::: " لسانی تشکیلات کا مختصر ماجرا اور افتخار جالب" :::
اردو میں لسانی تشکیلات ساتھ /۶۰ کی دہائی میں ایک ایسا جارحانہ رویہ تھا ۔ جس میں ماضی کے لسانی ڈھانچے پر سوالات اٹھائے۔ اور لفظیات کے نئے آفاق کو ترتیب دیا۔ لسانی تشکیلات کی تحریک یا روّیے کی مباحث افتخار جالب نے شروع کی۔ ان کا انسانی مسائل اور لسانی لہجے میں اظہاری انسلاک نظر نہیں آتا۔ جس میں شاعری کے ابہام ابھرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ماضی اور ناسٹلجیائی فضا اس سے متعلقہ تمام روایات اپنی موت آپ مرچکی ہے۔ ان کے خیال میں لغوی اور شعری معنئی کے فرق ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ لیکن افتخار جالب نے لغوی اور کشافی معنویت کے خلاف اپنا علم بغاوت اٹھا کر نعرہ قلندر بلند کیا کہ قواعد { گرائمر} ، اجتماعیت اور ابلاغ تک توسیع دے دی جس سے چند مغاطے بھی پیدا ہوئے۔ افتخار جالب نے کلاسکیل اردو شاعری کے لسانی کے جمالیاتی اور اظہاری لیجے کے علاوہ ترقی پسند شعریاتی زبان پر سخت تنقید کی۔ حالانکہ افتخار جالب کو جھکاو بائیں بازو کی جانب تھا ، وہ ٹریڈ یونینست تھے۔ اور ٹریڈ یونینسیت سرگرمیوں میں فعال حصہ لیتے کی پاداش میں ان کو الائید بنک نوکری سا ہاتھ دھونا پڑا۔ مگر بعد میں وہ اس نوکری پر بحا ل بھی ہو گئے تھے ۔ افتخار جالب دراصل نحوی ترکیب کو " درہم برہم" مفہوم کہ کر نیا شعری باطن تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ وہ معنی اور در معنی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے۔ اور معنی میں معنی کو تلاش کرتے رہے۔ وہ زنگ آلود افکار ، فرسودہ تراکیب، رموز، پامال کلمات، بدبو دار تشبہیات اور استعاروں کے خلاف آواز اٹھائی۔ کیونکہ ان کو رومانیت کے متاثر اردو شاعری میں خون میں لتھٹرے خنجر، لاشین اور اور آسیب زدہ مریضانہ اور ٹھر کی پن نظر آتا ہے۔ اور انھون نے اس جامد اسلوب شعر اور پھیکے جذبات کے خلاف آواز بلند کی۔ مگر ان کے قبیلے میں شامل شعرا ان کی بات کو نہیں سمجھ سکے اور ایک مضوعی و واہماتی دنیا کی شاعری کرتے رہے اور اردو میں " نئی نئی شاعری" خلق نہیں کرسکے۔ اس سلسلے مین افتخار جالب نے اپنی کتاب " لسانی تشکیلات اور قدیم بنجر پن ' {۲۰۰۱} میں یہ سوال اٹھایا ہے۔"ہمارے گلوبلا ئزڈ پچھواڈے میں بوگن ویلیا کی بھولھوں بھری بیلین سے ہوتا ہے"۔ وہ اپنے خیال کی تشریح یوں کرتے ہیں۔ " لسانی تشکیلات اساسی طور پر شعر وادب کی نیابت کرتی ہے۔ مواد کو اس ہیت میں دیکھنا رائج الوقت الحاقی محاکموں سے نجات ہی نہیں دلاتا بلکہ اس جوہر خاص کو بلا شرکت غیر ممیّز کرتا ہے "۔ اس سلسلے میں محمد علی صدیقی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔۔ ’’ پاکستان میں نئی شاعری کے ہوا خواہ کسی ایک گروپ سے تعلق نہیں رکھتے اگر ایک گروہ پرانے علم الکلام اور متصوفانہ نظریات کی معطر فضاؤں میں رجعت کا خواہاں ہے تو دوسرا ’’ ویجنسائن ‘‘ دوست اور تجربیت دشمن ہے اور تیسرا جدید نظم کے مینی فیسٹوکی ابتدا سے کرتا ہے۔ بظاہر یہ کوئی مربوط اور منظم گروہ نہیں بلکہ لسانی تشکیلات کے متصوفانہ خیال سے پرائیویٹ طور سے لطف اندوز ہونے والا ایک متضاد گروہ ہے۔ جو تعمیر و ترقی کی قوتوں کی وضاحت پسندی اور متاثر کن طاقت کو زائل کرنے کے لئے لفظی، توصیفی اور جذبہ انگیز (Verbal, Qualitative &Emotive ) اظہار کو ہدف ملامت بناتا ہے اور خود اپنی شاعری کو ممیز کل اور جدا (Discreet, Total are individual ) قرار دے کر شعری اضافیت کے فروغ سے شعراء کو سیاسی و سماجی وابستگی کے آورشوں سے ہٹا کر خانقاہوں کے سپرد کر دینا چاہتا ہے۔" {محمد علی صدیقی،ڈاکٹر،توازن،کراچی،ادارۂ عصرِ نو،۱۹۷۶ء،ص۵۱} گئیں۔1958ء کے مارشل لاء نے خراب سیاسی نظام کو سنبھالنے کی بجائے اسے طرح طرح کے مسائل سے دو چار کر دیا۔ایک سیاسی اور فکری خلا پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں معاشرتی سفر کا رخ خارج سے باطن کی طرف مڑا۔موضوعات کی بجائے فنی اور لسانی بحثوں نے اہمیت حاصل کی اور انداز و اظہار میں ترسیل و ابلاغ کے مسائل نے جنم لیا۔1960ء کے قریب نئی لسانی تشکیلات کی بحث نے نظم کو زیادہ اور اس کے بعد افسانے کو متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے کم پڑا۔ موضوعاتی طور پر یہ دروں بینی کا دور ہے۔ جلیل عالی نے لکھا ہے ۔ "بڑی تخلیقی واردات کے کثیر الجہت ثمرات میں نئی لسانی پیش رفتوں کا عمل بھی شامل ہے۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ۱۹۶۵۔ ۱۹۶۶ میں جب میں پنجاب یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا طالب علم تھا، یہ لسانی تشکیلات کی بحثوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان بحثوں کے بڑے آغاز کار افتخار جالب سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔ میں طالب علمانہ بے باکی میں بہت کچھ غلط سلط بھی کہہ جایا کرتا تھا۔ اسی رو میں میں نے ایک نشست میں ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ جناب نئی لسانی تشکیل مضامین لکھنے سے نہیں ہوتی۔ بڑی تخلیق واردات خود بخود یہ کارنامہ سر انجام دے جاتی ہے۔ آج بھی اس تحریک کے تحت لکھی ہوئی تحریروں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ مثال کے طور پر بھی کہیں شعرِ اقبال، بالخصوص’ بالِ جبریل‘ کا حوالہ دکھائی نہیں دیتا۔ کیایہ بھی اپنی تخلیقی روایت سے بے اعتنائی ہی کا شاخسانہ نہیں!"
"افتخار جالب نے ساٹھ کے لگ بھگ لسانی تشکیلات تصور پیش کیا اور اس پر اردو میں اتنی ہے لے دے ہوئی جتنی کہ دریدا کے ردِ ساختیات یا ڈی کنسٹرکشن کے معاملے پر برطانوی مدرسوں نے دکھائی۔ ہر تخلیقی اور غیر روایتی تصور کی آمد مدرسوں اور مدرسانہ ذہن رکھنے والوں میں اسی نوع کا ردِ عمل پیدا کرتی ہے لیکن اس کا کیا جائے کہ وسیع تر رسائی کے وسائل پر ان چھُٹ بھیّوں کو ہی بالا دستی اور اجارہ داری حاصل ہوتی ہے اور افتخار جالب کا سا تخلیقی باطن اور اور ضمیر علی جیسی فکری و معنویتی رسائی رکھنے والے اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔ افتخار جالب کا تصورِ لسانی تشکیلات اسی ماورائے متن کا استعارہ ہے جو ساختیات اور ردِ ساختیات کی جدلیات میں موارائے متن معنی کو دریافت کرنے اور پھر اسکے مسلسل آگے سے آگے جانے پر اصرار کرتا ہے"۔ {'ژاک دیدار اور بدایونی' از انور سن رائے}
افتخار جالب نے لسانی تشکیلات کے حوالے سے پانچ نکات اٹھائے ہیں۔
۱۔ نظم و نثر کا ظاہری اور فروعی فرق چندان اہمیت نہیں رکھتا
۲۔ نظم و نثر کا بنیادی فرق زبان کے استعمال کا فرق
۳۔ زبان کا غیر معروضی، غیر منطقی، اور جذباتی اسلوب اس کے رک وپے میں ہے۔
