اگوکی کی کہانی ۔7
ـــ
ویکھوپائین،دوگلاں پلّےبنھ لوو
یہ نمبرداروغیرہ ڈبل ایجنٹ ہوتےہیں ان پربھروسہ بالکل نہیں کرنا۔ سب سےآگےاپنےہتھیارکی زدپررکھنا
ماڑاموٹاوی شک پےجاوےتےفٹ گولی مارنی اے، بھوراوساہ نئیں کرنا(یہاں لانس نائیک امین کےکان کھڑےہوگئے)
دوسرابارڈرکی نشانی درختوں کی لائن ہے۔ ہندوستان کی طرف بہت گھنےدرخت ہیں اورہماری طرف رڑامیدان۔ جہاں درختوں کی قطار نظرآئےسمجھ جائیں وہ زیرولائن کےپارہے
ہم ظفروال کےمحفوظ دفاعی حصارمیں میجرچشتی سےالوداعی ہدایات لےرہےتھے۔ جب روانہ ہونےلگےتو میجر چشتی نےایک اوربات ہمارےکان میں ڈالی شارٹ کٹ انکا کوڈ ورڈ ہوتا ہے۔ ہماری شکل پر بات سمجھ نہ آنے والے تاثرات دیکھ کر بولے یہ ڈبل ایجنٹ بہت کائیاں ہوتے ہیں، اگر تمہارا گائیڈ گاؤں کا نمبردار کہے کہ صحیح راستہ لمبا ہے اور اسے شارٹ کٹ کا پتہ ہے تو سمجھ جائیں دال میں کچھ کالا ہے۔ شارٹ کٹ بالکل بھی نہیں لینا یہ نہ ہو انڈین فوج کی قید سے بی بی سی اردو سے تم لوگوں کا انٹرویو آرہا ہو
اگے تسیں آپ سمجھداراو، بہترین ماحول۔ہوادارکمرے۔فلش سسٹم
چلو شاباش!
شکرگڑھ سے شمال مشرق کی سمت ایک عسکری افادیت کے رکھ (جنگل) کے پڑوس میں مسرور نام کا گاؤں ہے یہاں ایک پہاڑی ٹیلےپرواقع خواجہ عبدالسلام چشتی المعروف بڑا بھائی کامزارہےجن سےاس علاقےکی زرخیزی اورشاد آبادی کی بہت سی کرامتیں منسوب ہیں
صاحبِ مزارکی نسبت سےیہ گاؤں بڑابھائی مسرورکہلاتا ہے۔ پاک بھارت سرحدپرواقع یہ گاؤں ایک عام بارڈرولیج سےکچھ مختلف نہیں۔ ہاں ایک افادیت اسے عسکری نقشوں پر ممتاز کرتی ہے
مسرور بڑا بھائی کے پاس پاک بھارت سرحد سے وہ لکیر کھنچتی ہے جو بھارتی پنجاب کو جموں کشمیر کی ریاست سے جدا کرتی ہے
اس گاؤں سے نیچےنیچےجنوب اورجنوب مغرب کی طرف بڑھتا انٹرنیشنل بارڈریعنی بین الاقوامی سرحدہےجو کہ 1947 کی ریڈ کلف لائن سےبہت مختلف نہیں مسرور بڑا بھائی سے شمال کی سمت چلتے بارڈر کی قانونی اور عسکری حیثیت اچانک تبدیل ہو جاتی ہے کہ اب یہاں پاکستان کا پنجاب کشمیر کی سرحد کو چھوتا ہے اور پاکستان مقبوضہ وادی کی سرحد کو تسلیم نہیں کرتا کہ ہماری دانست میں کشمیر کا الحاق 1947 میں پاکستان سے ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔
صاحبوایک وعدۂ فردا کی صلیب پر لٹکتے استصوابِ رائے کے دلاسے کو تو دہائیاں بیتیں اور اس دوران پلوں سے بہت سا پانی بھی گزر گیا مگر ایک اٹوٹ انگ کی ہٹ دھرمی اور آزادی کی گوریلا جنگ کے مابین پھنسی اس سرحدی لکیر کو دونوں فوجوں نے اپنا خون پلا پلا کر جوان کیا ہے دونوں ملک اپنی دانست میں اپنے اپنے غاصبانہ علاقے کو آزاد اور ہمسائے کے حصے میں آئے ٹکڑے کو مقبوضہ گردانتے ہیں۔
