دادا اور پوتا ایک گائوں سے دوسرے گائوں جارہے تھے۔ پندرہ سالہ پوتا گدھے پر سوار تھا۔ کچھ راہگیر سامنے سے آرہے تھے۔ دیہی ثقافت کا یہ ایک اہم حصہ ہے کہ ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے رک کر حال چال پوچھتے ہیں اور خوب تفصیل سے پوچھتے ہیں ۔ پہلا سامنا جن راہگیروں سے ہوا، انہوں نے جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا کہ جوان پوتا مزے سے گدھے کی سواری کررہا ہے اور بوڑھا دادا پیدل چلنے کی مشقت میں ہے۔ پوتے سے یہ تبصرہ برداشت نہ ہوا۔ دادا کے منع کرنے کے باوجود وہ نیچے اترآیا اور اصرار کرکے دادا کو سوار کرادیا۔ پھر کچھ اور لوگ ملے ۔ خیروعافیت پوچھنے کے بعد وہ بابے سے مخاطب ہوئے۔’’معصوم بچہ پیدل سفر کررہا ہے۔ تھکاوٹ کے مارے اس کا برا حال ہے اور تم مزے سے سواری کررہے ہو۔ کیا آج کل کے دادا اتنے سخت دل ہوگئے ہیں ؟‘‘ پوتے کے لاکھ منع کرنے کے باوجود دادا نے مزید سواری کرنے سے صاف انکار کردیا۔ خوب بحث ہوئی۔ بالآخر طے ہوا کہ دونوں سوار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ دادا نے پوتے کو آگے بٹھا لیا۔ اب جو مسافر راہ میں ملے، انہوں نے خیرخیریت اور فصلوں کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کے بعد یہ ریمارک بھی دیا کہ دونوں ہٹے کٹے جانور پر سوار ہوگئے ہیں جو بری طرح ہانپ رہا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ دونوں میں سے ایک بھی اپنے قدموں پر نہیں چل سکتا۔ شرمندگی سے دونوں دادا پوتا کے ماتھوں پر پسینہ آگیا۔ دونوں نیچے اترآئے اور پیدل چلنا شروع کردیا۔ آپس میں بات چیت بھی نہیں کررہے تھے۔ راہ گیر وں کا چھوٹا سا گروہ جو اب ملا، خوب ہنسا اور انہیں یاد دلایا کہ ساتھ گدھا بھی ہے اور تم دونوں اتنے احمق ہوکہ پیدل چل رہے ہو۔ دونوں نہیں، تو ایک تو اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
عام سی یہ کہانی جو ہم سب نے لڑکپن میں پڑھی یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ کیا دادا اور پوتے نے خلق خدا کا منہ بند کرنے کے لیے آخری متبادل صورت آزمائی تھی اور گدھے کو اپنے اوپر سوار کرایا تھا یا نہیں ! کہانی اس بارے میں خاموش ہے۔ لیکن یہ کہانی یوں یادآئی کہ بیس ستمبر کے کالم ’’ڈاکو، دماغ اور دل‘‘ میں ہم نے اس خبر کا ذکر کیا تھا جس کے مطابق ڈاکوئوں نے معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل کو لوٹنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور کی حاضر دماغی سے ڈاکو کامیاب نہ ہوسکے۔ بنیادی طورپر کالم اسی حوالے سے تھا اور خدائے بزرگ وبرتر کا شکر ادا کیا گیا تھا جس نے حضرت مولانا کو اپنی حفاظت میں رکھا۔ چونکہ مولانا کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے اس لیے تحریر میں تبلیغی جماعت کا ذکر بھی تھا!
اس کالم نے مہمیز کا کام کیا۔ یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ جتنے تبصرے اس کالم پر کیے گئے شاید ہی کسی اور مضمون پر ہوئے۔ بیرون ملک سے اور اندرون ملک سے ای میلوں کا انبارلگ گیا۔ یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ردعمل دونوں طرف سے ہوا اور خوب ہوا۔ تبلیغی جماعت کے حامیوں نے بھی کھل کر لکھا اور معترضین نے بھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کالم نگار سے دونوں فریق ناخوش ہیں۔ سراج الدین ظفر کمال کے شاعر تھے۔ افسوس ہم نے انہیں بھلا دیا۔ ان کا شعر یاد آرہا ہے ؎
نہ مطمئن ہے فقیہِ حرم، نہ رندِ خراب
اسے سزا کا ہے دھڑکا، اسے جزا معلوم
اس کالم کے بے تحاشا فیڈبیک سے تین باتیں واضح ہوگئیں ۔ اول : خلق خدا کو مطمئن کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ایک ہی تحریر سے جس گروہ کے کچھ افراد حددرجہ خوش ہوتے ہیں اسی گروہ کے کچھ اور افراد، اتنے ہی نالاں نظرآتے ہیں۔ دوم: تبلیغی جماعت سے محبت کرنے والے دنیا کے ہرگوشے میں موجود ہیں۔ عام تاثر کہ یہ حضرات میڈیاسے بے نیاز ہیں، غلط ہے۔ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ اخبارات سے، ملکی حالات سے اور بین الاقوامی مدوجزر سے اپنے آپ کو آگاہ رکھتے ہیں۔ ردعمل میں اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ انٹرنیٹ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب باتیں خوش آئند ہیں۔ سوم: تبلیغی جماعت سے اختلاف کرنے والے بھی تعداد میں کم نہیں۔ یہ بھی اپنے خیالات اور جذبات کا ابلاغ خوب جانتے ہیں۔ اپنا ہی شعر یاد آرہا ہے ؎
ملی ہے اس لیے خلعت کہ میں نے زیرِعبا
چلا تھا گھر سے تو شمشیر بھی پہن لی تھی!
