(Last Updated On: )
وہ غزل جو شاعری کے ہر دور میں اپنے موضوع اور اپنی ہیئت کے اعتبار سے سرتاج سخن رہی ہے، راہیؔ اُس کی نزاکت ونفاست اور نشیب وفراز سے واقف تھے ، اوراُس کو سنوارنے کے سولاسِنگارکا ہُنر جان گئے تھے۔ یہ اس لیے بھی کہ جس ماحول میں اُن کی پرورش اور نشوونما ہوئی، اُس میں شاعری کو اہمیت حاصل تھی۔ یوں بھی راہیؔ کے آبائی وطن فتح پور کے تعلق سے مشہور ہے کہ ہر صاحبِ حیثیت گھرانے میں کوئی ایک وکیل یا شاعر ضرور ہوتاہے۔ ایسے میں بھلا غلام مصطفی خاں غوری کا گھر کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔ گنگا جمنا کے دو آبے کی صفات کو سمیٹے ہوئے ضلع فتح پور ہمیشہ سے پُرسکون علاقہ رہا ہے۔ اِس کے ایک جانب معروف صنعتی اور ادبی شہر کانپور، دوسری طرف صوفیہ کا مرکز کوڑا جہان آباد، تیسری جانب سنتوں کا شہر باندہ جہاں غالبؔ نے شفاپائی اور چوتھی طرف تہذیبوں کا سنگم الٰہ آباد ہے۔ وسط میں عہدِ قدیم سے بسا ہوا شہر فتح پور اور اس کے قصبات وموضعات بھی اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ اِس خطہ کے بزرگانِ دین میں سید ظہور الاسلام، مولانا عارف ہسوی، ادیبوں میں نیاز فتح پوری، فرمان فتح پوری، ابو محمد ثاقبؔ، ابومحمدسحرؔ، مجاہد حسین حسینی، ضیاء حسنی، اشتیاق عارف اور شعراء میں حسرتؔ، ثاقبؔ، مظفر حنفی، ابوالخیر کشفی عالمی شہرت کے حامل ہیں۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ نے فتح پور کے اُس انٹر کالج میں تعلیم حاصل کی، جہاں سے حسرتؔ موہانی نے ۱۸۹۸ء میں امتیازی حیثیت سے میٹرک پاس کیا تھا۔ انٹر کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے راہی ؔ کانپور گئے۔ کرائسٹ چرچ کالج میں پڑھتے تھے لیکن بیش تر وقت نوین مارکیٹ اور بیکن گنج میں گُزرتا۔ نوین مارکیٹ مزدور یونین کا مرکز تھا جہاں انقلابی شعرا ہر وقت موجود رہتے تھے۔ اور بیکن گنج میں اُن کا مرکز ومحور سید غلام رسول رسولنماؒ کی خانقاہ تھی، جس کے سجادہ نشین علامہ ثاقبؔ کانپوری تھے۔ اُن کی علم دوستی کی بدولت یہاں شہر کے معروف ادیبوں کی محفلیں سجتی تھیں۔ان محفلوں میں غلام مرتضیٰ راہی اپنا کلام سُناتے اور اصلاح لیتے۔ گریجویشن کے بعد راہیؔ روزنامہ سیاست کے د فتر میں (معاون مدیر) اور پھر روڈویز میں سرکاری ملازم ہوگئے۔ کانپور میں اُس وقت ’’سیاست‘‘ اور ’’پیغام‘‘ کی اخبار کی حیثیت سے اور ’’کاوش جدید‘‘ نیز ’’زبانِ ہند‘‘ کی رسائل کے اعتبار سے ادبی اور صحافتی حلقوں میں دھوم تھی۔ راہیؔ اکثر ان اخبار ورسائل میںشائع ہوتے رہتے تھے۔ انھوں نے نعتوں، مثنویوں اور نظموں کے ساتھ خود نوشت سوانح عمری بھی لکھی ؎
وقت کے ذہن میں شاید مرا خاکہ ہی نہیں
اک خلا ہوں کہ تعین مرا ہوتا ہی نہیں