مسرور بڑا بھائی سے چلتی شمال میں چھمب کے محاذ کو پہنچتی یہ سرحد ورکنگ باؤنڈری کہلاتی ہے کہ اکثر یہاں کوئی بھی مستقل سرحدی نشان کھڑا کرنے پر اور کبھی کبھار بلاوجہ چھوٹےآٹومیٹک ہتھیاروں (مراد اس سے رائفل اور لائٹ مشین گن ہیں) کا فائر کھل جاتا ہے۔ چھمب جوڑیاں سے اوپر جہاں ہمارا کشمیر شروع ہوتا ہے وہاں سے یہی سرحد لائن آف کنٹرول بن جاتی ہے۔1947-48 کی کشمیرکی پہلی جنگ میں واگزار کروائی وادیٔ کشمیرکی اس تنگ سی پٹی کوہندوستانی علاقے سے جدا کرتی یہ لائن آف کنٹرول اکثرآؤٹ آف کنٹرول رہتی ہےکہ یہاں توپخانےکے فائرسےلےکر،سرحدپارحملےاورگھات لگانےکی مکمل آزادی ہے
اسی آزادی کافائدہ اٹھاتےہوئے65 میں جبرالٹراور99 میں کارگل کی جنگ لڑی گئی۔ یہ اوربات کہ لائن آف کنٹرول کی قانونی حیثیت سے قطعِ نظردونوں بارہمیں یہ ماننےکاحوصلہ نہیں ہوا کہ سرحد پار جنہوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کے حق کے لیے ہندوستان کے دل میں نقب لگائی ہے وہ ہماری پاک فوج کے سپاہی ہیں۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا اور لائن آف کنٹرول ہماری اس تحریر کے سکوپ سے باہر ہے تو صاحبو واپس مسرور بڑا بھائی کی ورکنگ باؤنڈری کو پلٹتے ہیں شمال میں کارگل میں ہوئی دراندازی کےجواب میں شکرگڑھ بلج میں ہندوستانی سپاہ کی آمد آمد تھی اور ورکنگ باؤنڈری پرچاند ماری میں اضافہ ہو چلاتھا۔ ڈویژن ہیڈکوارٹر سے ہر ممکن تیاری کے احکام موصول ہوچکے تھے۔ اسی سلسلےمیں ڈویژنل آرٹلری سے ایک پروانہ موصول ہواکہ توپخانےکی یونٹوں کےآبزرور بارڈر پر اپنے اپنے علاقے کی رینجزز پوسٹوں پر رپورٹ کریں اور اپنے نقشوں پر ڈی ایف پلاننگ مکمل کریں
ڈی ایف عکسری مخفف ہے ڈیفنسو فائر کا۔ ڈی ایف پلاننگ کا مطلب ہےکہ اپنےذمہ داری کےعلاقےمیں دشمن کی سپاہ کےممکنہ ارادوں کےپیش نظر اہم علاقوں کوزمین پرشناخت کرکےنقشوں پر مارک کر لیا جائے اور ضرورت پڑنے پر توپخانے کے فائر سے انہیں رجسٹر کرلیا جائے۔ اس طرح جنگ ہونے کی صورت میں ان ٹارگٹس پر بروقت فائر منگوانے میں مدد ملتی ہے۔
عباسیہ کے آبزورز کی قرعہ اندازی میں ہماری بھی لاٹری نکل آئی اور نقشے مارک کرتا انٹیلی جنس افسر اپنا نقشہ پکڑ ظفروال کا مسافر ہوا ظفروال کےجنگی ہیڈکوارٹر میں تمام یونٹوں سےآئے آبزرورز کی بریفنگ ہوئی اور اپنی ذمہ داری کی پوسٹیں الاٹ ہوئی۔ ہر آبزرورپارٹی کو رات کے اندھیرے میں متعلقہ رینجرز پوسٹ تک پیدل جانا تھا اور ایک دن پوسٹ پر گزار کسی اونچی گھاٹی یا آبزرویشن ٹاورکافائدہ اٹھاتے ہوئےمیپ مارکنگ مکمل کرکے اسی رات واپس ظفروال پلٹ آناتھا۔ ظفروال سےآگےلہڑی کےدفاعی بندسےان پارٹیوں کو آگےلےجانےکی ذمہ داری متعلقہ علاقے کے نمبرداروں کی تھی جس نے یا تو خود گائیڈکے فرائض انجام دینے تھے یا پھر علاقے سے واقف گائیڈ مہیا کرنا تھا