۴۔ زبان کا شعری باطن ہر مرتبہ تخلیق کیا جانا چاہیے
۵۔ استعارتی فلک اور الا افلاک وہ انتہائی حالت ہے جہاں ہر معنئی و مفہوم کا سلیقہ غیر معروضی قرینوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ استعاراتی فلک الافلک کو پالینے کے بعد حقیقت حال کی طرف مراجعیت لازمی ہو جاتی ہے"۔۔۔
کسی ادبی فن پارے کا اسلوبیاتی مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر معروضی ، توضیحی، تجزیاتی اور غیر تاثراتی انداز میں کیا جا سکتا ہے اور ہر سطح پر اس کے (ادبی فن پارے کے) اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جا سکتاہے۔ اس میں داخلیت (Subjectivity)یا ذاتی پسند و نا پسند کو ہرگز کوئی دخل نہیں ہوتا نیز اقداری فیصلوں سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔ لسانیات کی پہلی سطح ، صوتیات ، (آوازوں کی تشکیل اور ان کی ترتیب و تنظیم) ہے۔اس کی دوسری سطح تشکیلیات ( تشکیل و تعمیر الفاظ) اور تیسری سطح ، نحو، (فقروں اور جملوں کی ترتیب) ہے ۔ لسانیات کی چوتھی سطح، معنیات کہلاتی ہے جس میں معنی سے بحث کی جاتی ہے۔قاضی جاوید نے لکھا ہے کہ " جالب نے ادب کی لسانی بینادوں کو اہمیت دی اور یہ تصور پیش کیا کہ ادب شاعری زبان سازی کے عمل سے وجود میں اتی ہے۔" " لسانی تشکیلات اورقدیم بنجر " کے صفحے پر افتخار جالب رقم طراز ہیں" ۱۹۵۱ سے ۱۹۵۷ تک لاہورکا ادبی منچ رن بھومی بنا ہوا تھا۔ گھمسان کی جنگ لڑی جاری تھی۔ ایک ادبی حلقہ جس کے علم بردار ظہیر کاشمیری، ممتاز حیسن اور قتیل شفائی وغیرہ تھے۔ یہ کہتے ہوئے سنے جارہے تھے کہ " یہ نئی نئی شاعری کیا بلا ہے؟ سب خرافات ہے "۔ اس حوالے سے " نوائے وقت" "امروز" ، مشرق"، " پاکستان ٹائمز ، اور " ڈان" کے کالموں کا انبار لگ گیا تھا۔ سلیم احمد اور احمد ہمدانی الگ گولہ باری پر تلے ہوئے تھے۔ اور انیس ناگی، جیلانی کامران اور افتخار جالب کو چومکھ لڑنا پر رہا تھا اور حلقہ ارباب ذوق کا کردار اس وقت ایک آزاد براڈ کاسٹنگ ہاوس کا تھا۔ عارف امان اور عزیز الحق { افتخار جالب کے قائد} نے حلقہ ارباب میں ہفتےوار تحریریں اور زبانی یلغار شروع کردی تھی۔ قیوم نظر، شہرت بخاری اور ناصر کاظمی نے بھی نئے شاعروں کی ٹھکائی شروع کردی تھی۔ گویا نئے شاعروں نے جن میں انیس ناگی، عباس اطہر، زاہد دار، جیلانی کامران، مبارک احمد اور دوسروں کا حال یہ تھا کہ کھائیں کدھر کی چوٹ بچائیں کدھر کی چوٹ" ۔۔۔۔ لسانی تشکیلات کا اثر نثری نظم پر بھی پڑا۔ ردتشکیلت کی نظریاتی تنقید پر بھی لسان ی تشکیلات نے گہرے اثرات ثبت کئے۔ کیونکہ یہ لسانی تشکیلات ماورائی متن کی فکری ساخت ہے۔ جو لسانی ساخت کو اپنے طور پر مسترد کرتی ہے۔ ۱۹۵۰ کی دہائی میں محی الدیں زور قادری صاحب نے اپنی کتاب " معنئی شکن" میں اس قسم کی مباحث شروع کی تھیں۔۔ جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ لسانی تشکیلات کے مزاج میں نفی دانش اور توڈ پھوڈ کم ہوگئی ہے اور اب یہ جارحیت پسند بھی نہیں رہی۔ اور لسانی، شعری اور فکری نراجیت بھی دم توڈ چکی ہے۔۔ لسانی تشکیلات کے حوالے سے ڈاکڑ روبینہ ترین نے ایک بہتریں تحقیقی مقالہ بعنوان " ملتان میں لسانی تشکیلات کا عمل اور دوسرے مضامین" لکھا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