لیکن صنف غزل کی زُلف کو سجانے اورسنوارنے کے ہُنر نے اُن کا یہ مرحلہ جلد ہی طے کردیا۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ اکثر علی گڑھ آتے رہتے تھے۔ انھیں یہاں کا ادبی اور ثقافتی ماحول بہت پسند تھا۔ ۱۹۷۲ء میں جب ان کا روڈویز کے اکاؤنٹس کے شعبہ میں یہاں تبادلہ ہوا تو وہ بے حد خوش تھے ۔ موصوف سرائے رحمن میں تقریباً اٹھارہ برس مقیم رہے۔ اُن کا دفتر پہاسو ہاؤس میں تھا۔ شمشاد مارکیٹ میں وہ ایجوکیشنل بک ہاؤس یا پھر مکتبہ جامعہ میں تشریف لاتے، جہاں ادیبوں کے جم گھٹوں میں ادبی بحث ومباحثہ کا سلسلہ رہتا تھا۔ آشفتہ چنگیزی، ابوالکلام قاسمی ، فرحت احساس، عبید صدیقی اور انجم نعیم کی آواز میں سب کی آوازیں دب جاتیں۔ یہاںسے راہیؔ صاحب امین اشرف یا پھر منظور ہاشمی کے گھر جاتے تھے۔ اکثر و ہ اسعدؔبدایونی کے ساتھ آفتاب ہوسٹل بھی آتے تھے۔ میں اُس زمانہ میں آفتاب ہاسٹل کی بالائی منزل پر ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے رہتا تھا۔ اسعدؔ بدایونی کا کمرہ ہوسٹل کے زیریں حصہ میں تھا۔ میری سینئرٹی کا لحاظ کرتے تھے اور مجھے چائے پر نیچے بلالیتے تھے۔ سبطین اخگر، نوری شاہ یا پھر رئیس الدین رئیسؔ بھی موجود ہوتے اور پھر ہم سب بڑے احترام کے ساتھ راہیؔ صاحب کاکلام سُنتے تھے۔ ریٹائرمنٹ (۳۱؍مارچ ۱۹۹۵ء) کے بعد جب تک چلنے کی سکت رہی، وہ علی گڑھ تشریف لاتے رہے۔غلام مرتضیٰ راہیؔکا چھ دہائیوں پر مشتمل شعری سفر مسلسل ترقی پذیر رہا۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’لامکاں‘‘ ۱۹۷۱ء میں منظر عام پر آیا۔ اس میں ۸۸؍ غزلیں شامل ہیں۔ نُصرت پبلشرز، لکھنؤ نے اسے اہتمام سے شائع کیا تھا۔ ادبی حلقوںمیں اسے بہت پسند کیا گیا اور مسلسل تبصرے ہوتے رہے۔ دوسرے مجموعہ ’’لاریب‘‘ میں ۷۰؍غزلیں ہیں۔ ۱۹۷۳ء میں یہ دلنواز پبلی کیشنز، بمبئی سے شائع ہواہے۔ تیسرا ’’حرفِ مکرر‘‘ دونوں مجموعوں کا مشترکہ جدید ایڈیشن، ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آیا۔ اِس کی ترتیب وتنظیم اور اشاعت میں راہیؔ خود شامل تھے۔ ’’حرفِ مکرر‘‘کا انتساب انھوں نے علی گڑھ کے دوستوں کے نام کیا ہے۔ چوتھا ’’لاکلام‘‘ ۲۰۰۰ء میں ’’شب خُون‘‘ کتاب گھر، الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ اِس کا انتخاب شہریار نے ،اور ترتیب عقیل شاداب نے قائم کی تھی۔ ’’لاکلام‘‘ کے پیش لفظ میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے:
’’جدیدیت کا سورج چمکا تو جہاں بہت سی نئی باتیں ظہور میں آئیں، ایک بات یہ بھی ہوئی کہ بہت نو عمر شعراء جنھیں اندھیرے ماحول میں اپنی راہ نہیں مل رہی تھی یا جن کی صلاحیتوں پر نئی دریافت کی کرن نہیں پڑی تھی، انھوں نے یا تو اپنی راہ نکال لی یا ان کی صلاحیتوں کو روزِ روشن میں آنے کا موقع ملا۔ غلام مرتضیٰ راہیؔ موخر الذکر گروہ کے، قابلِ قدر اور قوت مند نمائندے کی حیثیت سے اربابِ نظر کے سامنے آئے اور بہت جلد سب کو معلوم ہوگیا کہ نئی اردو غزل کو ایک سنجیدہ، محنت کوش اور دور رس شاعر مل گیا ہے۔ ان کا کلام روز بہ روز روشن سے روشن تر ہوتا گیا۔ ’’لامکاں‘‘ اور ’’لاریب‘‘ دو مجموعے تھوڑے تھوڑے وقفے سے ۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئے۔ غلام مرتضیٰ راہیؔ نے ان مجموعوں میں غزل کی متانت کو نئی لفظیات کی تلاش کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی بڑی خوش آئند کوشش کی تھی۔ مجموعی طور پر ان کے یہاں متفکر ذہن اور متجسّس روح کی کارفرمائی نظر آتی تھی اور ان کے لہجے کی پختگی اُنھیں جدید غزل کے کسی ایسے ٹھکانے کی طرف لے جانے کا وعدہ کرتی تھی جہاں روایتی ’’روایت پسندی‘‘ اور ’’روایتی جدیدیت‘‘ دونوں کا ہی گزر نہ تھا‘‘۔