قارئین کی بے پناہ دلچسپی کے پیش نظر، ہم دونوں طرف سے پیش کردہ نکات، بلاکم وکاست، جوں کے توں، پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔
جماعت سے محبت کرنے والے افراد کالم سے خوش نظرآئے لیکن ایک کثیر تعداد نے کالم نگار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کے خیال میں لکھنے والے نے جابجا طنز سے کام لیا تھا۔ وہ اس بات سے ناخوش ہیں کہ مولانا طارق جمیل کی تقاریر کا ذکر صرف حقوق اللہ کے حوالے سے کیوں کیا گیا ہے حالانکہ وہ اخلاقیات پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف اور عراق کے مستجاب الدعوات فقیروں کی دعوت کا ذکر طنزاً کیا گیا کیونکہ جماعت کے بزرگان کرام، حکمرانوں کو مہمان نوازی کا موقع دیتے رہتے ہیں۔ ہماری اس تجویز کو کہ رمضان المبارک میں جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات جوٹیلی ویژن کے پروگرام کرتے ہیں، چونکہ معاوضہ نہیں لیتے، اس لیے اس کا اعلان بھی کردیں تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو، کالم نگار کے حسد پر محمول کیا گیا ہے۔ بہت سے دوستوں نے جہاد کے حوالے سے وضاحت کی کہ اگرچہ فضائلِ جہاد تبلیغی نصاب کا حصہ نہیں لیکن حکایاتِ صحابہ میں جو نصاب کا حصہ ہیں،جہاد کے فضائل جابجا بیان کیے گئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ ’’فضائل اعمال‘‘ اسی زمانے میں تالیف کی گئی جب مصنف کو دماغی کام سے روک دیا گیا تھا، تو کالم نگار پر شدید تنقید کی گئی ہے کہ اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب کہ مصنف کہنا یہ چاہتے تھے کہ ان دنوں وہ فرصت سے تھے۔
تبلیغی جماعت سے اختلاف کرنے والوں نے بھی کالم نگار پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کے خیال میں کالم نگار نے تبلیغی جماعت سے اپنی عقیدت پڑھنے والوں پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ ان حضرات نے کالم نگار کے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ مولانا طارق جمیل کی ساری توجہ اپنے ہم وطنوں پر ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ اکثر وبیشتر غیرملکی دوروں پر رہتے ہیں اور یہ کہنا درست نہیں کہ وہ اہل اقتدار کے ہاں قیام نہیں فرماتے۔ ان حضرات کا اعتراض یہ بھی ہے کہ جماعت کے بزرگوں کی تلقین پر لاتعداد لوگوں نے گھروں سے ٹیلی ویژن ہٹا دیے۔ اس سے گھروں میں جھگڑے بھی ہوئے۔ لیکن اگر گھر میں ٹیلی ویژن نہ ہوگا تو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات کے وہ مذہبی پروگرام کیسے دیکھے جاسکیں گے جو وہ ٹیلی ویژن پر پیش کرتے ہیں؟
مذہبی پروگراموں کا معاوضہ لینے کے ضمن میں دلچسپ باتیں بتائی گئیں۔ کچھ قارئین نے بتایا کہ قرآنی پروگراموں کا معاوضہ لینا بزرگوں کے نزدیک جائز نہیں۔تبلیغی نصاب کی کتاب فضائل اعمال کے بارے میں مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں رہنے والے قارئین نے بتایا ہے کہ عرب حضرات اس کتاب کو پسند نہیں کرتے اس لیے ان ملکوں میں ’’ریاض الصالحین ‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عربوں کا اعتراض یہ ہے کہ ’’فضائل‘‘ میں بیان کردہ روایات ضعیف ہیں اور اکثر کی سند موجود نہیں! ایک نکتہ جو اختلاف کرنے والے اکثروبیشتر قارئین نے التزام سے اٹھایا ہے یہ ہے کہ حقوق العباد پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔
صحافیانہ دیانت کوبروئے کار لاتے ہوئے دونوں طرف کے مؤقف پیش کردیئے گئے ہیں۔ بقول فراق ع
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