عبدل چچا ہمارے محلے میں پاو بیچتے تھے. روزآنہ صبح سویرے وہ آواز لگاتے:
پاو لے لو ، بریڈ لے لو، بسکٹ لے لو،،.
ان کی آواز سنتے ہی گھروں سے عورتیں اور بچے باہر آتے، عبدل چچا کا مال بہت اچھا ہوتا، ان کی زبان بھی بہت میٹھی تھی اس لیے بہت آسانی سے سارا مال ہمارے محلے میں ہی بک جاتا. عبدل چچا کے صرف ایک ہی پیر تھا اس لیے بہت سے لوگ ان کو لنگڑے بابا بھی کہہ کر بلاتے تھے. عبدل چچا لنگڑے بابا کہنے سے ناراض نہ ہوتے تھے.
ایک دن جب عبدل چچا اپنے ہاتھ رکشے (وہ رکشہ جو ہاتھ سے چلایا جاتا ہے) سے ہماری بلڈنگ میں پاو بیچنے آے تو اچانک تیز موسلادھار بارش ہونے لگی. عبدل چچا پاو بیچنے کے بعد واپس جانا جاہتے تھے مگر بارش بہت زوروں کی تھی. قمر عبدل چچا کے لیے ایک کرسی لے آیا. وہ آرام سے کرسی پر بیٹھ گئے . قمر کو بڑے بوڑھوں سے بات کرنے کا بہت شوق ہے اس نے عبدل چچا سے باتیں کرنی شروع کیں.
اچانک قمر نے ان سے ایک بات پوچھ لی، کہنے لگا:
"عبدل چچا آپ کا تو ایک پیر غائب ہے، اگر آپ کسی مسجد کے سامنے چادر ڈال کر بیٹھ جاتے تو پاو بیچنے سے چار گنا زیادہ کمائی ہوتی، آپ معذور بھی ہیں اس لیے آپ کے لیے بھیک مانگنا بھی جائز ہوتا.،،
عبدل چچا نے قمر کی بات سنی تو ہنسے اور کہنے لگے:
" بیٹا تمہاری بات تو ٹھیک ہے، ایک زمانے میں میرا بھی یہی خیال تھا، میری عمر یہی کوئی دس سال کے آس پاس رہی ہوگی، پاوں میں ایک پھوڑا نکل آیا جو زہر باد کی شکل اختیار کر گیا. ڈاکٹروں کو مجبورا میرا پاوں ران کے پاس سے کاٹنا پڑ گیا. میرے والدین کم پڑھے لکھے تھے. میں اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، اس حادثے کے بعد میری پڑھائی بھی ختم ہوگئی. میں کئی سال تک گھر پر بیکار پڑا رہا، ایک دن محلے کے ایک آدمی نے مجھے مشورہ دیا کہ شہر کی درگاہ کے باہر میں ایک چادر بچھا کر بیٹھ جاوں، آنے جانے والے خود ہی میری حالت پر رحم کھا کر کچھ نہ کچھ دے دیا کریں گے.
مجھے اس آدمی کا مشورہ پسند آیا، وہ آدمی مجھے سائیکل پر بیٹھا کر درگاہ کے گیٹ تک چھوڑ گیا. میں نے درگاہ کے سامنے چادر بچھائی اور بیٹھ گیا، شام تک میرے پاس پندرہ بیس روپے آگئے تھے. میں اپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھا. دس پندرہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا جو آدمی مجھے لا کر چھوڑتا تھا میں اسے بھی شام میں پانچ روپیہ دے دیتا تھا. ایک دن ایک عجیب معاملہ ہوا،میں جب صبح درگاہ کے سامنے پہنچا تو دیکھا مجھ سے پہلے ہی ایک آدمی میری جگہ پر چٹائی بچھاے بیٹھا ہے. اس کے دونوں پاوں نہ تھے اور وہ ایک آنکھ سے بھی محروم تھا. میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو مجھ سے بھی زیادہ معذور بھک منگا آگیا ہے. اب مجھے بھیک کم ملے گی. پھر میں نے دیکھا وہ آدمی اپنے جھولے سے طرح طرح کے سامان نکال رہا ہے، ٹوپی، رومال، تسبیحات، سیپارے،کتابیں ،مسواک وغیرہ، اس نے وہ سامان چٹائی پر پھیلا دیے اور آواز لگا لگا کر بیچنے لگا.تھوڑی دیر میں اس کا بہت سا مال بک گیا.
