لیگی قیادت اور سول بالا دستی کا قیام
یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ میاں نواز شریف ایک سول بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسرا مسلم لیگ ن کو زندہ رکھنے اور بڑی سیاسی جماعت کے طور پر متحرک ہیں مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ سول بالادستی اور سیاسی جماعت کی سیاست کا مطلب کیا سمجھتے ہیں۔
وہ واقعی جمہوریت کی بالادستی کے لئے کوشش کر رہے ہیں کیا وہ با اختیار مقامی جمہوریت، اور سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت نافذ کریں گے
دوسرا وہ سول بالادستی کے نام پر ایک غیر جانبدار بیوروکریسی، پولیس کے قیام کی کوشش کریں گے یا فوج کو بھی ایک ماتحت اور تابعدار بنانے کو سول بالادستی سمجھتے ہیں
کیا وہ واقعی پارلیمنٹ کو بالادست سمجھتے ہیں گذشتہ پارلیمنٹ میں اپنی اور وزرا کی غیر حاضری پر شرمندہ ہیں اور آئندہ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم اور وزرا کو جوابدہ بنائیں گے
کیا وہ پارٹی کو ایک جمہوری پارٹی بنائیں گے جس میں الیکشن ہوں گے ۔
یا مسلم لیگ کو ایسی جماعت سمجھتے ہیں جو انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کسی جمہوری جدوجہد سے نہیں بنائی بلکہ یہ ان کے خون پسینے کی محنت سے بنی ہے اور یہ ان کا حق اور استحقاق ہے کہ جس مرضی کو اس کی قیادت کے لئے نامزد کریں اس کے لئے کسی جمہوری طریق کار کی ضرورت نہیں
اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم لیگ کی قیادت کے لئے وہ اپنی بیٹی مریم نواز کو آگے لانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے ان کو گھر کے اندر ہی بھائی شہباز شریف اور بھتیجے حمزہ شہباز کا چیلنج درپیش ہے پنجاب پر طویل حکمرانی کرنے والے شہباز شریف نے اس صوبے سے تعلق رکھنے والے ہر رہنما سے قریبی تعلق استوار کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس سے مریم نواز محروم ہیں۔
لیکن ان رہنماؤں کے لئے ایک مسئلہ یہ ہے کہ نون لیگ کا ووٹ بنک نواز شریف صاحب کے نام سے وابستہ ہے۔ اس لیے وہ موجودہ الیکشن میں ان سے کھلی بغاوت نہیں کر سکتے۔ وہ میاں صاحب کا نام استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ نشتسیں جیتنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام لیڈر گرجتے رہتے ہیں لیکن برستے کبھی نہیں۔ اس لیے 25 جولائی تک میاں نوازشریف مقدمات اور جیل میں پھنسے رہیں گے اور یہ رہنما ان کے حق میں پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر سے 25 جولائی تک فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
ان پارٹی رہنماؤں کو مریم نواز کی اس اپروچ سے بھی شدید اختلاف ہے جو براہ راست اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے پر یقین رکھتی ہے۔ اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے دوران ان سب نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا انجام دیکھا بھی ہے اور اسے بھگتا بھی ہے۔ نوازشریف اپنی کاروباری وراثت حسن نواز اور حسین نواز کو منتقل کر چکے ہیں اور اب سیاسی وراثت مریم صاحبہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں
اس لیے انتخابات تک میاں نواز شریف کا نام سیاست میں استعمال ہو گا لیکن الیکشن کے بعد نون لیگ پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی گرفت بہت تیزی سے کمزور ہونے لگے گی۔ ن لیگ کے راہنمائوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی پالسی انتخابات میں شکست کا باعث بن گی، مگر وہ تیار بیٹھے ہیں کہ سارا ملبہ مریم نواز کے سر ڈال دیا جائے اور پارٹی کے اندر میاں صاحب کو اس بات پر مجبور کر دیا جائے کہ شہباز شریف کو اپنا اصلی سیاسی وارث اور اس کے ویژن کو اپنا ویژن تسلیم کر لیں
اس لئے نواز شریف اور مریم نواز کو یہ طے کرنا ہوگا کہ انھوں نے واقعی سول بالادستی کے لئے کام کرنا ہے تو موجودہ سیاسی ساتھیوں کی اکثریت اس کے لئے موزوں نہیں، اس کے لئے الیکشن کے بعد ان کو پارٹی میں ایک بڑی تطہیر کی ضرورت پڑے گی اور گلی سڑکوں کی تعمیر کے نعرے لگانے والوں کی بجائے پاکستان کے وفاقی اور جمہوری تقاضوں کو سمجھنے والے سیاسی ساتھیوں کی ضرورت ہوگی
پارٹی کے اندر بھی ایک جمہوری نظام وضع کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا کوئی واضح تصور پیش کرنا ہوگا، مقامی جمہوریتوں کا ایک بااختیار نظام وضع کرنا ہوگا پولیس اور سول بیوروکریسی کو غیرجانبدار بنانے کی بات کرنا ہوگی
وگرنہ وہ جان لیں موجودہ مسلم لیگ ن نواز شریف کا ووٹ بینگ تو لینا چاہتی ہے مگر وہ شہباز شریف کے سیاسی تصور اور ویژن کو اپنانا چاہتی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“