اِس بابت فاروقی صاحب مزید فرماتے ہیں:
’’راہیؔ کی نئی غزلوں میں آہنگ کا تنوّع گزشتہ مجموعوں سے زیادہ ہے۔ ان کے یہاں آہنگ میں وہ نرم رَوی تو کبھی نہ تھی جسے لوگ غزل کے لیے ضروری جانتے ہیں، لیکن پچھلی غزلوں کے آہنگ میں جو تنوع تھا وہ غیر یقینی کی منزل سے آگے نہ جاتا تھا۔ گویا شاعر خود یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہو کہ کس لہجے میں شعر کہنا ہے۔ اب جو تنوع ہے اس میں کھردُرے پن اور بے یقینی کی جگہ نئے لہجے دریافت کرنے اور اُنھیں کامیابی سے نبھالے جانے کا اعتماد بھی ہے۔
ایسی عمر میں جب اکثر شاعر تھک کر بیٹھ چکے ہوتے ہیں، غلام مرتضیٰ راہیؔ نئے مرحلے تسخیر کررہے ہیں‘‘۔
پروفیسر شمیم حنفی ’’لاکلام‘‘ کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’غلام مرتضیٰ راہیؔ صاحب اور ان کی شاعری سے میرا تعارف تقریباً تیس برس پُرانا ہے۔ اُن دنوں بہ سلسلۂ معاش ان کا قیام بھی علی گڑھ میں تھا اور وہ اکثر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، شہریار کی موجودگی نے اس زمانے میں یونیورسٹی کے ادبی ماحول کو خاصا پُرکشش بنارکھا تھا۔ راہیؔ صاحب بھی نشستوں اور مشاعروں میں حصّہ لیتے تھے اور شعر سناتے تھے۔
ان کی چند غزلیں سننے کے بعد ہی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ نئے شاعروں کی بھیڑ میں اُنھیں آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری پر روایت کا غلبہ تھا، پُرانے مضامین کو اختیار کرنے سے وہ گھبراتے نہیں تھے۔ قافیہ پیمائی اور قدرتِ کلام کا اظہار بھی وہ کرتے تھے، لیکن اِسی کے ساتھ ساتھ ایک شخصی رنگ ان کے شعروں کو ہجوم میں گم ہونے سے بچائے رکھتا تھا۔ وہ ایسے تجربے بھی نظم کرتے تھے جن کا تعلق نئے طرزِ احساس اور شاعری کے نئے محاورے سے تھا۔ مجھے ان کی شعروں میں جو بات اچھی لگی یہ تھی کہ تخلیقی واردات کے کامراں لمحوں میں ان کا شعور رچا ہوا، ان کی حسیّت اپنے عہد سے مشروط، ان کا لہجہ منفر اور ان کی زبان تربیت یافتہ دکھائی دیتی تھی۔ ایک خاص قسم کی چابک دستی بیان میں اور شاعرانہ وفور ان کے ادراک میں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ خوبیاں راہیؔ صاحب کے تمام ہم عصروں کے یہاں نہیں ملتیں۔ فکر کی تازگی کو قائم رکھنا اور اسی کے ساتھ اپنی روایت سے رشتوں کو محفوظ بھی رکھنا مشکل کام ہے۔
