بات اُس فضا کی ہورہی تھی جس میں مکالمہ ہوسکتا ہے اور جہاں سوالات اُٹھانے والوں کو دشمن کا ایجنٹ کہہ کر سچا ئیوں پر پردہ نہیں ڈال دیا جاتا۔ اس ضمن میں کچھ سوالات ہم نے کل والے کالم میں اٹھائے تھے جن کا تعلق پاکستان کی تاریخ اور سیاست سے تھا ۔ لیکن بہت سے سوالات جو جواب مانگتے ہیں، عالمِ اسلام سے متعلق ہیں اس لیے کہ اگرچہ معیشت ، امن وامان اور سیاست دانوں کی کرپشن کی وجہ سے ہم افغانستان عراق اور صومالیہ کے ساتھ بریکٹ ہوکر رہ گئے ہیں، اس کے باوجود ہم میں سے اکثر پاکستان کو عالمِ اسلام کا لیڈر قرار دینے پر بضد ہیں!
کیا ہم نے اس موضوع پر کبھی مکالمہ کیا ہے کہ پچپن کے قریب مسلمان ملکوں میں سے صرف تین چار ملک آمریت سے بچے ہوئے ہیں۔ ان تین چارملکوں میں بھی پاکستان کی جمہوریت ’’شاہی‘‘ جماعتوں کے پنجۂ وراثت میں جکڑی ہوئی ہے اور ایران ’’جمہوری آمریت‘‘ کا شکار ہے کہ وہاں پارلیمنٹ کے اوپر علما اور فقہا کی ایک جماعت اصل حکمران ہے جس کے بارہ میں سے نصف ارکان نامزد ہوتے ہیں۔ علما کی یہ جماعت (گارڈین کونسل) پارلیمنٹ کے کسی بھی اقدام کو ویٹو کرسکتی ہے۔ سوال جو اُٹھتا ہے یہ ہے کہ آخر مسلمان ملکوں میں جمہوریت کیوں نہ پنپ سکی ؟اکیسویں صدی کا سورج سوا نیزے پر ہے اور مراکش سے لے کرشرقِ اوسط کے پانیوں تک ہم پر بادشاہوں کی حکومت ہے اور شام سے لے کر قازقستان تک ایسے ایسے ’’منتخب ‘‘ حکمران قابض ہیں جو تیس تیس چالیس چالیس سال سے الیکشن ’’جیتتے ‘‘ چلے آرہے ہیں ! لیکن ٹھہریے، ہم ایک اور قضیے کا بھی شکار ہیں۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو مروّجہ جمہوریت کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم عباسیوں، اُمویوں اور عثمانی ترکوں کی موروثی سلطنتوں کو ’’خلافت‘‘ کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب پوری دنیا میں موروثی بادشاہتوں کا دور دورہ تھا، اسلام نے اس کی عملی طورپر مکمل نفی کی۔ عہد رسالتؐ سے لے کر خلافتِ راشدہ کے عہدتک کسی نے بھی اپنی اولاد کو حکمران نہ ہونے دیا !
ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ جس سادگی اور احتساب کا دعویٰ ہم کررہے ہیں وہ عملی طورپر صرف ’’غیراسلامی‘‘ جمہوریتوں ہی میں کیوں نظر آتا ہے؟ہم فخر سے کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ حکمران ہونے کے باوجود عدالتوں میں گئے اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ایک عام شہری کے ساتھ ہوتا تھا۔ اُسی سانس میں ہم اپنے حکمرانوں کو عدالتوں سے برتر قرار دیتے ہیں۔ کل ہی ہمارے اٹارنی جنرل صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے کہ ’’صدر اور وزیراعظم کسی عدالت کو جواب دہ نہیں۔‘‘ دوسری طرف امریکی صدر عدالت میں پیش ہوا اور وہ بھی یوں کہ پوری دنیا نے دیکھا اور سُنا۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے صدر کو پولیس سٹیشن پر جاکر نو گھنٹے کی تفتیش بھگتنا پڑی۔ اُس پر کسی خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام تھا۔ اُس روز اسرائیل کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب بھی تھی جس میں صدر کی شمولیت لازم تھی۔ صدر نے پارلیمنٹ سے باضابطہ چھٹی لی اور تقریب میں شامل ہونے کے بجائے پولیس کا سامنا کیا۔ چند ماہ پیشتر حافظ سعید صاحب پاکستانی حکمرانوں کے اللّوں تللّوں کے خلاف عدالتِ عالیہ میں گئے اور انہوں نے اسلامی طرزِ زندگی کے ضمن میں برطانوی وزیراعظم کی سرکاری قیام گاہ کا حوالہ دیا !