خدا کو جب کسی انسان سے کوئی خاص کام لینا مقصود ہوتا ہے تو وہ خود اُس کے لیے اسباب پیدا کر دیتا ہے۔ اسی طرح کا ایک سبب اندور میں ۲۸؍ستمبر ۱۹۲۹ء کو پیدا ہوا، اور والدین نے اس کا نام ہیما رکھ دیا، جو بعد میں لتا منگیشکر کے نام سے فلمی دنیا میں نہ صرف اپنی پہچان قائم کرنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اُس نے اپنے کام سے اپنے وطن ہندوستان کا نام شہرت کے ساتویں آسمان پر سنہرے حروف میں لکھ دیا۔اپنے والد پنڈت دیناناتھ منگیشکر کی ڈراما کمپنی میں کام کرنے کے ساتھ ہی لتا منگیشکر کا کیریئر شروع ہوا، جو بعد میں اداکارہ نندہ کے والد ماسٹر ونائک کی پارٹنرشپ والی ایک فلمی کمپنی میں چالیس روپے ماہوار کی کل وقتی چائلڈ آرٹسٹ کی ملازمت میں تبدیل ہوا۔ اس کمپنی میں ان کی بطور اداکارہ پہلی فلم ’’پہیلی منگلا گور‘‘ (۱۹۴۲ء) تھی۔ اس فلم میں لتا نے موسیقار دادا پاندیکر کی موسیقی میں ایک گیت بھی گایا تھا۔ یہ ایک مراٹھی فلم تھی اور ماسٹر ونائک نے لتا کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔
۱۹۴۲ء میں لتا کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً ۱۳؍ سال رہی ہوگی۔ لتا منگیشکر کی تین بہنیں آشا، اوشا اور مینا کے علاوہ صرف ایک بھائی ہردیہ ناتھ منگیشکر تھے۔ لتا اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ والدہ اور چار چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کام کرنا ضروری تھا۔ لتا کے پاس اسٹیج پر اداکاری اور فلم ’’کتی ہنسال‘‘ میں گلوکاری کا تجربہ تھا۔ لہٰذا وہ کام کی تلاش میں بمبئی کے اسٹوڈیوز کے چکر لگانے لگیں۔ تبھی اُن کو اپنے والد کے ایک دوست شری پد جوشی کی سفارش پر ماسٹر ونائک کی یہ مراٹھی فلم ملی تھی۔ کچھ دن بعد ہی مراٹھی کی ایک اور فلم میں ماسٹر ونائک نے لتا منگیشکر کو ایک یتیم بچے کا کردار دیا، جس کو لتا نے بہت پُراثر انداز میں ادا کیا تھا۔ اس طرح وہ فلموں میں کام کرتی رہیں، مگر اُن دِنوں ان کے کیریئر کی سب سے اہم فلم ’’بڑی ماں‘‘ ثابت ہوئی، جس میں انہوں نے ملکۂ ترنم نورجہاں کے ساتھ کام کیا تھا۔ پرفل پکچرس کی اس فلم میں ستارہ دیوی، کشوری لال، یعقوب، لیلا مصرا وغیرہ دیگر اداکار شامل تھے اور یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ اس کے ساتھ ہی لتا منگیشکر نے اپنا گلوکاری کا ریاض بھی جاری رکھا۔ لتا منگیشکر نے پہلی بار سولو گانا فلم ’’آپ کی سیوا میں‘‘ کے لیے گایا تھا۔ یہ فلم ۱۹۴۷ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران جب گلوکارہ اداکارہ نورجہاں فرصت میں ہوتیں تو لتا سے کہتیں کہ تم گائو، ہم بھی ساتھ گائیں گے۔ نورجہاں نے ایک دن ماسٹر ونائک سے کہا تھا کہ ونائک صاحب! دیکھ لینا، ایک دن یہ لڑکی بہت کامیاب ہوگی۔ حقیقتاً نورجہاں کی بات سچ ثابت ہوئی اور لتا منگیشکر نے کامیابی کے سارے دروازے اپنے لیے وَا کر لیے۔ وہ ہمیشہ نورجہاں سے متاثر رہیں۔ موسیقار سی۔ رام چندر لتا منگیشکر کو مراٹھی نورجہاں کہا کرتے تھے۔
