بعض دن اتنے خوشگوار ہوتے ہیں کہ لطیفوں سے شروع ہوتے ہیں اور لطیفوں ہی پر ختم ہوتے ہیں۔ خوف اور بے یقینی کی اس فضا میں ایسے ایام غنیمت ہیں۔ یوں بھی کل کا دن بیزار گزرا۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ دارالحکومت کے لوگ خوش تھے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر دس سال بعد برفباری ہوئی۔ لیکن برف باری سب کو تو پسند نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ایک چمکدار دن پسند کرتے ہیں۔ سرما کی نرم دھوپ ! اور اگر سرد ہوا نہ چل رہی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے! ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیر گہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
برف اور دھوپ کے موسموں کو چھوڑ کر اُن لطیفوں کی طرف آتے ہیں جن سے دن کا آغاز ہوا۔ دوحہ (قطر) میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تین سال میں پاکستان بدل گیا ہے۔ حکومت وعدوں کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ اخبارات کے پہلے صفحات پر یہ تقریر شائع ہوئی مگر ساتھ ہی‘ اوپر نیچے‘ دائیں بائیں‘ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے ایسے بیانات بھی شائع ہو گئے جو اس ’’بدلے ہوئے پاکستان‘‘ کی چغلی کھا رہے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ حکومتیں خود ہی قبضہ گروپوں کو نقشے بنا کر دیتی ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ اسلام آباد صرف امرا کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے بھی رہائشی منصوبے بننے چاہیں۔ سی ڈی اے لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر زمین کی خرید و فروخت میں لگا ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر ریمارکس دیے کہ ریاستی اداروں میں کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں جو اپنا اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور ان کا فائدہ لاقانونیت میں ہے۔
سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس تو وزیر اعظم کی تقریر کے دائیں طرف شائع ہوئے۔ بائیں طرف کیا شائع ہوا؟ بائیں طرف بھی سپریم کورٹ ہی کا بیان ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور ایس ایچ او کروڑوں روپے دے کر لگتے ہیں! انہوں نے پھر پیسے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ایک وکیل نے عدالت کو اطلاع دی کہ اگر ملک کے چیف جسٹس بھی اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر پرچہ کے اندراج کے لیے تھانے جائیں تو ایس ایچ او اُن سے بھی پیسے لے لے گا!
لطیفے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہنسانے والے‘ دوسرے رُلانے والے! یہ لطیفہ نما صورتِ حال جو اخبارات کے صفحات پر ظاہر ہوئی‘ ہنسانے والی نہیں‘ رُلانے والی ہے! اصل قصّہ یہ ہے کہ پاکستان میں دو دنیائیں الگ الگ آباد ہیں! قرآن کریم میں دو سمندروں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کے درمیان ایک آڑ ہے اور وہ دونوں اپنی اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں دو سمندر تو نہیں‘ خشکی کی دو الگ الگ دنیائیں ضرور ہیں؎
اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بنی ہیں
روش سے سیڑھیاں مر مر کی پانی میں گئی ہیں
ایک دنیا وزیر اعظم کی ہے جس میں قطر ‘ ترکی ‘ برطانیہ اور امریکہ کے دورے ہیں۔ جہاز ہیں، جائیدادیں ہیں، کارخانے اور کاروبار ہیں، کابینہ کے اجلاس ہیں، قیمتی گاڑیوں پر مشتمل شاہانہ جلوس ہیں جن کے کناروں پر رکی ہوئی ٹریفک وزیر اعظم کو دُور سے رعایا کی جھلک دکھاتی ہے۔ اس دنیا میں ان کے دوستوں کے اڑن کھٹولے ہیں۔ رائے ونڈ اور مری کے محلات ہیں۔ موٹر وے اور اورنج ٹرین کے دلکش منصوبے ہیں۔ خداّم ہیں، نوکر شاہی ہے، بِچھ بِچھ جانے والے پارلیمنٹ کے ارکان ہیں!
