لبنان 🇱🇧 مشرق وسطیٰ کا ایک خوبصورت اور مارڈرن ملک جسے "مشرق کا سوئٹزرلینڈ” کا خطاب دیا گیا اور بیروت کو "مشرق کا پیرس” کہا جاتا تھا گزشتہ 2 برس سے ایک خوفناک معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے جس نے لبنان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔۔۔۔اس وقت لبنان ناقابل یقین حد تک معاشی تنگی اور سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہے جس نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں اور جھڑپوں کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔۔۔۔۔لیکن اتنا ہی نہیں ، اس نئے سیاسی بحران نے لبنان کو ایک مرتبہ پھر اپنے جارح ہمسایہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے کنارے پر پہنچا دیا ہے ۔
آخر یہ سب کیسے ہوا ؟
لبنان کے موجودہ سیاسی حالات کیا ہیں ؟
اور اسرائیل کے ساتھ ممکنہ جنگ کے امکانات کتنے سنجیدہ ہیں ؟
یہ جانیں گے ہم اس تحریر میں۔۔
۔۔۔۔۔
تعارف :
لبنان مشرقِ وسطی میں واقعہ ایک عرب ملک ہے جس کا دارالحکومت "بیروت” ہے ۔ اس کا رقبہ 10,452 مربع کلومیٹر اور آبادی 70 لاکھ کے نزدیک ہے۔۔۔لبنان کی قومی زبان عربی اور کرنسی "لبنانی پاؤنڈ ” ہے۔
قومیت کے اعتبار سے لبنانی قوم 95٪ عرب، 4٪ آرمینی اور 1٪ دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔
بات کریں مذہب کی تو اس اعتبار سے لبنان بہت پیچیدہ ملک ہے۔۔۔۔ یہاں 28.7٪ آبادی سنی ، 28.4٪ آبادی شیعہ ، 0.6٪ اسمعیلی۔۔۔۔22٪ میرونائٹ کیتھولک، 5٪ ملکائٹ کیتھولک، 8٪ آرتھوڈوکس، 4٪ اپاسٹلک، 2٪ دیگر مسیحی مسالک۔۔۔اور 5.2٪ دروزی مذہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔
گویا ہم نے جانا کہ لبنان میں مذہبی تقسیم بہت وسیع اور تہہ در تہہ ہے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے آگے چل کر بیرونی طاقتوں نے لبنان کو بہت بری طرح سے مس یوز کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پسِ منظر:
1990 میں جب 15 سالہ لبنانی خانہ جنگی کا اختتام ہوا تو لبنان نے بیرونی مدد، ٹورازم اور عرب ممالک کی طرف سے بھاری عطیات کے بدولت بہت جلد اپنی معیشت کو مستحکم کر لیا۔
لبنان کے لیے ایک بہت بڑا زریعہ آمدنی وہ دسیوں لاکھ لبنانی شہری بھی تھے کہ جو بیرون ممالک میں کام کرکے لبنان رقوم بھیجتے تھے۔ جن میں سے اکثریت ، عرب ممالک میں کام کرتے تھے۔
2010 کی آغاز سے ہی پوری عرب دنیا میں شدید نوعیت کے معاشی بحران، مظاہروں اور خانہ جنگیوں کا آغاز ہوگیا جس کی بدولت لاکھوں لبنانیوں کو واپس وطن لوٹنا پڑا۔۔۔ایک طرف جہاں ان کی طرف سے بھیجی گئی رقوم کا سلسلہ رک گیا تو دوسری طرف وہ لبنان میں واپس آکر بےروزگاری کا شکار تھے ۔۔۔ گویا معیشت پر ایک نیا بوجھ۔
عرب ممالک میں چل رہے اس تباہ کن بحران کے اثرات لبنان پر بھی براہ راست پڑ رہے تھے اور لبنانی حکومت کو اب بھاری بیرونی قرضوں کی ضرورت تھی ۔۔۔۔ اس طرح لبنان پر قرضہ بھی تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔
۔۔۔۔
