’’پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اعتماد کا ووٹ لیں‘‘۔
یہ ہے وہ مشورہ جو اسفند یار ولی خان نے وزیراعظم کو دیا ہے۔ یہ ایک خالص ’’جمہوری‘‘ مشورہ ہے جو مفت دیا گیا ہے۔ اسفند یار ولی خان کی اپنی پارٹی میں بھی مثالی جمہوریت ہے۔ آپ پارٹی کے مرکزی انتخابات میں پانچویں بار پارٹی کے ’’بلا مقابلہ‘‘ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ایسے ہی انتخابات کے نتیجہ میں حسنی مبارک، حافظ الاسد ان کے صاحبزادے بشار الاسد اور صدر قذافی سالہا سال کیا، عشروں تک ’’بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہوتے رہے۔ ہارون الرشید جب لکھتے ہیں کہ اے این پی ایک صدی سے پختونوں کو لسانی اور نسلی تعصب کا سبق پڑھا رہی ہے تو سو فی صد سچ ہے۔ ایک با صلاحیت کمیونٹی کو، جو پورے برصغیر میں صدیوںسے ٹیلنٹ ثابت کر رہی ہے، ایک صوبے میں کیا، ایک صوبے کے چند حصوں میں مقید کر کے رکھ دیا۔ یہاں تک کہ صوبے کا چیف منسٹر لگانا ہو یا کراچی سے سینیٹر بنوانا ہو، اپنے ہی خاندان کو فوقیت دیتے رہے ہیں۔ یہ سانحہ بھی ماضی قریب ہی میں ہوا کہ ان کے کارکنوں نے اردو میں بات سننے سے انکار کر دیا، اس لیے کہ پنجاب ہائی کورٹ نے کوئی بات کالا باغ ڈیم کے بارے میں کہہ دی تھی، اس کا غصہ بیچاری اردو پر نکالا جا رہا تھا۔ اسفند یار ولی خان کو کارکنوں کی منت سماجت کرنا پڑی کہ اردو میں بات نہیں کریں گے تو صحافیوں تک موقف کیسے پہنچائیں گے۔ یہ ہے وہ ’’کنٹری بیوشن‘‘ جو اے این پی کا پاکستانیت میں ہے! تب اس کالم نگار نے لکھا کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں تو پختون ہمیشہ سے صف اول میں رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین سے جوش ملیح آبادی تک، ہمارے دوست اطہر شاہ خان جیدی سے لے کر محسن احسان اور احمد فراز تک، سب پختون ہی تو تھے اور ہیں!
لیکن اصل بات کرنے کی اور تھی۔ تمہید طولانی ہوگئی۔ وزیراعظم پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں۔ بہت خوب! کون سی پارلیمنٹ؟ عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے سیاسی مضمرات و نتائج ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے، انہوں نے ٹیکس نہ دینے کی اپیل کی ہے۔ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے خاندانی اور نسلی ارکان ٹیکس دے رہے ہیں؟ کیا پورے پاکستانی پریس میں یہ حقیقت کئی بار و اشگاف نہیں ہوئی کہ جناب امین فہیم کا نیشنل ٹیکس کارڈ ہی نہیں بنا ہوا۔ انہوں نے گزشتہ دو سال میں کتنا ٹیکس دیا ہے؟ محترمہ فہمیدہ مرزا اور ان کے میاں نے کتنا دیا ہے؟ جناب زرداری نے کتنا دیا ہے؟ شریف خاندان نے کتنا دیا ہے؟ گوشواروں میں تو ارکان پارلیمنٹ کے پاس اپنی گاڑیاں تک نہیں! کیا یہ سول نافرمانی نہیں؟ کیا اپنے ملک کو ٹیکس نہ ادا کرنا حب الوطنی ہے یا کچھ اور؟
دانش ور اور تجزیہ کار دلائل دے رہے ہیں۔ کچھ تو دور کی کوڑی بھی لا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زمانہ وہ نہیں کہ دارالحکومت پر چڑھائی کی جائے۔ بالکل درست! لیکن خاندان تغلق، خاندان خلجی اور خاندان غلاماں کا زمانہ بھی تو نہیں رہا! بجلی کے بل نہ دینا بُری بات ہے۔ عمران خان سمیت کسی کو زیبا نہیں کہ عوام کو بجلی کے بل نہ دینے پر اکسائے۔ لیکن اس بجلی کا کیا ہو گا جو مسلسل چوری ہو رہی ہے؟ اور چور پکڑے نہیں جا رہے۔ اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ کارخانہ دار اور تاجر بجلی چوری نہیں کر رہے۔ اور کیا عوام کو بتایا جائے گا کہ کتنی بجلی پورے لاہور شہر کے لیے مختص ہے اور کتنی صرف رائے ونڈ کے محلات کے لیے؟دارالحکومت کا تو سب کو معلوم ہے کہ جتنی بجلی پورے شہر کے لیے میسر ہے ،اس سے دوگنا رسد ریڈ زون کے رہنے والے عمائدین واُمراء کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ یہ کون سی پولیٹیکل سائنس ہے کہ بڑے بڑے سیاستدان ٹیکس نہ دیں تو پارلیمنٹ میں متمکن ہوں اور عوام ٹیکس نہ دیں تو بغاوت ہے اور کچھ اسے غداری کا نام بھی دیں!جناب عابد شیر علی سمیت حکمران طبقے کے کسی فرد کو معلوم ہی نہیں کہ لوڈشیڈنگ کس چڑیا کا نام ہے۔بل کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔ بجلی کی رسد کئی گنا کم ہے۔پاکستانیوں کو دو واضح طبقات میں بانٹ دیا گیا ہے۔ایک کے لیے سہولیات کالامتناہی انتظام ۔قیمت ادا کریں یا نہ کریں ،ٹیکس دیں یا نہ دیں۔دوسرے کے لیے سہولیات نپی تلی۔ طویل وقفوں کے ساتھ‘ لیکن ادائیگی پوری سے بھی زیادہ۔بیٹوں کی شادیوں پر کنڈے لگانے والے اس ملک میں معززین ہیں۔تو پھر غیر معزز کس کو کہا جائے گا؟
نہیں معلوم عمران خان کے آزادی مارچ کا انجام کیا ہے۔سول نافرمانی تحریک کس رُخ بیٹھتی ہے اور کس انجام سے دوچار ہوتی ہے۔لوگوں کی تعداد بھی متنازع ہے ۔دس لاکھ افراد کے جمع نہ ہونے کے طعنے سنائی دے رہے ہیں۔طاہر القادری کے انقلاب مارچ کا انجام بھی ابھی تک واضح نہیں ہے ۔کامیابی ہوتی ہے یا نہیں۔لیکن اگر یہ کامیاب نہیں ہوتے تو کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان کی کچّی ہو گئی۔عمران خان اور طاہر القادری تو اقتدار میں بھی نہیں،لیکن جو اقتدا ر میں آئے ہیں انہوں نے کلی اختیارات کے باوجود اب تک کیا کیا ہے ؟یہی لوڈشیڈنگ تھی کہ مینار پاکستان پر اس کے خلاف خیمے تنے گئے تھے اور ہاتھوں سے پنکھے جھلا رے گئے تھے۔اب بھی مینار پاکستان پر وہی لوگ حکمران ہیں اور وہی لوڈشیڈنگ ہے بلکہ اس سے زیادہ۔اب خیمہ زن کیوں نہیں ہو رہے؟اب دستی پنکھے کہاں گئے؟ وہ جو کہا گیا تھا کہ فلاں مقتدر شخصیت کو گلیوں میں گھسیٹیں گے اور علی باباچالیس چور کا نعرہ عام کیا گیا تھا! وہ سب منظر نامہ غائب کیوں ہو گیا ہے؟
عوام شاہراہوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ان کے سروں کے اوپر فضائوں میں کیا ہو رہا ہے؟ایک خصوصی جہاز پر سراج الحق صاحب کو ’’منگوایا‘‘ جارہا ہے۔ایک اور ہیلی کاپٹر اڑتا ہے اور پنجاب کے حکمران اعلیٰ کو اسلام آباد سے چک لالہ ایئر پورٹ لے جاتا ہے۔پھر وہاں سے ان کا خصوصی جہاز انہیں لاہور لے جاتا ہے۔زمانے کا اُلٹ پھیر دیکھیے۔ کیا اقبال نے اس صورتحال کے لیے کہا تھا؟ ؎
ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی، سمندر ان کے، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
سب کچھ تو اُن کے تصرف میں ہے۔خاک زادوں کے پاس خاک کے سوا کچھ نہیں!
سنا ہے‘عطاء اللہ شاہ بخاری تقریر کرتے تھے تو پو پھٹے تک کوئی نہیں ہلتا تھا۔آخر میں کبھی کبھی یہ شعر پڑھا کر تے ؎
افشائے رازِ عشق میں گو ذلّتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا جان تو گیا‘
جتانے میں کامیابی ہو جائے تو آدھی لڑائی جیت لی جاتی ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“