یہ آرٹیکل فطرت کے ایک قانون (یہ قانون روحانی استاد بتاتے ہیں) کو نفسیات، جذبات اور احساسات پر استعمال کرنے کے لیے لکھا ہے میں نے۔ اسکی کوئی سائنسی تحقیق نہیں، یہ دانش (wisdom) پر مبنی ہے۔ جب بھی ہم نفسیات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں گھسے پٹے سائیکالوجی کے نظریات اور نصیحتوں سے تھوڑا ہٹ کر بھی سوچنا ہوتا ہے ورنہ ہم کبھی بھی اپنا “شیڈو” (shadow)، اپنی “انا” (ego) اور اپنے جذبات (emotions) کا مبصر (observer) کی طرح مشاہدہ نہیں کر پائیں گے۔ اس لیے آپ کو میرے فیس بک کے صفحہ پر عجیب و غریب قسم کے قوانین پڑھنے کو ملیں گے، یہ قوانین ضروری نہیں کہ درست ہوں یا آپ پر اپلائی ہوں، لیکن ان کو کھلے ذہن کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا غلط نہیں۔
اللہ کی بنائی کائنات (اگر آپ ملحد ہیں تو کسی بھی پاور کا نام ذہن میں سوچ لیں) مکمل (perfect) ہے۔ روحانی استاد کہتے ہیں کہ یہاں ہر چیز خود کو توازن (balance) میں لے کر آتی ہے، ان قوانین کو جہاں لگتا ہے کہ معاملات توازن خراب کررہے ہیں یہ اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمان ہیں یا ہندو، آپ اچھے انسان ہیں یا برے، بس جہاں آپ نے توازن کو بگاڑا ان کو بس بیلنس کرنا ہوتا ہے۔ یہ قوانین غیرجانبدار (neutral, unbiased) ہوتے ہیں۔ یہ قوانین ہماری اندر کی دنیا (inner world) پر بھی اپنا اثر رکھتے ہیں۔ اور میں اندر کی دنیا (inner world) کی بات کروں گی جہاں سوچ، جذبات اور احساسات کا ڈیرہ ہوتا ہے۔
جب آپ کسی چیز/سوچ/جذبہ/احساس پر بہت زیادہ اہمیت (importance) دیتے ہیں تو ایسے میں آپ “اضافی صلاحیت” (excess potential) پیدا کرتے ہیں۔ اگر آپ کچھ جذبات کو بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں تو آپ کی زندگی میں “اضافی صلاحیت” پیدا ہوتی ہے جسے بیلنس کرنا فطرت اپنا فرض سمجھتی ہے، تبھی بہت ممکن ہے کہ آپ کونفسیاتی درد (psychological pain) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونہی اگر آپ کسی چیز کو لے کر بہت زیادہ پریشان یا لاپرواہ ہوتے ہیں تو ان تمام احساسات کو توازن میں لانے کے لیے فطرت کے قوانین آپ سے وہ چیز چھین لیتے ہیں تاکہ جو اضافی صلاحیت آپ نے پیدا کردی ہے وہ توازن میں آسکے( ایسا روحانی استاد کہتے ہیں، میرے پاس اسکی کوئی سائنسی تحقیق نہیں)۔
ٹاؤازم (Taoism) کے فلسفے میں جو “بےعمل عمل” (actionless action/effortless action) ہے بہت ممکن ہے کہ وہ اسی بات کی جانب نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح آپ نے بنا کسی خواہ مخواہ کے جوش اور جذبہ، بنا کسی شدت پسند موٹیویشن کے بہت نارمل عمل کرنا ہے، اور یہ تب ممکن ہے جب آپ اپنے مقاصد پر سے “زیادہ اہمیت”(importance) کو ہٹا کر اسے توازن میں لے کر آتے ہیں۔
اسلام میں بھی کہا گیا ہے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، تبھی آپ کے اندر کی دنیا (inner world) ہی آپ کے باہر کی دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے، آپ اندر کیا، کتنا اور کیسے “محسوس” کرتے ہیں اسے اللہ کے بنائے قوانین ایک توازن میں لے کر آتے ہیں۔ اگر نیت میں جذبہ زیادہ ہے تو اضافی صلاحیت (excess potential ) پیدا ہوگی۔
بھگود گیتا میں کرشنا کہتا ہے کہ تم جتنا شدت سے سرور/خوشگوار (blissful) والے احساسات کو محسوس کرو گے اتنا ہی دکھ شدت سے تمہیں محسوس ہوگا، یا کچھ ایسا ہوگا جو تمہارے اس سرور کو توازن میں لے آئے۔ اس لیے کرشنا کہتا ہے کہ تم “بےآرزو عمل” (passionless action) اور “بے خیال عمل” (thoughtless action) کرو تو یوں کرما (karma) (یہاں کرما سے مراد نفسیاتی درد ہوسکتا ہے) تمہیں چھو کر بھی نہیں گزرے گا…… لیکن یہ کرنا اور وہ بھی ہم انسانوں کے لیے یقیناً بہت مشکل ہے، اگر آپ نے اس حالت کو پالیا تو آپ تو “کرشنا” بن گئے!!!