2011 میں شام میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو لبنان میں قائم دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور جنگجو تنظیم حزب اللہ جو کہ ایران نواز ہے اس نے اپنے ہزاروں جنگجوؤں کو شام کی حکومت کے حق میں شامی اپوزیشن کے خلاف لڑنے کے لیے شام روانہ کرنا شروع کردیا ۔۔۔۔۔ جس کے نتیجے میں تمام سنی عرب ممالک نے لبنان کے لیے اپنی مسلسل چل رہی بھاری فنڈنگ کو فوراً روک لیا۔۔۔۔۔جبکہ۔۔۔۔دوسری طرف لبنان میں حزب اللہ کو ملنے والی سالانہ کروڑوں ڈالرز کی امداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا کیونکہ حزب اللہ شام میں ایرانی مفادات کے لیے لڑ رہی تھی جس کے لیے ایران اسے فنڈنگ کررہا تھا۔۔۔۔ساتھ ہی حزب اللہ نے اس عرصے کے دوران پوری دنیا میں پھیلے اپنے منشیات کے بزنس میں بھی اچھا خاصا اضافہ کرلیا۔۔۔۔مزید برآں حزب اللہ کو ایران اور روس کی طرف سے ملنے والے اسلحے میں بھی ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوتا چلا گیا۔
گویا اب لبنانی حکومت پر گزرتے دن کے ساتھ کمزور اور قلاش ہوتی جارہی تھی۔
جبکہ حزب اللہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طاقتور اور امیر ہوتی جارہی تھی ۔
تو اب جبکہ لبنان میں جب لاکھوں لوگ بیروزگار تھے تو حزب اللہ نے اس بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید سے مزید بیروزگار لوگوں کو اپنے لیے بھی اور شام میں جاری سول وار کے لیے بھی بھرتی کرنا ، تربیت دینا اور شام بھیجنا شروع کردیا ۔۔۔۔ اب چونکہ حزب اللہ عالمی سطح پر ایک دہشتگرد گروہ قرار دیا گیا ہے ۔۔۔۔ تو اس موقعہ پر اب مغربی قوتوں نے بھی لبنان کے لیے اپنی امداد میں بیحد کمی کردی یا پھر سرے سے روک دی ۔۔۔
یعنی تباہ ہوتی لبنانی معیشت پر ایک اور کاری ضرب۔
اب لبنانی حکومت اور اکثریت سیاسی جماعتیں بھی حزب اللہ کے سامنے بےبس اور ان کی سپورٹ کرنے پر مجبور تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظاہرے اور کشیدگی :
17 اکتوبر 2019 کو پورے لبنان میں ایک بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا جسے "ثورہ تشرین اول” کا نام دیا گیا۔
پورے لبنان میں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے جن کا ہدف سیاسی اور معاشی اصطلاحات ، کرپشن اور بےروزگاری کا خاتمہ تھا ۔۔۔۔ اب تک لبنان میں 50٪ سے زائد آبادی خط غربت کے نیچے پہنچ چکی تھی اور پورا ملک بجلی ، فیول ، ادویات اور خوراک کی سخت ترین قلت سے گزر رہا تھا ۔
یہ مظاہرے اب تک جاری ہیں جب میں بیسیوں افراد قتل ، ہزاروں زخمی اور گرفتار ہوچکے ہیں۔
2019 کے اواخر میں شروع ہونے والی کورونا وائرس وبا نے لبنانی معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
۔۔۔۔۔
سانحہِ بیروت 2020:
4 اگست 2020 کو لبنان اپنی تاریخ کے سب سے بھیانک سانحے سے گزرا جب بیروت کی بندرگاہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حزب اللہ۔۔۔۔۔۔ کی طرف سے سٹور کیے گئے 2750 ٹن "المونیم نائٹریٹ” کے ذخیرے میں ۔۔۔۔ حزب اللہ۔۔۔۔ کے ہیںڈلرز کی لاپرواہی کی وجہ ایک ایک قیامتِ صغریٰ کے مترادف بھیانک دھماکہ ہوا جس میں پوری پورٹ تو تباہ و فنا ہوہی گئی ساتھ میں کئی مربع کلومیٹر تک تمام عمارات بھی زمین بوس ہوگئی ۔۔۔۔۔ اس سانحے میں :
208 افراد جاں بحق ۔
7000 افراد زخمی۔
اور 3 لاکھ افراد بےگھر ہوگئے۔
اس دھماکے کی بدولت لبنانی ریاست کی آخری دیوار بھی منہدم ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ صورت حال:
1- اس وقت 1 ڈالر کی ویلیو 1532 لبنانی پاؤنڈز کے مترادف ہے ۔
