیے ۔ “
الیوشا دو دن اور رات لیٹا رہا اور تیسرے دن انہوں نے پادری کو بلوا لیا ۔
اگر تم مر گئے تو۔۔۔۔؟ اسٹینیا نے پوچھا ۔
“ اگر میں مر گیا ،تو کیا ؟ ،ہم ہمیشہ تو زندہ نہیں رہتے ۔کیا رہتے ہیں ؟ کسی وقت تمہیں بھی جانا ہو گا ۔” الیوشا نے اپنی نارمل آواز میں کہا ۔ “ شکریہ اسٹینیا ،مجھ سے ہمدردی کرنے کے لئے ۔ یہ حقیقتا” بہت اچھا تھا کہ انہوں نے ہمیں شادی نہیں کرنے دی ۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اب ہمارے تعلقات دوستانہ ہیں ۔”
اس نے پادری کے دعائیہ کلمات کا ساتھ اپنے ہاتھوں اور دل سے دیا ،اس کے دل یہ جانتا تھا کہ یہاں زمین پر زندگی اگر دوسروں کی مان کر چلیں تو اچھی گزرے گی اور لوگوں کو ناراض نہ کریں تو وہاں بھی اچھی ہو گی ۔ وہ کچھ زیادہ نہیں بولا ۔ اس نے بس کچھ پینے کے لئے مانگا ،جونہی اس نے پیا تو ایسا دکھائی دینے لگا جیسے وہ کسی چیز پر حیران ہے ۔
وہ حیران دکھائی دیا ،اس نے اپنے آپ کو پھیلایا اور مر گیا ۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
انگریزی میں عنوان:
Alyosha Gorshok
یہ کہانی 1905 میں لکھی گئی۔
لیکن ٹالسٹائی کے مرنے کے بعد 1911 میں پبلش ہوئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...