اور یہی وجہ ہے کہ اسٹائیسزم (stoicism) کا فلسفہ بھی فطرت کے قوانین اور اپنے شدت والے احساسات کے اتار چڑھاؤ کی جانب “لاتعلق” (indifference) ہونے کی تلقین کرتا ہے۔
اس لمبے لیکچر کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کیسے اس “اضافی صلاحیت” والے ڈرامے سے خود کو کسی حد تک محفوظ رکھنا ہے؟؟؟
اداکاری، چکما………جی ہاں! انکا صرف منفی کام نہیں اس دنیا میں، یہ بہت کام کی چیزیں بھی ہیں۔ چونکہ میں یہاں اندرونی دنیا (inner world) کی بات کررہی ہوں جو آپ کے جذبات، سوچ اور تجربات پر منحصر ہے، تبھی ہمیں اداکاری لوگوں کو نہیں دکھانی اور نہ ہی لوگوں کو چکما دینا ہے، کیونکہ ہمارا لوگوں سے لینا دینا نہیں، لوگ اور انکا رویہ ہمارے اختیار میں نہیں، ہم صرف اپنی اور فطرت کی بات کررہے ہیں، فطرت کو کیسے اداکاری سے چکما دینا ہے؟؟؟؟
اپنے جذبات کو نارمل رکھنے کی مشق کے ذریعے، جس میں آپ غیر فعال جذبات کو پہلے پراسس (process) کرتے ہیں، مختلف مراحل سے گزرتے ہیں، ضرورت سے زیادہ اہمیت (importance) کو ایک مبصر کی مانند دیکھنے اور سمجھنے لگتے ہیں اور پھر اس ‘ضرورت سے زیادہ اہمیت’ کو ہٹا دیتے ہیں۔ اس میں کئی چیزیں (tools and techniques) کا استعمال کیا جاسکتا ہے، جو آپ کو نارمل رہنے والے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
آپ محسوس کرتے ہیں کہ “میں محرک (excited) ہورہا ہوں” اور پھر بہت آہستہ اس احساس کو محسوس کرکے شعوری طور پر سانس لینا(breathing)، مراقبہ (meditation)، لکھنا (writing)، بولنا (talk therapy)، اس وقت اٹھ کر کوئی اور کام کرنا (action)، جانتے ہوئے بھی کہ آپ ایکسائیٹڈ ہیں، انجان بننے کی اداکاری کرنا، شروع میں آپ کو ہنسی آئے گی، اور ہنسیں بھی خود کی خواہ مخواہ کی ایکسائٹمنٹ پر، کندھے اچکا کر اسے نارمل کریں، منہ بنا کر بولیں “یہ اتنا اہم تو نہیں جتنا میرے ذہن نے اسے بنا لیا ہے” ——
رابرٹ گرین نے اپنی کتاب “طاقت کے اڑتالیس اصول” (48 laws of power) میں اسے طاقت کا ایک قانون بتایا ہے…….خود کو خود کے جذبات اور ذہن سے الگ کرکے دیکھنا اور اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے “جانے دینا”(let go) ایک فن ہے جو آپ کو طاقتور بناتا ہے — یہ سب پریکٹس سے اور وقت کے ساتھ آتا ہے۔
ضروری نہیں کہ یہ آپ سب کے لیے کارآمد ہو۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...