(جو اب سرکاری لحاظ سے 'کالعدم' ہوچکی ہے)
لشکرطیبہ کی بنیاد انجنئرنگ یونیورسٹی کے دو اساتذہ حافظ سعید اور ظفراقبال نے 1991 میں رکھی۔ یہ اہل حدیث مکتبہ فکر کی جہادی تنظیم ہے۔ پاکستان میں اس کے 3 ہزار دفاتر اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ دو درجن سے زائد فوجی گوریلا ٹریننگ کے مراکز رہے ہیں۔ ('بلا اشتعال فائرنگوں کی سمجھ آتی ہوگی)۔ لشکرطیبہ کی بنیاد رکھتے ہوئے کہا تھا ، " ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی دلانے کے لئے کشمیر ایک داخلی دروازے کی حثیت رکھتا ہے"۔۔۔ یعنی پاکستانی ریاست بظاہر 'مسئلہ کشمیر' کو سرفہرست رکھے ہوئے ہے۔۔ لیکن اگر فرض کریں، کشمیر پاکستان کو مل بھی جائے۔۔ تو خطے میں امن نہیں ہونا۔۔ کشمیر بہانہ ہے۔۔ ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو آزاد کرانا ہے۔۔ وہ جو تقسیم کے وقت کا 'نامکمل ایجنڈہ' پاکستانی حکومت کہتی ہے۔۔ وہ دراصل ہندوستان میں ایک اور پاکستان بنوانا ہے، کشمیر تو محض ایک پہلا کامیابی کا قدم ہوگا۔۔۔۔!
لشکرطیبہ کا ہیڈکواٹر لاہور سے 30 کلومیٹر جی ٹی روڈ پر واقع مریدکے قصبہ میں تھا۔ اس مرکز کا رقبہ 190 ایکڑ سے زیادہ ہے، اس میں گارمنٹس، لوہے، لکڑی کے کارخانے، بہت بڑا تالاب، مذہبی یونیورسٹی اور گھوڑوں کا اصطبل بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ مرکز میں رہائشی کالونیاں ہیں۔ اس مرکز کی بنیاد 1987 میں رکھی گئی تھی۔ اس کے بانیوں میں ایک فلسطینی پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ عزام بھی تھا۔۔ جو پشاور کے قریب ایک بم دھماکہ میں مارا گیا تھا۔ لشکر طیبہ اپنے ارکان کو ملڑی ٹریننگ دے کر جہاد کے لئے بھیجتی رہی ہے۔ اپنے قائم کردہ اسکولوں، سماجی تنظیموں کے گروپوں اور مذہبی جہادی لٹریچر کے زریعے یہ عوام میں اپنی جڑیں بناتی۔ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں افسانوی مبالغہ آمیزی کے زریعے لوگوں میں جہاد کا جذبہ ابھارا جاتا ہے۔ تربیت کے دو مراحل تھے۔ ایک 21 دن کا تھا، دوسرا تین مہینے کا، جو سخت فوجی ٹریننگ تھی۔ اس میں گوریلہ جنگ، چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال ، گھات لگا کر دشمن پروار کے طریقے سکھائے جاتے۔ ایک مرحلے میں انٹی ائیرکرافٹ گن اور دستیاب اسلحے کو کھول کرجوڑنا بھی سکھایا جاتا۔ بم بنانا سکھایا جاتا۔ اور آخری مرحلے میں کمانڈو ٹریننگ بھی دی جاتی۔ اس کا ایک حصہ ' جمعیت المجاہدین ' بھی تھا۔
لشکر طیبہ میں شامل ہونے والوں کے نام فوری بدل دیئے جاتے، ان کے نام اصحابہ کرام ار اسلام کے مشہور سپہ سالاروں کے ناموں پر رکھ دیئے جاتے۔ لشکر میں شامل ہونے والوں کی اکثریت سرکاری اسکولوں، کالجوں سے پڑھ کرآنے والوں کی ہوتی۔ لشکر طیبہ میں ایسے افراد بھی شامل ہوئے،جو منشیات کے عادی، جرائم پیشہ یا سماج دشمن سرگرمیوں ملوث ہوا کرتے تھے۔ لشکر ایسے افراد کو خوش آمدید کہتا تھا۔ انہیں اسلام کی تعلیمات دے کر ' راہ راست ' لے آیا جاتا، اور جہاد کی طرف لگا دیا جاتا۔ انڈین کشمیر میں جو شہید ہوجاتے، انڈین فوج ان کو وہی دفن کردیئے ہیں۔ پاکستان میں ان کی جماعت کی طرف سے بڑی دھوم دھام کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی جاتی۔ شہادت کے ثواب اور درجات کو زیربحث لایا جاتا۔ غائبانہ نمازوں کے موقعوں پر لشکر کو مزید ریکروٹس مل جاتے، چندے بھی اکتھے ہوتے۔
