محلے میں شائستہ کی چیخیں اور اس کے چار چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں تھیں اور آدھا محلہ چھت کی منڈیر پہ اور باقی آدھا اپنے گھروں کے دروازے کے باھر کھڑا تبصرہ کر رہا تھا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، جیدے (جاوید) کا دماغ ہر وقت تپتی کڑاہی میں رہتا ہے، شیستا (شائستہ) بیچاری کی تو ہاری گئی
جاوید اور شائستہ کی شادی کو چار سال سے اوپر ہو گئے تھے. جب شائستہ پہلی بار دلہن بنی گھر پہنچی تو محلے کی کتنی ہی خواتین جل بھن گئی تھیں. ایک تو شائستہ کا سرخ لہنگا بہت خوبصورت تھا، اس پہ شائستہ کے چست بدن پہ سج بھی بہت رہا تھا. دوسری وجہ شائستہ کی صاف رنگت اور اونچا قد تھا. جاوید کی لاٹری نکل آنے پہ خوش جاوید کے سوا اور کون ہو سکتا تھا
پہلی لڑائی کب ہوئی ہو گی، معلوم نہیں.. مگر پہلی لڑائی جو سارے محلے میں سنی گئی، وہ شادی کے تیسرے چوتھے ہی ہفتے میں ہوئی تھی. بات گالیوں سے نکل کے مار پیٹ تک پہنچ گئی تھی جب محلے والے چھڑانے پہنچے
جاوید اپنی بجلی کے ساز و سامان کی دوکان سے لوٹا تھا اور شائستہ نے ابھی تک توا چولہے پہ نہیں دھرا تھا. سو جاوید کا دماغ چولہے پہ چڑھ گیا اور لڑائی مارپیٹ سے 'طلاق' تک پہنچ گئی. کوئی پانچ سات بار طلاق طلاق کہنے کے بعد اور محلے والوں کے بیچ بچاؤ کے بعد جاوید چھت پہ سگریٹ پھونکتا ٹہلنے لگا اور شائستہ آنسو پونچھتی، پسلیاں سہلاتی چولہے میں پھر سے آگ جلانے لگ گئی جو لڑائی کے دوران بجھ گئی تھی
پھر دوسری تیسری لڑائی اور لڑائیوں کا ایک سلسلہ ، پھر وہی روٹین کی مار گالیاں، وہی ہر بار کی طرح طلاقوں پہ طلاقیں اور ہر سال نیا بچہ پیدا کرتے جانا
محلے والوں کو اس بات سے اتنا مسئلہ نہیں تھا کہ جاوید باؤلا ہو جاتا ہے، جب دل کرتا ہے اور جس شے سے دل کرتا ہے، شائستہ کو پیٹ کے رکھ دیتا ہے، محلے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنی طلاقوں کے بعد وہ چار سال سے اکٹھے ہیں اور چار بچے جن چکے ہیں
یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی اور اب کے لڑائی پہ محلے والوں نے گاؤں کے نمبردار کے ہاں ایک میٹنگ رکھی اور پھر وہاں جاوید اور اس کے گھر والوں کے ہمراہ شائستہ اور اس کے والدین کو بھی بلا بھیجا
سب لڑائیوں کی وجوہات اتنی چھوٹی تھیں کہ سننے والا بھی خود کو چھوٹا محسوس کرتا مگر وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے، جنہیں نہ لڑائی سے کوئی مسئلہ تھا نہ لڑائی کی وجوہات بارے کوئی فکر تھی، انھیں فکر تھی کہ اتنی طلاقوں کے بعد اکٹھے رہنا، گاؤں کو گناہوں کے بوجھ تلے دبا دے گا. گاؤں میں کسی کی بھینس چوری ہو یا دوسرے کی فصل میں کسی کی بکری کے چرنے کی وجہ پہ ہوئی لڑائی، سب شائستہ اور جاوید کے اکٹھے رہنے اور بچے جننے کے کارن تھے
گاؤں کے مولوی صاحب بھی وہاں موجود تھے. اونچی لمبی سرو قد شائستہ سر جھکائے اور کبھی کے خوبصورت چہرے کو دوپٹے میں چھپائے کرسی پہ بیٹھی تھی، جاوید کی انگلیوں میں ہمیشہ کی طرح سگریٹ دبی تھی اور دھواں اوپر چھت کو چھونے کی ناکام کوشش میں لگا تھا
اور پھر فیصلہ سنا دیا گیا. چونکہ ایک نہیں، سینکڑوں طلاقیں ہو چکی ہیں، اس لیے شائستہ اور جاوید آج کے بعد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور شائستہ اپنے والدین کے گھر عدت کی مدت پوری کرے گی
ایک خاموشی سی تھی. سگریٹ کا دھواں مر چکا تھا اور شائستہ کرسی پہ اور کُبّی ہو گئی تھی. جب بات بچوں پہ پہنچی اور مولانا نے چاروں بچوں کو "حرام اولاد" قرار دیا تو بے ساختہ شائستہ کا ہاتھ اپنے ابھرے ہوئے پیٹ پہ جا ٹکا