راہیؔ صاحب کے بہت سے اشعار کا تیور غزل کے عام مزاج سے مختلف ہے، وہ ناہموار زمینوں اور بیان کی نامانوس علاقوں میں قدم رکھنے سے گھبراتے نہیں۔ غیر شاعرانہ تجربوں اور اسالیب کو بھی آزمانا چاہتے تھے۔ نئے لفظوں کا استعمال بھی کرتے ہیں تاکہ اپنے شعر کے رسمی حدود میں وسعت پید ا کرسکیں‘‘۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ کا پانچواں شعری مجموعہ ’’لاشعور‘‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء میں اور چھٹا مجموعہ ’’لاسُخن‘‘ ’’کلیاتِ راہیؔ کے ساتھ ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ ان کے اس شعری اثاثہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف کی شاعری مخصوص لب ولہجہ کی شاعری ہے۔ ان کے کلام میں گہری معنویت کے ابعاد اُبھرتے ہیں اور یہ ابعاد قاری کے دل ودماغ پر چھاجاتے ہیںاور گھر کرلیتے ہیں۔
لہجے کی پختگی، طبیعت کی روانی، فکر کی رنگارنگی اور احساس کی شدّت راہیؔ کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ اُن کے کلام میں آئینہ، چراغ، سایہ ، دیوار، دریا، ، کشتی، پتھر ، سمندر، چاند، چاندنی، آنسو وغیرہ کلیدی لفظ بن کر اُبھرے ہیں۔ یہ کلیدی الفاظ مختلف زاویوں سے شعری پیراہن میں اس انداز سے ڈھلتے ہیں کہ شعری حُسن میں مزید نکھار آجاتا ہے اور اس کی معنوی خوبی بھی دوچند ہوجاتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
میری صفات کا جب اُس نے اعتراف کیا
بجائے چہرے کے ، آئینہ میں نے صاف کیا
علم وہُنر کی روشنی پھیلتی ہے اِسی طرح
جلتے ہیں اِک چراغ سے جیسے ہزارہا چراغ
کتنا ہی رنگ ونسل میں رکھتے ہوں اختلاف
پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں شجر اک قطار میں
پھینکنے والوں نے پہچان نہ جانی ان کی
جُڑ گئے ہیں مری دیوار میں پتھر کیا کیا
چُھپا تھا ہیرا کوئی راستے کے پتھر میں
ہماری ٹھوکروں نے اس کا انکشاف کیا
ہر شام کناروں کو لگا رہتا ہے دھڑکا
مچھوارا سمندر میں نظر آئے نہ آئے
چھوٹی بحر میں بڑی بات کو اس طرح تحلیل کرنے کے لیے انھوں نے استعاروں کا سہارا ضرور لیا ہے مگر اس انداز میں کہ سادگی اور روانی برقرار رہے۔ تبھی تو کہا گیا ہے کہ سہلِ ممتنع میں وسعتِ معنی کا فن راہیؔ کے یہاں نکھرے ہوئے انداز میں درآیا ہے ؎
میں ترے واسطے آئینہ تھا
اپنی صورت کو ترس، اب کیا ہے
کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی
بُلایا ہے سمندر پار مجھ کو
اتنے فریب کھائے ہیں میں نے کہ اب مجھے
دریا کہیں ملا تو لگے گا سراب سا
سایہ مرے درخت کا اتنا گھنا ہوا
سورج کے واسطے ہے معمّہ بنا ہوا
انسانی جذبات واحساسات کو متشکل کرنے کے فطری عمل کو راہیؔ نے تشبیہ، استعارے اور علامت کے طور پر استعمال کرکے زندگی اور کائنات کے مظاہر کو منعکس کیا ہے۔ اندازِ تخاطب دیکھیے ؎
سبزے کی طرح میں نے بھی خود کو جھکالیا
اب آندھیوں کو سر سے گزرجانا چاہیے
زبان میں سادگی، نرمی، روانی اور اثر آفرینی ملاحظہ ہو ؎
مجھ کو تیری فکر جہاں تک سفر رہے
تجھ کو مرا خیال جہاں تک غبار ہو
عین طوفان میں مقبول ہوئی میری دُعا
ہر تھپیڑا مری کشتی کا مددگار ہوا
صنائع وبدائع کی بازیگری سے بچتے ہوئے راہیؔ نے محاورہ بندی اور قوافی کو پُرلطف انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کے یہاں تشبیہات واستعارات کا استعمال نہایت فنکارانہ انداز میں ہوا ہے۔ اِنہی شعری اسالیب کی بنا پر ہم عصر شعراء میں راہیؔ کی ایک الگ پہچان ہے ؎
اپنی قسمت کا بلندی پہ ستارہ دیکھوں
ظلمتِ شب میں یہی ایک نظارہ دیکھو