2- غربت کا تناسب 82٪ ہے۔
3- بےروزگاری کا تناسب 6.70% ہے۔
4- عام چیزوں کی قیمتیں :
چاول = 21000 پاونڈ فی کلو۔
چکن= 24990 پاونڈ فی کلو۔
سیب= 7450 پاونڈ فی کلو۔
کھانے کا تیل = 70000 پاونڈ فی لیٹر ۔
دودھ = 22000 پاونڈ فی لیٹر ۔
ٹی شرٹس = 90000 فی شرٹ۔
پیراسٹامول = 1 لاکھ 80 ہزار پاونڈ فی پتا۔
ڈبل روٹی = 1915 پاونڈ ایک عدد۔
انڈے = 4519 پاونڈ فی درجن۔
کولڈ ڈرنک = 2711 پاونڈ ریگولر بوتل۔
ڈیزل = 274,800 پاونڈ فی گیلن ۔
تو اوور آل یہ صورتحال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرحدی کشیدگی کا آغاز :
لبنان نے اسرائیل سے اپنی آخری جنگ 2006 میں لڑی تھی ۔۔۔ اس جنگ نے لبنانی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بہت بھیانک نقصانات پہنچا تھا ۔۔۔ البتہ یہ جنگ زیادہ طویل نہ تھی اور محض مہینہ ہی چلی۔۔۔تاہم یہ جنگ اسرائیل کے لیے ایک زبردست "ٹف ٹائم” ثابت ہوئی جس میں اسرائیل کو بھی قابل ذکر نقصان اٹھانا پڑا۔
لیکن اب پھر سے لبنان-اسرائیل کے درمیان کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔
۔
لبنان اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز 2012 سے ہی ہوجاتا ہے کہ جب حزب اللہ نے شام کی جنگ میں لڑنے کے لیے اپنے ہزاروں جنگجووں کو شام میں تعینات کردیا ۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان پرانی دشمنی ہے اور اب اسرائیل کو ایک طرف لبنان تو دوسری طرف شام کی طرف سے حزب اللہ کے گھیراؤ کا سامنا تھا ۔
چنانچہ 30 جنوری 2013 سے اسرائیلی افواج بالخصوص اسرائیلی فضائیہ نے شام میں حزب اللہ اور دیگر ایرانی پراکسیز پر حملوں اور بمباری ، میزائل باری کا آغاز کردیا ۔
2013 سے اب تک اسرائیل ، شام میں حزب اللہ اور ایرانی ملیشیات پر تقریباً 700 حملے کر چکا ہے ہے جن میں تقریباً 1000 حزب اللہ و دیگر پرو-ایران جنگجووں کی ہلاکت اور ہزاروں زخمیوں کے علاؤہ انہیں کروڑوں ڈالرز کے مساوی مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔۔۔(یہاں تک کہ آج جب میں یہ مضمون لکھ رہی تھی ٹھیک اسی دوران بھی اسرائیل نے دمشق کر مضافات میں کچھ ایرانی اسلحہ ڈپوز کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔)
اب۔۔۔جب اسرائیل شام میں حزب اللہ و اتحادیوں پر اندھادھند حملوں میں مصروف ہے تو ظاہر ہے حزب اللہ کا غصہ اور جوش انتقام بھی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ان سبھی حملوں کے جواب میں حزب اللہ نے نہ تو شام نہ ہی لبنان سے اسرائیل پر کوئی جوابی کارروائی کی۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔ایسی صورت میں اسرائیل کی طرف سے ایک فل سکیل جنگ شروع ہوجاتی اور حزب اللہ وایران کے لیے حالات مزید سے مزید بدتر ہوئے چلے جاتے۔
لیکن۔۔۔۔
اب لبنانی کرائسس کے آغاز کے ساتھ ہی حزب اللہ نے لبنان سے اسرائیل کے خلاف محدود پیمانے کا ایک نیا محاذ کھول لیا ہے۔
جس کی وجوہات میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جھڑپیں :
✓13 مئی 2021 کو حزب اللہ نے اسرائیل پر 3 راکٹ حملے کیے۔
✓17 مئی 2021 کو حزب اللہ نے اسرائیل پر 6 راکٹ داغے جواب میں اسرائیلی فوج نے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر توپخانے کی مدد سے گولہ باری کی۔