دوسری دنیا پاکستانی عوام کی ہے۔ اس میں بکنے والے تھانے ہیں، کروڑوں دے کر تعینات ہونے والے تھانیدار ہیں! قبضہ گروپ ہیں، لینڈ مافیا ہے، بغیر چھتوں کے اور بغیر پینے کے پانی کے لاکھوں سرکاری سکول ہیں۔ بغیر ڈاکٹروں کے اور بغیر ادویات کے ہزاروں سرکاری ہسپتال ہیں جن میں کبھی کوئی وزیر اعظم‘ کوئی وزیر اعلیٰ‘ کوئی گورنر‘ کوئی وزیر‘ کوئی عوامی نمائندہ، اپنے یا اپنے اہل خانہ کے علاج کے لیے نہیں آتا۔ یہ دو الگ الگ دنیائیں ہیں! انہیں دو سمندر کہیے‘ یا دو لطیفے‘ یا دو متوازی لکیریں جو دُور تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر آپس میں کبھی نہیں ملتیں! ظفر اقبال یاد آ گیا ؎
یہاں تک لا سکی ہے زندگی بھر کی مسافت
لبِ دریا ہوں میں اور وہ پسِ دریا کِھلا ہے
مگر یہ دن کے آخری لطیفے نہیں تھے۔ ناشتہ کرتے ہوئے پرتھ سے عزیزی معین ارشد کی ای میل موصول ہوئی۔ معین نے کالم نگار کی تحریر پڑھی جس میں کچہریوں کی حالتِ زار پر آنسو بہائے گئے تھے۔ معین نے خبر دی کہ اُسی اخبار میں پنجاب حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’اراضی کی کمپیوٹرائزیشن مکمل! جدید نظام رائج اور پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو گیا۔ صوبے کی تمام تحصیلوں میں جدید لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم رائج کر دیا گیا ہے۔ 143تحصیلوں میں سروسز سنٹر مکمل طور پر آپریشنل ہیں اور عوام کو خدمات فراہم کر رہے ہیں‘‘۔
معین ارشد نے پوچھا کہ آپ کچہریوں کی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہیں اور صوبے کی حکومت کچھ اور خوشخبری دے رہی ہے۔ بقول فراق ؎
کس کا یقین کیجیے‘ کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
ہزاروں میل دُور ‘ مغربی آسٹریلیا میں بیٹھا ایک نوجوان
اضطراب کا شکار ہو تو ناشتہ آپ خاک کریں گے؟ چائے کی پیالی زہر مار کی اور اپنی سی کوشش سے حکومتی دعوے کی پڑتال شروع کر دی۔ سب سے پہلے پنڈی گھیپ کے ایک معروف وکیل کو فون کیا جو سارا دن عدالت میں زمینوں کے اور کسانوں کے اور جائداد کی منتقلی کے اور پٹواریوں کے مہیا کردہ کاغذات کے معاملات طے کرتے اور کراتے ہیں۔ جو خبر انہوں نے دی یہ تھی کہ پوری تحصیل کے چند دیہات کا ریکارڈ کمپیوٹر پر چڑھایا گیا ہے مگر پنڈی گھیپ شہر اور بستیوں اور قریوں کی اکثریت بدستور پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اصل مسئلہ انہوں نے یہ بتایا کہ پٹواری‘ کمپیوٹر کی دنیا سے ناآشنا ہیں اور کمپیوٹر چلانے والے بابو‘ زرعی زمین کی باریکیوں اور پیچیدگیوں سے ناواقف!