لتا منگیشکر اپنی گلوکاری کے ابتدائی دنوں میں نورجہاں کے انداز میں ہی گاتی رہیں۔ ۱۹۴۹ء میں حسن لال بھگت رام کی موسیقی میں فلم ’’بڑی بہن‘‘ کا نغمہ ’’جو دل میں خوشی بن کر آئے وہ درد بساکر چلے گئے‘‘ اور ’’چلے جانا نہیں نین ملاکر ہائے سیّاں بے دَردی‘‘ نے پورے ہندوستان میں فلم شائقین کے دلوں کو چھو لیا۔ اس کے ساتھ ہی فلم ’’برسات‘‘ میں شنکر جئے کشن کی موسیقی میں ترتیب دیا ہوا نغمہ… ’’ہم سے ملے تم سجن تم سے ملے ہم‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں ہی فلمساز و ہدایتکار کمال امروہوی کی فلم ’’محل‘‘ آئی اور اُس میں موسیقار کھیم چند پرکاش کی دھن پر لتا منگیشکر کا گایا ہوا نغمہ… ’’آئے گا آنے والا‘‘ نے تو پورے ہندوستان میں دھوم مچا دی۔ کھیم چند پرکاش کی شاید یہ آخری فلم تھی، مگر لتا منگیشکر پر اس فلم سے کامیابی کے دروازے کھل گئے اور فلمی موسیقی کی دنیا کے اس نئے چمکتے ہوئے ستارے کو آفتاب بننے کا موقع ملا۔ اُس برس لتا منگیشکر کا ایک اور نغمہ… ’’لارا لپا لارا لپا لائی رکھ دا‘‘ بھی کافی مقبول ہوا۔ اس طرح کل ملاکر اُس برس لتا منگیشکر نے ۲۷؍گانے گاکر ایک ہی جست میں مقبولیت کے آسمان پر اپنا نام درج کرا دیا تھا۔ اس کے بعد لتا نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
لتامنگیشکر اُس زمانے میں اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ نانا چوک کی چھوٹی سی چال میں رہا کرتی تھیں اور بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ اپنے بھائی بہنوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ کبھی اُن کی خواہش سنیما دیکھنے کی ہوتی اور پیسے کم ہوتے تو وہ پیدل ہی سب کو سنیما گھر لے جاتی تھیں۔ وہ خود بہت سادگی سے رہنا پسند کرتی تھیں۔ شوخ رنگ اور تڑک بھڑک اُنہیں بچپن سے ہی پسند نہیں تھا۔ اپنے رہن سہن سے لے کر لباس تک میں وہ سادگی پسند کرتی ہیں۔ فوٹوگرافی کا شوق اُن کو پہلے سے ہی ہے اور آج بھی وہ کہیں باہر جاتی ہیں تو ایک کیمرہ ضرور اپنے ساتھ لے جاتی ہیں اور اپنی پسند کے فوٹو کھینچتی ہیں۔
لتا منگیشکر کی آواز کا جادو چلا تو ہر طرف اُن کی آواز گونجنے لگی۔ موسیقار نوشاد کے ساتھ فلم ’’انداز‘‘ کے ترانے، انل بسواس کے ساتھ ’’انوکھا پیار‘‘ کے گیت اور شنکر جئے کشن کے ساتھ ’’برسات‘‘ کے گانوں نے خوب دھوم مچائی۔ لتا کی آواز کی مٹھاس نے لوگوں کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اُس زمانے کی دوسری گلوکارائیں زہرہ بائی امبالے والی، شمشاد بیگم اور نورجہاں وغیرہ کی آوازیں اپنی کشش کھو رہی تھیں۔ اُدھر اتفاق سے نورجہاں پاکستان چلی گئیں تو ہر طرف لتا کے نام کا ڈنکا بجنے لگا اور ہر چھوٹا بڑا موسیقار لتا کی آواز میں گیت ریکارڈ کرانے کے لیے بیتاب رہنے لگا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ لتا کی آواز میں کوئی بناوٹ یا تصنع نہیں تھا۔ ساز اور لَے کے مطابق قدرتی آواز تھی جو قدرت کا ہی ایک عطیہ ہے، بقول دلیپ کمار… ’’لتا کی آواز قدرت کا کرشمہ ہے جس طرح چاہے سُر کے ساتھ ڈھال لیجئے۔‘‘ فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے گیت… ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا…‘‘ کو سنئے یا ’’مدر اِنڈیا‘‘ کے گیت… ’’نگری نگری دوارے دوارے‘‘ کو سن لیجیے، یا پھر ’’پاکیزہ، رضیہ سلطان، دو راستے، وقت، میرا سایہ، انیتا، دو بدن، وہ کون تھی‘‘ وغیرہ فلموں کے نغمے سن لیں، یا پھر حال ہی کی ریلیز فلموں کے گانوں کو سن لیں، لتا کی آواز ہر بار پہلے سے زیادہ سُریلی سنائی دے گی۔ اپنی فلمی زندگی میں لتا منگیشکر نے تین نسلوں کو اپنی آواز دے کر ایک کرشمہ ہی کیا ہے۔ انہوں نے ابتدائی دور میں شوبھنا سمرتھ کو اپنی آواز دی، اس کے بعد ان کی اگلی نسل میں نوتن اور تنوجہ کے لیے گیت گائے اور اس کے بعد ان کی تیسری پیڑھی میں کاجول کے لیے بہترین نغمے گائے۔
