اِررئیل فکشن ۔ 17
انگریزی افسانچہ
آخری راہگذر ( Last Promenade )
انٹونی جوہی ( Antony Johae )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ہم ہوٹل سے آئے تھے اور ڈھلوانی راستے پر اوپر چڑھ رہے تھے ۔ اس تنگ سڑک کے دونوں اطراف میں اونچے قدیم مکان تھے ۔ میں یہاں پہلے کبھی نہیں آیا تھا لیکن میں نے وہاں ایک ایسا ریستوراں دیکھا تھا جس میں لوگ خود ہی کھانا پروس لیتے تھے اور میں نے اپنی راکھیل سے ملاقاتوں کے دوران سوچا تھا کہ یہ کھانا کھانے کے لئے ایک مناسب جگہ تھی ۔
میں نے مُڑ کر دیکھا ۔ خوش نما لباس میں ملبوس ایک عورت ، جو باقیوں میں نمایاں تھی ، ہماری طرف دیکھ رہی تھی ۔
” کیا تم اس عورت کو جانتی ہو ؟ “ ، میں نے اپنی ساتھی سے پوچھا ۔
” ہاں“ ، اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا ، ” ہمیں الگ ہوجانا چاہیے ۔“
ہم ایک دوسرے سے پرے ہٹ گئے لیکن ساتھ ساتھ ہی چلتے رہے ۔ میں اس راستے پرچلتا رہا جو مزید ڈھلوانی ہوتا جا رہا تھا ۔ آخر میں مکئی کے کھیت کے کنارے جا پہنچا ۔ یہ اونچائی پر تھا اور میں نیچے ایک چھوٹی جھیل کو دیکھ سکتا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ میرے بائیں طرف ایک پیادہ سپاہی جھیل کے کنارے کی طرف بڑھ رہا تھا ؛ اس کے آگے ایک لڑکا تھا جو پانی میں گھس رہا تھا ۔ سپاہی نے جوتے اتارے اور اس کا پیچھا کرنے لگا ۔ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلتے رہے یہاں تک کہ پانی ان کے گھٹنوں تک آ گیا ۔
جب وہ آدھی جھیل پار کر چکے تو چٹان ، جس پر میں کھڑا تھا ، کی راس میرے آڑے آئی اور میں انہیں دیکھ نہ پایا ۔ میں چٹان کے کنارے پر جھکا اور مجھے لگا جیسے میں نیچے گرنے والا تھا ۔
” شاید کوئی یہاں سے ڈگمگا کر نیچے گرا ہو گا “ ، میں نے سوچا ، ” میں گر جاﺅں گا تو کوئی اور میری جگہ لے لے گا تاکہ سپاہی اور لڑکے کو جھیل کے وسط میں جاتا دیکھ سکے ، وہ بھی چٹان پر جھکے گا اور گر جائے گا تاکہ ایک اور تماشائی کے لئے جگہ خالی کر سکے ۔ ۔ ۔ اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک جھیل ان متجسس تماشائیوں کی لاشوں سے بھر نہ جائے ، اس وقت تک جب سارے سپاہی وہاں بلا نہ لئے جائیں تاکہ وہ ان بہت سے لڑکوں کو پکڑ سکیں جو جھیل کے وسط میں موجود ہوں ۔“
لیکن میں نے خود کو کنارے سے ہٹایا اور گہری ترائی میں اترنے لگا ۔ میں مکئی کے کھیت کے پاس سے ہوتا ، تنگ سڑک پر ریستوراں کے پاس سے ہوتا ہوٹل میں داخل ہوا جہاں میری راکھیل لاﺅنج میں میری منتظر تھی ۔
” ایک جاسوس یہاں آیا تھا “ ، اس نے سکون سے کہا ۔ ” وہ تمہیں گرفتا ر کرنا چاہتا تھا ۔ “
” کس جرم میں ؟ “
” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا “ ، اس نے کہا ، ” یہ جو بھی ہو ، تم قصوروار ہو ۔“
مجھے تب احساس ہوا کہ مجھ سے دغا ہوا تھا اور میں نے چاہا کہ مجھے چٹان سے ہی نیچے گر جانا چاہیے تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
82 سالہ برطانوی انٹونی جوہی برطانیہ کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں ادب کا استاد رہا ہے ۔ اب وہ اپنا وقت لبنان اور برطانیہ میں گزارتے ہوئے صرف لکھتا ہے ۔ 2015 ء میں اس کی شاعری کی کتاب ’ Poems of the East ‘ سامنے آئی ۔ اس کی کتاب ’ After-Images: Homage to Eric Rohmer ‘ اس برس متوقع ہے ( یاد رہے کہ Eric Rohmer ایک اہم فرانسیسی فلمی ہدایت کار ، نقاد ، صحافی ، ناول نگار ، سکرپٹ رائٹر اور استاد تھا ۔ وہ 89 برس کی عمر میں جنوری 2010 ء میں فوت ہوا ۔ وہ دیگر کے علاوہ اپنی فلموں ’ Contes moraux ‘ ، چھ فلموں کی سیریز ،کے لئے جانا جاتا ہے ۔) ۔ انٹونی جوہی نے دوستوفسکی اور کافکا پر اپنی پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھا تھا اور کافکا پر اس کی کتاب بھی جلد متوقع ہے جس میں اس کے لکھے کافکا پر مضامین شامل ہیں ۔
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...