(اس مقدمے کا کیا بنا؟یہ ایک اور سوال ہے!) ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت کسی ابہام کے بغیر بدر جہ اُتم ثابت ہوتی ہے کہ جوفخر یہ دعوے ہم کرتے ہیں، ان کی عملی تعبیر فقط یہود وہنود کے ہاں پائی جارہی ہے۔ آخر کیوں؟۔ اور پھر اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ ہمیں شرم تک کیوں نہیں آتی۔ صرف من موہن سنگھ کا معیارِ زندگی ہی ہمارے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے۔ مہنگائی کے خلاف احتجاجی جلوسوں میں اس کی بیوی بھی شریک ہوتی ہے۔ ایک بیٹی دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہے۔ دوسری مصنفہ ہے اور تیسری وکالت کررہی ہے۔ یہ سرکاری تقاریب میں جاتی ہیں نہ پریس میں ان کی تصویریں اور خبریں آتی ہیں۔ آخر ہمیں اس سوال کا جواب کیوں نہیں ملتا کہ بھارتی صدر کا صاحبزادہ سرکاری تقاریب میں صدر کے دائیں طرف کیوں نہیں بیٹھتا ؟ بھارتی وزیراعظم کا داماد ورلڈ بینک میں ’’تعینات‘‘ کیوں نہیں ہوتا؟ بھارتی وزیراعظم کا بیٹا دھڑلے سے کیوں نہیں دعویٰ کرتا کہ وہ ایسی بُلٹ پروف گاڑی ایک اور بھی خرید سکتا ہے۔ آخر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی چارسرکاری قیام گاہیں کیوں نہیں؟ بھارتی وزیرِاعظم چکوال سے ہجرت کرکے گیا، اگر ہمارے ہاں اربوں روپے کے خرچ سے ’’جاتی اُمرا‘‘ بن سکتا ہے تو بے وقوف من موہن سنگھ اربوں روپے لگاکر چکوال کا ’’گاہ‘‘ کیوں نہیں بناتا؟ بھارتی پنجاب کے چیف منسٹر کا صاحبزادہ پورے صوبے کی پولٹری صنعت پر قبضہ کیوں نہیں کررہا۔ ہماری پارلیمنٹ کو (جس میں ٹیکس چور اور مجرم بالکل نہیں بیٹھے ہوئے)اس سوال پر ضرور بحث کرنی چاہیے کہ یہود وہنود کے رہنما لندن کے ہیرڈ، یونان کے جزیرے اور ہسپانیہ کے ساحلی قصبے کیوں نہیں خریدتے؟ اور ان بدبختوں کے پاس فرانسیسی اور برطانوی محلات کی چابیاں کیوں نہیں؟
ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ ہماری مقدّس ترین مساجد میں چلنے والے ایئرکنڈیشنر پلانٹ، منیٰ میں چلنے والی ریل گاڑیاں اور ہمارے حاجیوں کو ڈھونے والے جہاز کہاں تیار ہوتے ہیں اور ہم خود کیوں نہیں بناسکتے؟ اُندلس اور بغداد کے عالی شان مدارس کا تذکرہ کرکرکے ہماری زبانیں تھکاوٹ سے شل ہوچکی ہیں اور سُن سُن کر کان پک چکے ہیں لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ پچپن مسلمان ملکوں کے لائق طالب علم لندن اور امریکہ کی درسگاہوں میں کیوں پڑھ رہے ہیں اور جو وہاں نہیں جاسکتے ، جانے کے لیے کیوں تڑپ رہے ہیں۔ ہم بوعلی سینا اور دوسرے اطباّ کی داستانیں بیان کرتے ہیں اور جراحی کے ناقابل یقین واقعات سناتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں تلاش کرتے کہ ہم لندن، ہیوسٹن ،نیویارک، پیرس، سنگاپور اور سڈنی کے شفاخانوں ہی کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ بائی پاس آپریشن کا آغاز اوقیانوس کے اُس پار ہی کیوں ہوا؟ جگر کی پیوندکاری کسی مسلمان ملک میں کیوں نہ شروع ہوسکی؟
یہ محض چند سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں تلاش کرنے چاہئیں ۔ بے شمار سوالات اور بھی ہیں لیکن ؎
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
ان سوالوں کا جواب ضرور تلاش کیجیے لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری طرح آپ پر بھی ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے۔