لتا منگیشکر کے صرف بہترین اور کامیاب فلمی نغموں کا ہی ذکر کیا جائے تو پورا ایک دفتر درکار ہوگا۔ ۱۹۶۸ء میں لتا کو پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا۔ شنکر آچاریہ نے اُنہیں ’’سُر بھارتی‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ حکومت مدھیہ پردیش نے ہر سال اُن کے نام پر لتا منگیشکر ایوارڈ دینے کا سلسلہ قائم کیا۔ ۱۹۵۹ء میں لتا کا نام دنیا کی مشہور کتاب ’’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں درج ہوا۔ لتا نے تقریباً بیس مختلف زبانوں میں پچاس ہزار گیت ریکارڈ کراکے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ لتا منگیشکر نے فلمساز کی حیثیت سے فلم ’’لیکن‘‘ بھی بنائی تھی جس کی ہدایت گلزار نے کی تھی۔
حالانکہ لتا منگیشکر کے پاس بے حساب دولت ہے، مگر کبھی اُن کے اندر غرور نہیں آیا۔ وہ آج بھی سادگی سے رہنا پسند کرتی ہیں۔ اُن کے پاس تقریباً ایک درجن گاڑیاں ہیں، مگر وہ آج بھی اپنی سفید ایمبیسڈر کار کو سب سے زیادہ پسند کرتی ہیں۔
۲۷؍جون ۱۹۶۳ء کو دہلی کے ایک پروگرام میں جب انہوں نے اپنا مقبول ترین گیت… ’’اے میرے وطن کے لوگو…‘‘ گایا تو سامعین میں موجود سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی آنکھیں چھلک آئیں اور بعد میں جب فلمساز ہدایتکار محبوب خان نے لتا کو پنڈت جی کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا تو نہرو جی نے کہا… ’’بیٹی… آج تم نے ہمیں رُلا دیا۔‘‘
اداکارہ سمی گریوال نے لتا منگیشکر کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔ مگر لتا نے خود صرف ایک بار گلائیکو ڈین کمپنی کی ایک اشتہاری فلم میں کام کیا تھا۔ ۱۹۹۰ء کا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت ہند کی طرف سے لتا کو دیا گیا۔ لتا منگیشکر نے زندگی بھر اپنی شرطوںپر کام کیا اور کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بدلتے زمانے کے ساتھ فلمی موسیقی کا مزاج بھی بدلا اور لتا نے موسیقی کے نئے طور طریقوں کو بھی اپنایا، مگر معیار سے گرا ہوا کوئی گانا انہوں نے کبھی نہیں گایا۔
لتا منگیشکر نے اپنی ساری زندگی فن موسیقی و گلوکاری کے لیے وقف کر دی یا پھر اپنی فیملی کے لیے۔ انہوں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ لتا منگیشکر اب ۸۶؍برس کی ہو چکی ہیں مگر آج بھی اُن کی آواز ہماری نئی نسل کی ہیروئنوں پر خوب سجتی ہے اور ہر ہیروئن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے فلمی کیریئر میں زیادہ سے زیادہ گیت لتا منگیشکر کے گائے ہوئے فلمی پردے پر پیش کرے، کیونکہ اس سے اُس کی شہرت اور مقبولیت کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔ لتا منگیشکر ۸۴؍برس کی ہو چکی ہیں مگر اُن کی آواز میں آج بھی نوخیز کلیوں کی چٹک کا احساس ہوتا ہے، اور اُن کی آواز کا جادُو کائنات کی ہر شئے کو مسحور کر دیتا ہے۔ مومن خاں مومنؔ نے شاید لتا کے لیے ہی یہ شعر کہا تھا…
اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
“