ہماری آبزرور پارٹی میں ہمارے علاوہ ٹیکنیکل اسسٹنٹ سپاہی گل شیر اوروائرلیس آپریٹرلانس نائیک محمد امین شامل تھے۔ لہڑی بندکے اوپرجس طےشدہ مقام پرہمارےنمبردارنےملناتھاوہ علاقہ ہمارا دیکھاہوانہیں تھا
ظفروال سےلگ بھگ نومیل شمال مشرق میں ڈیگھ ندی کےچوڑے ہوتےپاٹ کےکنارےلہڑی کامختصر سا گاؤں ہے۔ یہاں سے گاؤں کا ہی ہم نام دفاعی بند شروع ہوتا ہے جو کسی لہردارنشیلےسانپ کی طرح بل کھاتاورکنگ باؤنڈری کے متوازی شکرگڑھ کی سمت چلتاچلا جاتا ہے۔ سرحد سے لہڑی بند کا فاصلہ کچھ جگہوں پر ایک میل جبکہ باقی جگہ چار سے پانچ میل ہے۔ یہ فوج کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ زمانہ امن میں اس بند سے آگے کی پوسٹیں اور مورچے رینجرز کے جوان سنبھالتے ہیں زمانہ امن میں پہلے دفاعی بند سے آگے فوج کے جانے کی ممانعت ہوتی ہے۔ اس کے توڑ میں آپریشنل ایریا ریکی پر آئے افسر سول کپڑوں اور گاڑیوں میں بند سے آگے کا سفر کرتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے وقت پر لہڑی بند سے آگے کا اپنا ذمہ داری کا علاقہ دیکھ رکھا تھا، لیکن صاحب ایک تو اسے عرصہ ہوگیا تھا دوسراوہ کونسامحبوب کاکتابی چہرہ تھایاپھرفیض کی کوئی دلربا دلدارنظم جویادرہتا/رہتی۔ تیسراظفروال کی بریفنگ میں جوعلاقہ ہمیں تفویض ہواتھاوہ ہمارےذمہ داری کےعلاقے سےمختلف تھا، ہم توکیاہمارےفرشتوں کوبھی اس کی خبرنہیں تھی
اورصاحبوخبرہوتی بھی تودن اور رات کی واردات میں بڑا فرق ہوتا ہے دیکھیےبرا نہ منائیےگاجس طرح سکھوں کےبارےمیں بارہ بجےکا لطیفہ مشہور ہےبالکل وہی مثل رات کےحوالےسےفوجیوں پرصادق آتی ہےکہ سورج ڈوبتےہی ان کاشمال گم جاتاہے
اسی دن کی روشنی میں ٹارگٹ ایریاکاکوئی ایک ڈیڑھ کلومیٹردور سےجائزہ لےکرایک انفنٹری پلٹن جب سورج ڈوبنےپرایف یو پی سے آگے سٹارٹ لائن کراس کرتی ہےتویہ فاصلہ ختم ہونےمیں ہی نہیں آتا
چلتےچلتےپلاٹونیں ہدف سےدورکہیں کی کہیں نکل جاتی ہیں۔ جن کمپنیوں پرخاص فضل وکرم ہوتاہےوہ تواس تاریکی میں ایک دوسرےکودشمن سمجھ کرآپس میں لڑمرتی ہیں
اللہ آپکی عمردرازکرےایک سوچوہتر میڈیم میں ہمارےپہلےسی او کرنل فرخ کہاکرتےتھے کہ رات کے اندھیرےمیں کسی کی بات پربھی اعتماد مت کرو، خاص کر بیٹری صوبیدار کی بات پر تو بالکل نہیں۔ آپ پوچھیں گے صاحب وہ سامنے کیا ہے، صوبیدار صاحب ایک یقین کے عالم میں کہیں گے کہ سر کچھ نئیں ڈرم اے۔ آپ نزدیک جاکر دیکھیں گے آگے بندہ بیٹھا ہوگا، مگر تب تک آپ لوڑے لگ چکے ہوں گے کرنل صاحب کی کیا بات ہے۔ ملتان میں اپنےہاتھوں سے کھڑی کی نئی ریزنگ میڈیم رجمنٹ کو ٹل لے کر آئے اور ابتدائی ہچکولوں اور حشر سامانیوں سے ایک آہنی ہاتھ سے نپٹتے کرنل فرخ اپنی مثال آپ تھے۔ آپ وہی ہیں جو ٹل سی ایم ایچ میں جبکہ آرمڈ فورسز نرسنگ سٹاف کا ایک جھرمٹ اترا تو ایک رسان سے میٹرن کو یونٹ ٹی بار میں چائے کی دعوت دے آئے۔ حیرت ہمیں اس بات پر ہوئی کہ اگلے ہی روز نرسوں کا جھرمٹ ون سیون فور کی ٹی بارمیں بیٹھا افسروں کے ساتھ چائے پی رہا تھا۔ افسر کیا پی رہے تھے یہ تفصیل اتنا وقت گزر جانےکےسبب ہمارے دماغ میں کچھ کچھ دھندلا گئی ہے ٹل کی واحد آرٹلری رجمنٹ کی ٹی بار میں سی ایم ایچ کی نرسوں کی چائے کا چرچا دیر تک زبان زدِ خاص الخاص رہا۔ خیر وہ ایک الگ قصہ ہے 👇
کرنل صاحب مزاج اور زبان دونوں کے تیزتھے۔ دل کےجسقدر صاف زبان اسی قدر بلکہ اس سے کہیں زیادہ برعکس اپنےیوسفی کےقبلہ کی طرح گالی تکیہ کلام تھی۔ گالیاں قبلہ کی طرح مقامی اورخانہ ساز تو نہ تھیں مگرفوجی ڈکشنری کی سپرلیٹوِ ڈگری پر ضرور فائز تھیں۔ دیتے وقت اپنے سے سینیئر اور جونیئر کی تمیز نہیں کرتےتھے۔ اکثر فرماتےتھےکہ میں ہوا میں گالیاں دیتا ہوں
بعد ازاں اس نکتے کو یونٹ دربار میں ایک قضیہ نمٹاتےوقت انہوں نےکچھ اس طرح واضح کیا
مقدمہ یہ تھاکہ ایک حوالدار نے سپاہی کوگالی دی جس پر اس نے اسےتھپڑ ماردیاتھا۔ بھرے مجمع میں کرنل صاحب گویا ہوئے (صاحبو نقلِ گالی گالی نہ باشد پی جی 18 وغیرہ وغیرہ)
’دیکھیں اگر میں ابھی کہوں نواز شریف بھین چود ہے، کچھ بھی نہیں ہوگا.
نواز شریف ایتھے کھڑا ہوئے گا تے میری بنڈ پاڑ دئے گا۔ تو کسی بندے کو گالی دینے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ اگلے بندے کی بنڈ پھاڑنے کی کیا کیپیبِلٹی (صلاحیت) ہے‘
(یہاں ہمارےن لیگ کےسپورٹر دل کھٹا نہ کریں۔ بات یہ ہے کہ ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی، عمران خان کی ہوتی تو کرنل صاحب نے عمران خان کی مثال ہی دینی تھی)
دیکھیے بات طول پکڑ گئی ہم تو رات کے اندھیرے میں فوجیوں کے قطب نما کے گم ہوجانے کی فطری کمزوری پر روشنی ڈال رہے تھے۔ لہڑی بند سے آگے ایک نادیدہ سرزمین کی یاترا پر روانہ ہونے سے کچھ دیر قبل طارق اسمعیل ساگر کے رنگ مین رنگی میجر چشتی کی بریفنگ (جس سے اس تھریڈ کا آغاز ہوا تھا) نے صورتحال کو ایک عجیب غیر یقینی کا تڑکا سا لگا دیا تھا۔ گاؤں کا نمبردار جس سے ہم ابھی ملے بھی نہیں تھے کچھ کچھ ڈبل ایجنٹ لگنا شروع ہوگیا تھا۔ بریفنگ کا سب سے زیادہ اثر لانس نائیک امین نے لیا تھا۔ اس کے پاس لوڈڈ جی تھری تھی ایک پل کو تو ہمیں لگا کہ وہ ہمیں بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ رائفل کی نال بھی کچھ کچھ ہماری طرف تھی
نمبردار سےملاپ کے بعد جب ہم نے نقشے کچھ سیدھے کر لیے تھے ہماری آبزرور پارٹی بندسےرینجرز بارڈر پوسٹ کےلیےروانہ ہوئی۔محاذ گرم تھا اور ٹریسر بُلٹس کا پہلا برسٹ اور اس کی آتش بازی ہم نے لہڑی بند پر ہی دیکھ اور سُن لی تھی۔ وقفے وقفے سے برسٹ فائر چل رہے تھے اور کبھی کبھار بہت اوپر سے گزرتی گولیوں کی شائیں شائیں ایک ساکن رات میں بیک گراؤنڈ میوزک کا رنگ بھر رہی تھی