لشکرکے مجاہد اگر انڈین فوجی پکڑ لیتے، تو ان کے گلے کاٹ کرقتل کردیتے، کئی دفعہ جسم کے دیگر اعضا بھی کاٹ دیئے جاتے، ایک دفعہ لشکر کا ایک مجاہد بھارتی فوجی کا سرکاٹ کر پاکستان لے آیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں لشکر کے سربراہ کا کہنا تھا، " قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاو" ۔
2001 تک لشکر کے دعوے کے مطابق ان کے 1100 افراد شہید ہوچکے تھے، اور 15 ہزار بھارتی فوجی قتل۔ چوبرجی لاہور میں لشکر طیبہ کی پراپرٹی ، المرتضی ٹریننگ کیمپ حیدرآباد، مرکز دعوی الارشاد کی مارکیٹ ویلیو۔۔ کئی ارب روپے تک ہے۔ اسی طرح ان پر کروڑون کا سالانہ خرچہ ہوتا رہا ہے۔
17 دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد امریکی دباو میں پرویز مشرف نے جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی تو لشکر طیبہ بھی اس کی زد میں آ گئی۔ پابندی کے بعد لشکر نے اپنا نام جماعت الدعوۃ رکھ لیا۔ نائن الیوین کے بعد حافظ سعید نے لشکر سے علیحیدگی اختیار کرلی۔ اس کے بعد حافظ سعید کو کچھ عرصے کےلئے نظربند بھی کردیا گیا۔ حافظ سعید پر پاکستانی اسٹیبلش منٹ ہمیشہ مہربان رہی ہے۔ انٹیلی جنس حلقے ان کو دیگر جہادی تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ " ملنسار اور معاونت" کرنے والے سمجھے جاتے رہے ہیں۔ حافظ صاحب جب اور جس قدر چاہیں، " کشمیر مین کنٹرولڈ جہاد کروا سکتے ہیں" ۔ جماعت الدعوی کے بھرتی کے اشتہاروں میں مفت خوراک، رہائش اور ٹرانسپورٹ کا لالچ دیتی ہے تاکہ غریب آبادی سے زیادہ نوجوان بھرتی ہوسکیں۔ ایک زمانہ تھا، ان کے کارکن مسجدوں کے باہر پمفلٹ کتابچے تقسیم کرتے نظر آتے تھے۔ اس لٹریچر کو پڑھنے کے بعد زہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا تھا۔ کہ دہلی، تل ابیب، اور واشنگٹن پر جلد ہی اسلام کا پرچم لہرائے جانے والا ہے۔ لشکر اور جماعت دعوی والے اس بات پر خاص طور زور دیتے ہیں۔ ہندو اور یہودی اسلام کے بدترین دشمن ہیں۔
2005 کے زلزلے میں جماعت الدعوہ نے برطانیہ کے شہروں سے 10 ملین پاونڈز چندہ اکٹھا کیا تھا۔ لیکن امدادی کاموں میں اس سے آدھا خرچ کیا۔ باقی تنظی کے عسکری یا ذاتی کھاتوں میں استعمال ہوا۔ 5 فروری 2007 میں لاہور میں القادسیہ مسجد میں خطاب کرتے حافظ سعید نے کہا، " جہاد کشمیر اس وقت ختم ہوگا، جب بھارت میں تمام ہندووں کو تباہ کردیا جائے گا۔ جہاد اللہ تعلی کا حکم ہے کسی جنرل کا نہیں"۔ لشکر طیبہ نے 2008 میں ممبئی پر حملہ کرکے 175 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ س پر اقوام متحدہ نے لشکرطیبہ کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے پابندیاں لگا دیں۔ اس کے بعد اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مریدکے کے مرکز میں سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا گیا۔ حافظ سعید اور زکی لکھوی نظربند کردیئے گے۔