میں نے روزآنہ کی طرح اس سے تھوڑی دور اپنی چٹائی بچھائی اور چپ چاپ بیٹھ کر بھیک مانگنے لگا. دوپہر میں جب آنے جانے والوں کی بھیڑ کم ہوئی تو اس دونوں پیر کے لنگڑے آدمی نے مجھے اپنے پاس بلایا، ایک روپیہ بھیک دی، کھانے کے لیے تھوڑی سی مٹھائی دی اور پھر کہنے لگا:
"بھائی تم کو کیا مجبوری ہے کہ تم بھیک مانگ کر اپنا پیٹ بھرتے ہو، تم مجھ سے زیادہ معذور تو نہیں ہو،،.
میرے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا پھر وہ کہنے لگا:
" اللہ کا شکر ادا کرو، تمہارا پورا جسم سلامت ہے، صرف ایک پاوں نہیں ہے، تم اگر تھوڑی سی کوشش کرو تو باعزت طریقے سے اپنے ہاتھ کی کمائی کھا سکتے ہو، ذلت کے ساتھ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اچھی بات نہیں ہے. ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے گداگری(بھیک مانگنے) کو ناپسند کیا ہے. آپ نے فرمایا:قیامت کے دن بھیک مانگنے والے کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا.،،
تم خود سوچو، بغیر گوست کا چہرہ کیسا ڈراونا اور برا لگے گا، میری مانو تو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردو.،،
وہ آدمی مجھے دیر تک سمجھاتا رہا، اس نے مجھے بہت سے کاروبار بھی بتاے. اس نے مجھ سے کہا:
" کل تم اسی سائیکل پر بیٹھ کر الخیر اسلامی بینک آو تو میں تمہیں ایک ہاتھ رکشا دلا دیتا ہوں، تم ہر ہفتے الخیر بینک کو پچیس پچیس روپے واپس کردینا، میں نے بھی یہ ہاتھ رکشا وہیں سے لیا تھا.،،
اگلے دن میں نے الخیر اسلامی بینک سے ہاتھ رکشا لیا، اس معذور آدمی نے مجھے شہر کی مشہور انداز بیکری کے مالک عبدالمنان صاحب سے ملایا اور دو سو روپے کا مال دلایا. وہ دن آج کا دن،پندرہ سے بیس سال ہوگئے. اب تو ماشاء اللہ میں روزآنہ پانچ ہزار روپے کا مال بیچتا ہوں اور پانچ سو سے سات سو روپیہ روزآنہ کما لیتا ہوں. الحمدللہ میں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا، ایک غریب لڑکی سے میری شادی بھی ہوئی،میری بیوی بھی بہت محنتی ہے وہ محلے والوں کے کپڑے سیتی ہے، روزانہ وہ بھی سو دوسو کما لیتی ہے.میرے تین بچے ہیں، تینوں اسکول جاتے ہیں. اللہ نے میرا ایک پاوں ہی واپس لیا تھا بقیہ پورا جسم تو سلامت ہے، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنی محنت سے حلال روزی کماتا ہوں.،،
بارش بند ہوگئی تھی اس لیے عبدل چچا نے اپنا رکشا باہر نکالا اور اپنے گھر کے لیے روانہ ہوگئے.
قمر سوچ رہا تھا کہ عبدل چچا گرچہ کم پڑھے لکھے اور اپاہج انسان ہیں مگر ان کے خیالات کتنے بلند ہیں. قمر کے دل میں عبدل چچا کا رتبہ اور بڑھ گیا تھا.
کہانی دہراو
1. لنگڑے عبدل بابا کیا کام کرتے تھے؟
2. بچپن میں عبدل بابا کیسے ایک پاوں سے محروم ہوگئے تھے؟
3. عبدل بابا نے کس کے مشورے سے بھیک مانگنا چھوڑ دیا؟
4. پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بھیک مانگنے والے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟
5.عبدل بابا کی بیوی کیا کرتی تھی؟
6. قمر کے دل میں عبدل بابا کا رتبہ کیوں بڑھ گیا؟