تسلّی بہر طور نہ ہوئی۔ دوسرا فون اپنے گائوں کے زمیندار ماسٹر مجتبیٰ کو کیا۔ پوچھا پٹواری کلچر ختم ہوا ہے یا نہیں؟ ماسٹر صاحب ہنسے۔ وہ چند دن ہوئے فتح جنگ تحصیل ہیڈ کوارٹر گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ کمپیوٹر سنٹر والے رشوت نہیں مانگتے مگر وہ آپ کی زمین کا خسرہ نمبر مانگتے ہیں تاکہ آپ کا کام کر سکیں اور خسرہ نمبر پٹواری بادشاہ نے دینا ہے! اکّا دُکاّ پڑھے لکھے زمیندار اور کسان خسرہ نمبر یاد رکھتے ہیں یا کہیں لکھ لیتے ہیں مگر اکثریت خسرہ نمبر پٹواریوں سے پوچھتی تھی۔ سو اب بھی پوچھ رہی ہے! جب تک پٹواری خسرہ نمبر نہیں دیتا‘ کمپیوٹر سنٹر والے کچھ نہیں کر سکتے۔ تیسرا فون کھنڈہ کے بڑے زمیندار ملک عابد خان کو کیا۔ انہوں نے عینی شہادت دی کہ وہ اپنے کام سے تحصیل ہیڈ کوارٹر گئے۔ ایک گائوں کے کچھ سائل بھی اُس دفتر میں بیٹھے تھے۔ان سائلوں سے ساٹھ ہزار روپے مانگے جا رہے تھے۔ ملک عابد خان صاحب نے اُس گائوں کا نام بھی بتایا جس سے ان مظلوم کسانوں کا تعلق تھا! چوتھا فون جھنگ کے زمیندار میاں صفدر صاحب کو کیا۔ ان کی اطلاع یہ تھی کہ تیس فیصد سے زیادہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہی نہیں ہوا اور یہ کہ رخنے جان بوجھ کر چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ع
سلسلہ چلتا رہے حُسن کی دلداری کا
میاں صفدر منجھے ہوئے زمیندار ہیں۔ انہوں نے بہت درد سے بتایا کہ ضلع ناظم کا سسٹم رہتا تو پٹواری کلچر ختم ہو سکتا تھا مگر جنرل مشرف کے جانے پر یہ جو نوکر شاہی کو دوبارہ تخت نشین کیا گیا ہے‘ اس سے گھوڑا‘ گاڑی کے آگے نہیں‘ پیچھے جُت گیا ہے۔ پانچواں فون جناب ایاز امیر کو کیا جو تعارف کے محتاج نہیں اور جو لاہور یا اسلام آباد نہیں‘ بلکہ چکوال میں عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ ان کی شہادت یہ تھی کہ کچھ بھی بدلا نہیں‘ پٹواری الماس ہو یا زمرد‘ یا عقیق یا یاقوت‘ کل بھی وہی حاکم تھا اور آج بھی وہی حاکم ہے!
اب شہر میں پیدا ہونے والے‘ شہر میں پلنے بڑھنے والے اور پنڈی گھیب، فتح جنگ‘ جھنگ‘ چکوال‘ شرقپور اور چونیاں کے بجائے لندن، انقرہ، بیجنگ اور دوحہ کے دورے کرنے والے شہنشاہوں کو کون سمجھائے کہ خسرہ نمبر کیا ہوتا ہے؟ فرد کیا ہوتا ہے؟ لٹھا کیا ہوتا ہے؟ پٹواری کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور کمپیوٹر دفتروں میں بٹھائے گئے بابو جب خسرہ نمبر لینے کے لیے سائل کو پٹواری کے پاس بھیجتے ہیں تو کتنے معصوم لگتے ہیں!
ایسے منصوبے خونِ جگر مانگتے ہیں! ایسے منصوبے اگر چیختے چلاتے بیانات سے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتے تو یہ ملک کب کا سنگا پور یا سوئٹزر لینڈ بن چکا ہوتا۔ مصیبت یہ ہے کہ محض بیانات کافی نہیں! شیر شاہ سوری‘ ٹو ڈرمل‘ لارڈ کارنوالس جیسے نابغے ہی ایسے کام مکمل کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہفتہ وار بیانات نہیں دیتا تھا!!
تھانہ کلچر ختم ہونے کی شہادت تو چیف جسٹس نے دے دی ہے کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور تھانیدار کروڑوں میں لگتے ہیں۔ کل پرسوں پٹواری کلچر کے ’’خاتمے‘‘ کی شہادت بھی مل جائے گی ؎
تیرے امیر مال مست ‘ تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“