حکومت نے جماعت الدعوۃ کی اردو اور انگریزی کی ویب سائٹس بند کردی۔ لیکن تنظیم کا رسالہ " غزوہ" نفرت پر مبنی مواد کے ساتھ مسلسل شائع ہوتا رہا۔ غزوہ نے ممبئی حملے کی سٹوری چھاپی، اور اسے مسلمان جنگجووں کیا ایک تاریخی فتح قرار دیا (پاکستان کا سرکاری موقف تھا کہ لشکر اور جماعت الدعوہ کا کا کوئی تعلق نہیں) ۔ اس شمارے میں یہ بھی دعوی کیا گیا، کہ 4500 مزید سورماوں نے تنظیم میں شمولیت کی ہے۔ جب کہ 83 ماوں نے دو دو بیٹے جماعت کے سپرد کئے ہیں۔۔ ان کی منزل اسلام کی ترویج، دفاع، اور بھارتی مسلح افواج کے خلاف جہاد کرنا ہے۔
ممبئی حملوں کا چیف پلانر لشکر طیبہ کا زکی الرحمن لکھوی ضلع اوکاڑہ قصبہ رینالہ خورد کا تھا۔ ممبئی حملون میں واحد زندہ گرفتار اجمل قصاب بھی اسی ضلع کا رہنے والا تھا۔ لکھوی کی ہمشیرہ کی شادی ایک امیر سعودی باشندے ابو عبدالرحمان سے ہوئی، جو اسامہ بن لادن کا باعتماد کارکن تھا۔ ابو عبدالرحمان نے 1988 میں مرکز دعوۃ کے لئے 10 ملین روپے د یئے تھے۔ کارگل جنگ سے چار ہفتے قبل لکھوی نے 12 اپریل 1999 نے نیشن کو انٹرویو دیتے کہا تھا، وہ پہلے ہی پاک بھارت جنگ کی تیاری کرچکے ہیں۔ بھارت کے اندر زیادہ سے زیادہ مجاہدین تیار کرنا ہمارا ٹارگٹ ہے۔ ہم بھارتی مسلمانوں کو تیار کررہےہیں۔ اور جب وہ تیار ہوجائیں گے، تو بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا دن ہوگا۔ مریدکے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہم نے انڈیا کو سبق سکھانے کےلئے فدائین روانہ کردیئے ہیں۔ ہمارا اگلہ مشن دہلی ہوگا۔۔۔ یہ اس وقت کہا جا رہا تھا جب کارگل سے پاکستان کی پسپائی ہوچکی تھی اور نواز شریف کلنٹن سے ملاقات کرکے پاکستان کو جنگ سے بچانے کی منتیں کررہا تھا۔
لکھوی کا خیال تھا کہ حافظ سعید کشمیر جہاد کے فنڈز ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ جب حافظ سعید نے لشکرسے علحیدگی کا اعلان کیا۔ لکھوی کے کچھ ہمدردوں نے حافظ سعید کو قتل کرنے کی قسم بھی کھائی۔ لیکن بعد ازاں فوج اور خفیہ اداروں کے افسران نے صلح کرا دی۔۔۔ لکھوی مظفرآباد میں مجاہدین کو ٹریننگ دے کرکشمیر بھیجنے میں مصروف رہا۔ لشکرکے ممبئی حملوں نے پاک بھارت تعلقات کو کھائیوں میں دھکیل دیا، اور مسئلہ کشمیر پرجو پیش رفت ہوچکی تھی، وہ بھی سرد خانے میں چلی گی۔
جنرل مشرت نے 5 جہادی تنظیموں پر (جن کی پرورش ان کی فوج نے ہی کی ہوئی تھی) پابندی لگا دی، تو وہ زیرزمین چلی گے اور انہوں نے اپنے متبادل منصوبے تیار کرلئے۔ مریدکے کی طرز پر بہاولپور میں بھی ایک مرکز قائم کیا گیا، جو حکومت کی چھتری تلے جہادی انفراسٹرکچر بنا رہے تھے۔ جہاں پر طلبا اپنےہاتھوں کلاشنکوفیں لئے پھرتے تھے۔ گاوں کی دیواروں پر ایمان نہ رکھنے والوں کے خلاف جہاد کے نعرے درج تھے۔
یاد رہے ہمارے جنرلوں اور حکومتی موقف عالمی سطح پر یہ رہا ہے کہ پاکستان انڈین کشمیر کے لوگوں کی پرامن جدوجہد کی حمائت کرتا ہے۔۔ اور پاکستان سرزمین انڈیا کےخلاف استعمال نہیں ہوتی۔ میرا ملک، میرا وطن، میری ریاست، میری حکومت۔۔ دنیا اور اپنے عوام کے سامنے ہمیشہ ، مستقل جھوٹ کیوں بولتی ہے؟ پاکستان کی داخلی سیاست اور خارجہ امور جھوٹ پر کیوں قائم ہیں۔۔؟ کیا یہ تکلیف دہ امر نہیں؟ ہم ایک مستقل جھوٹ بولنے والی ریاست کے شہری ہیں؟
اس مضمون میں سب معلومات کتاب ' پنجابی طالبان ' مصنف مجاہد حسین سے لئے گے ہیں۔
“