6 ستمبر 1965 کی صبح لاہور کے محاذ پر ایک واقعہ لیفٹیننٹ جنرل محمود نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے دیال کےسرحدی گاؤں میں پاکستان کی 23 فیلڈآرٹلری رجمنٹ کےآبزرورلیفٹیننٹ عبدالمالک نےواہگہ کی طرف سےفائرنگ کی آواز سنی توجیپ لےکرنکلے۔ تھوڑی دورجاکرانہیں جی ٹی روڈکےاطراف ایک اجنبی وردی میں ملبوس فوجی مارچ کرتےدکھائی دیے۔ یہ ہندوستانی فوج تھی۔انہیں لیفٹیننٹ مالک کوجنگی قیدی بنانےمیں دیرنہیں لگی
صاحبوبارڈر سےفائرنگ کی آوازیں توآرہی تھیں مگرہم جیپ پرنہیں بلکہ ایک بےاعتبارگائیڈ کےپیچھےپیدل چلتےچلےجارہےتھے۔ ایک جنگی قیدی بننےکا اندیشہ ہمیں میجرچشتی کی بتائی نشانی کہ ہندوستان کی سرحد کےپار درختوں کےگھنےجھنڈ ہیں ایک اندھیری رات میں آنکھیں پھاڑےرکھنےپرمجبورکرتاتھا اور ہمیں تو چو اطراف تھوڑی دوری پر گھنے درختوں کے جھنڈ سایہ کیے نظر آرہے تھے۔ کہیں بھی جائے مفر نہیں تھی۔ اتنے میں خاموشی سے پیدل چلتے نمبردار نے پہلا ریڈ فلیگ ریز کردیا (سرخ جھنڈا لہرا دیا)۔ سر مینوں اک شارٹ کٹ پتا اے، میری منو تے شارٹ رستہ لینے آں لانس امین نے ایک جست بھری اور نمبردارکو دبوچ لیا۔ امین چارسدے کا پٹھان تھا۔ ویسے ہی لال سرخ رخسار میدانِ جنگ کی پختو میں مزید انار ہوگئے تھے۔ لال انگارہ آنکھوں کے ساتھ امین دہاڑا، خانہ خراب کا بچہ سیدھا چلتے ہو کہ ابھی ایدھر تمہارا لاش گرادے۔ ہمیں شارٹ کٹ نہیں چاہیے نمبردار پہلے ہی بندوق کے نشانے پر آگے چلتے رہنے سے کچھ خوفزدہ سا تھا اس ڈائیلاگ پر تو بالکل بھی روہانسا سا ہوگیا۔ ہم نے اسے سیدھے راستے پر آگے بڑھنےکا کہا تو چل پڑا۔
کچھ فاصلہ مزید طےہوا تو ہمیں لگا کہ نمبردار کی بے چینی کچھ کچھ بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ آگےچل کروہ آگے بڑھنےسےہچکچایا اور ایک لجاجت سے گویا ہوا۔ سر میری گل من لوو سدھا رستہ ڈینجرس اے شارٹ کٹ لے لینے آں
گل شیر نقشے پر اون پوزیشن نکالنےکی تگ ودو کر رہا تھا۔ امین پیچ وتاب کی حالت میں بل کھاتا بمشکل خود کو کنٹرول کرتا ہماری طرف دیکھتاتھا کہ ہم جاسوس نمبردار کو گولی مارنے کا حکم دیں۔
نظر کچھ کچھ اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوئی اور ہم نے سامنے نظر دوڑائی تو ہمیں لگا کہ درختوں کا جھنڈ تو عین ہمارے سر پر آیا کھڑا ہے
اتنے میں نزدیک سے ہی ایک کتا بھونکا۔ تھوڑی دور ایک سرچ لائٹ آن گئی اور آہستگی سے تین سو ساٹھ ڈگری کےزاویے میں گھومنا شروع ہوئی۔
ہمارے بالکل سامنے مورچوں کی قطار تھی، یوں کہ جیسے ہاتھ بڑھا کر چھو لیں۔
یہ کن کے مورچے ہیں
نمبردار بولا، سر ایہہ انڈیا اے !!!
ـــ
(جاری ہے)