جنگِ عظیم اول ( جولائی1914ء تا نومبر1918ئ) ختم ہو نے کے فوراً بعد انگلستان ، فرانس، جرمنی، ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں ایسی انجمنیں معر ضِ ِوجود میں آئیں جن کا مقصد جنگ کی روک تھام کرنا اور لوگوں کو امن کی اہمیت کا احساس دلوانا تھا۔ ساتھ ہی ایک ایسی عالمی تنظیم کی اہمیت و تحریک شروع کی گئی جو بقائے امن کیلئے مربوط کوششیں کرے۔ ورسائی کا معاہدہ اس تنظیم کیلئے اگلا قدم بنا اور 10جنوری 1920ء میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آگیا۔ ابتدا میں اس ادارے میں 28 اتحادی اور 14غیر جانبدار ممالک شامل ہوئے۔ بعد میں ارکان کی تعداد 60 تک پہنچ گئی۔ 1934ء میں روس اور افغانستا ن بھی تنظیم کے رکن بن گئے لیکن اگلے ہی سال اس تنظیم کو اُس وقت پہلا جھٹکا لگا جب 1935ء میں جاپان اور جرمنی اس تنظیم سے نکل گئے۔1937ء میں اُن دونوں ممالک کا اگلا ساتھی بنا اٹلی، جس نے بھی اس سے قطع تعلق کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز میں ہر وہ خود مختار ملک اور مقبوضہ علاقہ شامل ہو سکتا تھا جو بین الاقوامی ذمہ داریاں قبول کرنے اور فوجی امور و معاملات میں انجمن کے فیصلوں کی پابندی کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اولین مقصد ممالک میں انصاف و احترام کی بنیاد پر مادی اور نظری تعاون کو فروغ دینا تھا تاکہ آئندہ جنگوں کا سدِباب ہو سکے۔ اس تنظیم کا صدر مقام جنیوا تھا۔ اس کی دو سرکاری زبانیں تھیں انگریزی اور فرانسیسی۔ منشور کے مطابق ہر ملک حلف لیتا تھا کہ کسی دوسرے ملک سے تنازع کی صورت میں پُرامن ذرائع سے مفاہمت کرنے کی کوشش کرے گا اور مصالحت و مفاہمت کے تمام امکانات ختم ہو نے پر (نو ماہ کے وقفے سے) جنگ کا راستہ اختیار کر سکے گا۔ ساتھ ہی خلاف ورزی کی صورت میں تنظیم کے دوسرے تمام ممالک جارح ملک سے اقتصادی و مالی روابط قطع کر لینے کے پابند ہوں گے۔ لیکن دوسری طرف تنظیم کو یہ اختیارات حاصل نہ تھے کہ وہ رکن ممالک کی حکمتِ عملیوں کی تدوین و ترتیب میں کوئی عمل دخل کر سکے۔ تنظیم نے اپنے فرائض کی بجاآوری کیلئے کئی شعبے قائم کیے تھے۔ ان میں ایک اسمبلی، دوسرا کونسل، تیسرا سیکرٹریٹ، چوتھا بین لاقوامی دفترِمحنت اور پانچواں بین الاقوامی عدالتِ انصاف تھا۔ لیگ آف نیشنز میں یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ مزدوروں کے حالات، صحتِ عامہ، مواصلات ، اقتصادی و مالی امور، اسلحے اور عورتوں و بچوں کی ناجائز خرید و فروخت جیسے اہم معاملات میں عمل دخل کر سکے۔ یعنی اقتصادی و معاشرتی امور کی دیکھ بھال تنظیم نے سنبھال لی تھی جو ایک اچھا قدم تھا۔ آغاز میں اس تنظیم کو مختلف ممالک میں مفاہمت کروانے میں کامیابی حاصل ہوئی مثلاً1921ء میں یوگوسلاویہ نے البانیہ پر اور1925ء میںبلغاریہ نے یونان پر حملہ کیا تو تنظیم نے ہی بچ بچائو کروایا۔ اسی طرح جب سویڈن اور فن لینڈ کے درمیان جزیرہ الینڈ کے بارے میں اور ترکی اور عراق میں سرحدی تنازعہ پیدا ہوا تو تنظیم کی کوششوں سے ہی مفاہمت ہوئی۔ لیکن یہ صورتِ حال تا دیر قائم نہ رہ سکی۔ جب طاقتوں کی مفاد پرستی بروئے کار آئی تو تنظیم کے مقاصد کو شکست ہونے لگی۔ تنظیم کو فیصلوں کے نفاذ کا کوئی اختیار حاصل نہ تھا لہٰذا یہی خامی اس کی تباہی کا باعث بننے لگی۔ تنظیم دلینا پر قبضے کے تنازعے پر پولینڈ اور لیتھوانیا میں تصفیہ نہ کروا سکی۔ اسی طرح اٹلی اور یونان کے تنازعہ کا بھی کوئی حل نہ نکل سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بلند آہنگ مقاصد جن کے حصول کیلئے یہ تنظیم قائم ہوئی تھی ادھورے رہتے ہوئے نظر آنے لگے۔ 1935ء میں اسلحہ پر پابندی عائد کرنے کے متعلق کانفرنس کی ناکامی اور اسی سال حبشہ پر اٹلی کا حملہ دراصل تنظیم کی بے اثری کا نتیجہ تھا۔ پیراگوئے اور بولیویا کے دوران گرانچاکو کے مسئلہ پر جب جنگ چھڑی تو تب بھی تنظیم دونوں ممالک کے درمیان صلح صفائی نہ کروا سکی۔ جاپان نے منچوریا پر قبضہ کر لیا تو تنظیم خاموش نظر آئی۔ جرمنی نے آسٹریا اور چیکوسلواکیہ پر قبضہ کیا تو تنظیم کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی نہ ہو سکی۔ 1939ء میں جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو تنظیم نام ہی کی نظر آئی اور وہ حملہ جنگِ عظیم دوم کے آغاز کا باعث بن گیا۔کیونکہ جب روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا تو تنظیم کی اسمبلی کا اجلاس دسمبر1939ء کو بلایا گیا، جس میں روس کی مذمت کی گئی اور اسے رُکنیت سے خارج کر دیا گیا۔ یہ انجمن کی آخری کارروائی تھی۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ کیونکہ جنگِ عظیم دوم مختلف ممالک اور اتحادوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف زوروں سے شروع ہو چکی تھی۔ لیگ آف نیشنز کا آخری اجلاس 18 اپریل 1946ء کو ہوا جس میں 34 نمائندہ ممالک نے شرکت کی اور اس کے ساتھ ہی صرف 26 سال قائم رہنے والی اس تنظیم کا متنازع حیثیت میں 20 اپریل 1946ء کو خاتمہ ہو گیا۔ اس دوران 1945ء کے وسط میں جنگِ عظیم دوم کا اپنی تباہ کاریوں بمعہ جاپان پر دو ایٹم بم گرنے کے ساتھ اختتام ہو چکا تھا اور اقوام متحدہ کے نام کے ساتھ ایک نئی بین الاقوامی تنظیم کا قیام مزید بہتر اصولوں کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...