✓ 19 مئی 2021 کو حزب اللہ نے اسرائیل کو 4 راکٹوں سے نشانہ بنایا جس کے جواب میں اسرائیلی آرٹلری کے حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔
✓20 جولائی 2021 کو کو اسرائیل میں حزب اللہ کی طرف سے داغے گئے 2 راکٹس گرے۔
✓ 4 اگست 2021 کو حزب اللہ نے اسرائیل پر 4 راکٹ داغے ۔
✓✓ 6 اگست 2021 کو حزب اللہ نے اسرائیل پر 20 راکٹوں کی بارش کی جس کے بعد اسرائیلی طیاروں نے لبنان میں فضائی حملے کیے۔
✓ 25 اگست 2021 کو حزب اللہ نے بیروت میں ایک مبینہ اسرائیلی ڈرون طیارہ مار گرایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حزب اللہ کی سٹریٹجی :
حزب اللہ ، لبنانی سیاست اور اقتدار پر اپنا مکمل اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔۔۔گویا اب عملاً لبنان کی حکومت حزب اللہ کے پاس ہے ۔
لیکن۔۔۔۔
تباہ حال اور معاشی سقوط سے گزر رہے لبنان کی حکومت حاصل کرنا بھی ایک ڈوبتی کشتی کا کنٹرول حاصل کرنے کے مترادف ہے۔
تو اب حزب اللہ کا اگلا ہدف ہے لبنان کی ساکھ اور معیشت کو بحال کرنا ۔۔۔۔
جیسا کہ میں بتا چکی کہ لبنانی معیشت کا استحکام عرب ممالک کی طرف سے مسلسل جاری بھاری امداد و عطیات کی بدولت تھا ۔۔۔ لیکن اب شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں مخالف فرقہ کے 1 لاکھ سے زائد نہتے شہریوں کے قتل عام کے بعد عرب ممالک کی لبنان کو مالی امداد بھی رک چکی ہے اور سیاسی سپورٹ بھی۔
تو اب حزب اللہ کو ضرورت ہے کچھ ایسا کرنے کی کہ جو اسے عالم اسلام میں ایک مرتبہ پھر ہیرو بنا کر پیش کر سکے۔۔۔۔۔
اسرائیل پوری مسلم دنیا کے لیے ایک دکھتی رگ کی مانند ہے ۔
اور ہر وہ طاقت کہ جو اسرائیل کے خلاف ہو اسے پوری مسلم دنیا میں ہیرو اور معتبر مانا جاتا ہے۔
تو اب حزب اللہ ،لبنان کو مالی امداد اور مسلم ممالک کی سیاسی سپورٹ واپس دلوانے کے لیے ایک بھیانک چال چلنے جارہی ہے۔۔۔۔اور وہ ہے اسرائیل پر حملہ۔۔۔اور پھر 2006 کی ہی طرح اسرائیل کے ساتھ ایک محدود پیمانے کی جنگ۔
یاد رہے 2006 کی جنگ کے بعد ناصرف لبنان کو پوری مسلم دنیا میں ایک ہیرو ملک کا سٹیٹس مل گیا تھا بلکہ اس جنگ کے بعد لبنان کو عرب ممالک کی طرف سے دی جانے والے مالی عطیات ، جنگ کے نقصانات سے کئی گنا زیادہ تھے۔
۔
اب کی بار حزب اللہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے جس کے پاس 1 لاکھ تربیت یافتہ جنگجو اور کم از کم 1 لاکھ راکٹس اور میزائل موجود ہیں جن کی زد میں اسرائیل کا پورا جغرافیہ آتاہے۔۔۔ساتھ ہی اب کی مرتبہ حزب اللہ کے پاس کچھ تعداد میں PGMs یعنی Precision-guided munition بھی موجود ہیں، ایسے میزائل کہ جو ٹھیک ٹھیک مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ساتھ ہی اب حزب اللہ ایک طرف لبنان تو دوسری طرف شام میں بھی مظبوط ہے گویا جنگ کی صورت میں اسرائیل کو بیک وقت 2 محاذوں پر لڑنے کی نوبت آسکتی ہے۔
حزب اللہ کا بنیادی ہدف یہی ہے کہ اسرائیل پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرنے کے دوران، حزب اللہ کے چند ہزار جنگجو بیر شیباء یا اسرائیل کے دیگر چند سرحدی قصبوں پر قبضہ حاصل کر کے وہاں لبنان اور فلسطین کا پرچم لہرائیں (جسے پوری مسلم دنیا میں ایک ‘عظیم فتح’ مانا جائے گا اور حزب اللہ کے سبھی فرقہ وارانہ جرائم ایک لمحے میں پس پردہ چلے جائیں گے۔۔۔اگر ایسا ہی ہوا۔ ).
اسرائیل کیونکہ ایک طویل اور تباہ کن جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے ممکنہ طور پر یہ جنگ ایک سے دو ماہ میں ختم ہونے کے امکانات ہیں۔۔۔۔۔ بھلے ہی اس دوران لبنان کا طول و ارض اسرائیلی طیاروں ، ڈرونز اور میزائلوں کے نشانے پر رہے گا اور لبنان کو ہزاروں جنگجووں کے ساتھ ہزاروں شہریوں کی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے لیکن اس کے عوض حاصل ہونے والے فوائد اتنے بڑے ہیں کہ حزب اللہ یہ سب نقصان برداشت کرنے کو تیار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیلی تیاریاں :
دوسری طرف نہ صرف اسرائیل گزشتہ 2 برس میں بارہا مرتبہ دنیا کے سامنے یہ بیان دے چکا ہے کہ حزب اللہ ، اسرائیل کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔۔۔۔ بلکہ اس ممکنہ جنگ کاسامنا کرنے کے لیے بھی اپنی تیاری بڑھا رہا ہے۔
صرف 2021 میں ہی اسرائیل نے لبنان کی سرحد کے قریب 2 بڑی جنگی مشقیں سرانجام دیں اور تیسری آج کل جاری ہے ۔
اسرائیل نے لبنان کی سرحد کے ساتھ فوج کی تعداد ، آرٹلری ، آرمر اور دیگر جنگی سازو سامان کی مقدار میں اضافہ کردیا ہے۔
لبنان کے ساتھ جڑے سبھی اسرائیلی علاقوں میں سب سویلینز کو خصوصی ایمرجنسی تربیتی پروگرامز سے لیس کیا جارہا ہے کہ راکٹ ، میزائل حملوں کی صورت میں شیلٹرز میں چھپنا ہے، فلاں علاقے کو فلاں شیلٹر سرو کرے گا ۔ جنگ کی صورت میں خوراک اور پانی کے زیرزمین خصوصی گوداموں میں زخائر کیے جاچکے ہیں۔۔۔۔شدید حالات میں عوام کے انخلاء کے لیے روٹس اور انہیں ٹھہرانے کے لیے مقامات کی ترتیب بھی دی جارہی ہے۔
ساتھ ہی اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے ہزاروں ٹارگٹس کی نشاندہی کر لی ہے کہ جنگ کی صورت میں انہیں گائیڈڈ میزائلوں اور خودکش ڈرونز سے نشانہ بنایا جاسکے۔۔۔۔
لبنان کے نزدیک پڑنے والی سبھی ہوائی پٹیوں کی استعداد کار میں اضافہ کیا جارہا ہے اور وہاں اسرائیلی طیاروں کی ہمہ وقت موجودگی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلے ہی ہر دو فریقین کا ہدف یہی ہے کہ اس ممکنہ جنگ کو محدود سے محدود پیمانے اور محدود وقت تک رکھا جائے لیکن اگر اس جنگ میں حزب اللہ کی طرف سے ایران بھی کود پڑا تو اسرائیل کی طرف سے امریکہ بھی اس جنگ میں شامل ہوجائے گا اور پھر اسے عالمی بحران بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
عفت نوید کی کتاب دیپ جلتے رہے پر ایک خوبصورت تبصرہ
جب ہم نے عفت نوید صاحبہ کے دیپ جلتے دیکھے تو ذہن میں یہی تھا کہ حالات موافق ہی رہے...